ColumnJabaar Ch

سسٹم

جبار چودھری
سسٹم بنانے والوں نے اس بات کا خاص رکھا ہے کہ یہ سسٹم کبھی بھی کسی کے بھی ہاتھوں اتنا ڈیلیور نہ کرنے پائے کہ سسٹم بنانے والے ہی غیر متعلقہ سمجھ لیے جائیں اور نہ ہی اتنا کمزور ہونے پائے کہ سسٹم ٹوٹ ہی جائے۔ یہ دونوں چیزیں اس سسٹم کا حصہ بنائی گئی ہیں اس لیے یہ سسٹم نہ ٹوٹتا ہے اور نہ ہی کسی کا کچھ بننے دیتا ہے۔ اس سسٹم سے فائدہ اٹھانے والے اس سسٹم کے اندر ہی موجود ہیں اور بیشتر وہ ہیں جو اس سسٹم کو چلانے والے ہیں۔ ان کو اس سسٹم کی کمزوریوں کا بھی بخوبی علم ہے اور وہ طاقت سے بھی آگاہ ہیں۔ عام طورپر تو یہ قانون ہے کہ کسی اچھی چیز اور کامیابی کا کریڈٹ اگر اوپر بیٹھا ہوا شخص یعنی لیڈر یا سربراہ لیتا ہے تو ناکامی کی ذمہ داری بھی اسی کی ہوتی ہے لیکن اس سسٹم میں ساری خوبیوں اور کامیابیوں کا کریڈٹ اوپر بیٹھا شخص لیتا ہے لیکن ناکامیوں کی ذمہ داری ماتحتوں پر ڈال کر انہیں وقتی طور پر ہٹا کر کسی کی انا کو تسکین پہنچا دی جاتی ہے۔
پنجاب میں نگران حکومت ہے اور محسن نقوی عارضی وزیراعلیٰ پنجاب ہیں۔ محسن نقوی کے دور حکومت میں چینی کی قیمت ایک سو نوے روپے فی کلو تک بڑھ گئی۔ نقوی صاحب کمپنی کی مشہوری کے لیے بہت زیادہ کام کرنے کے لیے مشہور کیے گئے ہیں۔ ان کی نگرانی میں چینی کہاں سے کہاں پہنچ گئی کہ لوگوں کی چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔ پنجاب کے سیکرٹری خوراک زمان وٹو نے چینی مہنگی ہونے کی وجوہات پر ایک رپورٹ بنائی۔ اس میں چینی کے مافیاز، ڈیلرز، سٹہ بازوں کی نشاندہی کی تاکہ محسن نقوی کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کی اجازت دے اور منافع خور سزا پائیں۔ اسی رپورٹ میں زمان وٹو صاحب نے لاہور ہائیکورٹ کے ان دو ججز کا ذکر بھی کر دیا جنہوں نے شوگر مافیا کے حق میں چینی کی نقل و حرکت اور پنجاب حکومت کی طرف سے چینی کی قیمت مقرر کرنے کے خلاف سٹے دے رکھے ہیں اور یہ سٹے گزشتہ چھ ماہ سے جاری ہیں اور چھ ماہ سے اس صوبے میں محسن نقوی ہی عارضی تخت نشین ہیں۔ ان کے علم میں لازمی ہوگا کہ سرکاری کام کاغذوں کی صورت میں ایک سے دوسری جگہ پہنچائے جاتے ہیں۔ اب ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ اس رپورٹ پر عمل کیا جاتا۔ شوگر مافیاز کے خلاف کریک ڈائون کیا جاتا۔ اس سیکرٹری کو شاباش دی جاتی لیکن سسٹم اس طرح نہیں چلتا۔ سسٹم کو یہ بات ناگوار گزری کہ ایسی رپورٹ کیوں بنائی گئی جس میں مافیاز کی نشاندہی کی گئی اور پھر ججز کو کیوں اس میں رکھا گیا۔ ججز کا تو کام ہے سٹے دینا، کل شوگر مافیاز کے حق میں دیا تھا تو ممکن ہے آج پنجاب کی عارضی حکومت کو ضرورت پڑ جائے، اس لیے یہ رپورٹ ناقابل قبول تھی۔ محسن نقوی نے دو کام کئے، پہلا کام تو وہی کیا جو سسٹم کرتا ہے کہ اچھا کام کرنے کی کوشش اور جرات کرنے والے کی جگہ سسٹم میں نہیں ہوتی، اس لیے زمان وٹو کو ’’ نکرے‘‘ لگا دیا گیا۔ شوگر والوں کو پیغام دیا گیا کہ پریشان نہ ہوں ہم نے بیوروکریٹ بدل دیا ہے۔ دوسرا کام محسن نقوی صاحب نے یہ کیا کہ لاہور ہائیکورٹ کے گیارہ ججز کو چھتیس کروڑ روپے بلاسود قرض کی منظوری دے دی۔ ان معزز ججز میں وہ مائی لارڈ بھی شامل ہیں، جنہوں نے شوگر ملز والوں کو سٹے دے رکھا ہے اور زمان وٹو کی رپورٹ میں ان کا نام ہے۔ یہ بحث ایک طرف کہ ماہانہ آٹھ لاکھ تنخواہ اور لامحدود مراعات اور مفت کی بجلی، پٹرول اور تین تین گاڑیاں اور گھریلو ملازمین پانے والے ججز کو بھی گھر بنانے کے لیے تین کروڑ روپے قرض وہ بھی بلاسود دیا جانا چاہئے یا یہ بھی ایک طرح کی رشوت ہی ہوگی ؟ لیکن محسن نقوی جانتے ہیں کہ شوگر ملز والوں کے کیسز کا تو پتہ نہیں لیکن اگر انہوں نے لاہور ہائیکورٹ کو ناراض کر دیا تو ان کی حکومت صرف ایک سماعت کی مار ہے۔ ویسے تو ہماری معزز عدلیہ سے دو تہائی اکثریت والے حکمران بھی محفوظ نہیں لیکن محسن نقوی تو پھر عارضی ارینجمنٹ ہیں، وہ تو ایک سٹے کی مار ہوں گے، اس لیے سسٹم میں اپنی موجودگی برقرار رکھنے کے لیے محسن نقوی نے اپنے ایک سیکرٹری کی بَلی فوری چڑھا دی۔
رئوف کلاسرا صاحب بھلے انسان ہیں۔ وہ بعض اوقات روایتی سیاست سے ہٹ کر عوامی ایشوز پر شو کر دیتے ہیں۔ آج کل وہ بجلی مہنگی کیوں ہوئی، کے عنوان سے اپنے کالموں کی سیریز لکھ رہے ہیں۔ وہ اگر اسی طرح یہ سیریز لکھتے رہے تو ایک کتاب بن جائے گی۔ ان کالموں میں انہوں نے نوے کی دہائی سے بجلی کی کہانی لکھی ہے۔ یہ کالم پڑھنے سے تعلق رکھتے ہیں کہ کس طرح حکمرانوں نے طاقتور مافیاز کے گٹھ جوڑ سے اس سسٹم میں اپنی جڑیں مضبوط کیں۔ کیسے سرکاری خزانے کو لوٹا اور کیسے اچھا کام کرنے والوں کو سسٹم سے نکالا۔ انہوں نے ایک دلچسپ حقیقت یہ لکھی کہ آڈیٹر جنرل بلند اختر رانا کو جب پیپلز پارٹی اور ن لیگ نے ناپسند کرنا شروع کیا کہ وہ ان کی کرپشن پر سوال اٹھانے لگے تھے۔ اس وقت خورشید شاہ اپوزیشن لیڈر اور پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چیئرمین تھے۔ اسحاق ڈار وزیرخزانہ بنے تھے اور انہوں نے آتے ہی بجلی کمپنیوں کو سرکلر ڈیٹ
کے چارسو ارب روپے کی ادائیگی کردی تھی۔ دونوں حضرات معاملات آڈٹ سے بچانا چاہتے تھے لیکن بلند اختر رانا بضد تھے کہ وہ آڈٹ کریں گے، تو دونوں جماعتوں نے موجودہ صدر اور اس وقت پی ٹی آئی کے ایم این اے عارف علوی کو آڈیٹر جنرل کے خلاف استعمال کرکے انہیں گھر بھیج دیا۔ ان کالموں میں رینٹل بجلی گھروں کی کہانی بھی ہوش اڑانے والی ہے۔ خیر رئوف کلاسرا صاحب نے بھی اپنے شو میں چینی والی رپورٹ کو شامل کیا اور سیکرٹری خوراک زمان وٹو کی بدقسمتی کہ ان کے شو میں آگئے۔ رئوف کلاسرا نے تو بڑی نیک نیتی سے سرکار کو شرم دلائی تھی کہ وہ زمان وٹو جیسے بیورو کریٹس کو کام کا موقع دیں تاکہ کسی کو سزا مل سکے۔ زمان وٹو صاحب بھی اس شو میں کافی زیادہ بول گئے اور بڑوں کو سزا دلوانے کے بڑے دعوے کرگئے۔ پروگرام سے اترنے کی دیر تھی کہ ان کی ٹرانسفر کے آرڈر ان کو تھما دئیے گئے کہ سسٹم کی یہی منشا تھی۔ آج کل ملک میں نگران حکومت ہے اور عام آدمی کی زندگی انتہائی مشکل میں چلی گئی ہے۔ مہنگی بجلی نے تباہی پھیر دی ہے۔ نگران وزیراعظم انوار کاکڑ نے مہنگے بلوں پر احتجاج کو دیکھ کر فوری بڑھک ماری کہ ہم ریلیف دیں گے اور اتوار کے روز ہنگامی اجلاس طلب کرلیا۔ آج اس اجلاس کو دو ہفتے ہوگئے ہیں اور ریلیف ندارد۔ اس سسٹم کی اچھی بات یہ بھی ہے کہ عوام کی توجہ اصل مسئلے سے ہٹانے کے لیے ہر وقت اس کے پاس پلان بی تیار رہتا ہے۔ آج کل پلان بی مارکیٹ میں ان ہے۔ اس پلان کے تحت چھاپہ ماری ہورہی ہے۔ کرنسی سمگلنگ پر کریک ڈائون ہورہا ہے۔ چینی کی سمگلنگ بند کی جارہی ہے اور بڑا ہی اچھا احساس لوگوں کو دلایا جارہا ہے کہ دیکھیں کس طرح چور اچکے بھاگ رہے ہیں۔ ڈالر بھی سستا ہورہا ہے اور چینی بھی نیچے آرہی ہے۔ یہ اقدامات سسٹم میں ’’ ان بلٹ‘‘ ہیں۔ ایسے نمائشی اقدامات سے مارکیٹ میں چوروں کو فوری پیغام دیا جاتا ہے کہ ہاتھ روک لیں۔ ہمیں اس سسٹم میں دکھاوے کی ضرورت ہے۔ پھر سرکاری مشینری حرکت میں آتی ہے۔ نمائش ہوتی ہے۔ ویڈیوز بنتی ہیں۔ لسٹیں بنتی ہیں۔ کارکردگی سامنے آتی ہے۔ وہ اچکے جو چینی کو اسی روپے سے ایک سو اسی روپے پر لے جاچکے تھے وہ چور اچکے سسٹم کے ان نمائشی اقدامات کے پیش نظر اس ایک سو اسی میں سے دس بیس روپے کم کر دیں گے۔ بس یہی کچھ سسٹم کو درکار ہوتا ہے اور ان اقدامات سے سسٹم کی جے جے کار ہوجاتی ہے۔ کچھ عرصہ اسی خوش احساسی میں گزر جاتا ہے۔ سسٹم بھی خوش اور اسی سسٹم میں سے فی کلو چینی پر اسی نوے روپے کمانے والے بھی خوش۔ اگر سسٹم واقعی مخلص ہو اس ملک کے ساتھ تو جو کریک ڈائون اعلان کرکے چور پکڑتا ہے وہ سارا سال بغیر اعلان کے کام کرے۔ جو آج کسی کے حکم پر چھاپہ ماری کرکے بجلی کی چوری پکڑ رہے ہیں وہ سارا سال یہ کام کریں، کرنسی کی سمگلنگ اگر جرم ہے تو سارا سال یہ جرم کرنے والوں کو چھوٹ کیوں دی جاتی ہے؟ چھوٹ اس لیے دی جاتی ہے تاکہ جب سسٹم کو ضرورت پڑے وہ خود اس جرم کے خلاف کارروائی کا حکم کرے اور پھر اس کا کریڈٹ لے کر عوام سے داد سمیٹے۔ یہی سسٹم ہے اور سسٹم کی یہی خوبی کہ نہ اس سے کچھ بنتا ہے اور نہ یہ خود کو ٹوٹنے دیتا ہے۔ میری دعا ہے کہ اس بار یہ اقدامات نمائشی نہ ہوں۔ آرمی چیف اگر کسی نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ خرابی کہاں ہے اور ان مافیاز سے جان چھڑائے بغیر ملک آگے بڑھ ہی نہیں سکتا تو پھر آپ یہ کام اس بار کر ہی گزریں۔ یہ کام کسی نہ کسی کو تو کرنا ہی ہے تو آرمی چیف صاحب آپ یہ بیڑا اٹھا لیں۔ دیکھتے جایئے اس قوم کو یقین اور اخلاص نظر آیا تو لوگ آپ کے پیچھے ہی نہیں بلکہ شانہ بشانہ چلنا شروع کر دیں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button