ColumnNasir Naqvi

سیاسی اکھاڑہ

ناصر نقوی
پاکستان، حکمرانوں، بیوروکریسی ، عدالتی فیصلوں اور عوامی عاقبت نااندیشی میں مسلسل سیاسی اکھاڑہ بنا ہوا ہے۔ اس کے سیاسی پہلوان وطن عزیز میں ہوں یا کہ سمندر پار، ان کے نامی گرامی ’’ بیٹے‘‘ کسی نہ کسی طرح سیاسی اکھاڑے میں ایک دوسرے سے لڑتے بھڑتے ہمیشہ دکھائی دیتے ہیں۔ فیصلے لندن پلان کے ذریعے کئے جائیں یا دوبئی میں مشاورتی بیٹھک سے، ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس میں امریکہ بہادر کے انتشار مرکز ’’ پینٹاگون‘‘ کی رائے اور سی آئی اے جیسے عالمی ادارے کی مہک بھی بخوبی سونگھی جا سکتی ہے۔ اس انداز میں حالات و واقعات کے ساتھ کم زیادہ کا فرق آنا ایک قدرتی عمل ہے یقینا میری طرح اور بھی بہت سے لوگ ایسا محسوس کرتے ہوں گے کیونکہ 76سالہ پاکستان کے تاریخی حقائق کچھ ایسے ہی ہیں۔ ہمارے حافظے اور بے پروا روئیے ایسے ہیں کہ ہم نے تاریخ اور حالات سے کسی بھی حالت میں کچھ نہ سیکھنے کی قسم کھا رکھی ہے۔ آئین توڑ کر ملک پر قبضہ کیا گیا ہم نہ بولے، ملک دولخت ہو گیا ہم نے ایک دوسرے پر الزامات لگا کر وقت گزار لیا۔ منتخب وزیراعظم پھانسی چڑھ گیا ، کچھ بولے اور کچھ آمر کے ہمنوا بن گئے، جمہوری حکومتوں کو غیر آئینی طریقی سے گھر بھیجا گیا ہم خواب خرگوش کے مزے لیتے رہے۔ جمہوریت نے رو پیٹ کر پانچ سال پورے کئے تو زمین و آسمان کے قلابے ملانے لگے، ایک وزیراعظم کو خط نہ لکھنے پر عدالت عظمیٰ نے سزا وار ٹھہرایا، دوسرے کو پانامہ سکینڈل میں پھنسا کر ’’ اقامہ‘‘ نکال کر جادو کی چھڑی سے تاحیات نااہل کر دیا گیا اور ہم تماشائی بن کر تالیاں بجاتے رہے۔ کسی سیاسی پہلوان کو چیلنج کریں کہ حضور یہ سب کچھ ہوا تو آپ نے کیا کیا؟ جواب ملے گا قوم، ملک، سلطنت کے لئے ہم نے برداشت کیا اس لیے کہ ہم جمہوریت پسند ہیں۔ جمہوری اقدار کو آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے تھے حالانکہ معاملہ اس سے مختلف تھا اور ہے’’ سیاسی اکھاڑے‘‘ کی روایت من بھائے کا سودا ہے لہٰذا ہر دور میں یہ سیاسی لوگ ’’ نعرہ مستانہ‘‘ لگا کر جب دل چاہے ادھر سے اْدھر چلے جاتے ہیں کیونکہ مضبوط سیاسی بیانیہ رائج الوقت یہی ہے کہ سیاست میں کوئی چیز حتمی نہیں ہوتی، آج کے دشمن کل کے دوست اور کل کے دشمن آج کے دوست بن سکتے ہیں جیسا کہ اتحادی حکومت نے عملی تجربہ پیش کر دیا، اب بھی آواز خلق یہی ہے کہ اگر 90روز میں الیکشن نہ کرائے گئے تو مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی ہی نہیں، تحریک انصاف بھی ایک ’’ ٹرک اور ٹریک‘‘ پر نظر آ سکتی ہے لیکن یہ ’’ ٹرک‘‘ خالصتاً سیاسی اور مستقبل کی پالیسی بنانے کے ذریعے ہو گا۔ براہ راست مظاہر علی اکبر نقوی والا ٹرک ہرگز نہیں ہوگا ۔ ان حالات کا غیر جانبدارانہ جائزہ لیں تو سب کچھ عیاں ہو جائے گا کہ کون کون کس کس مفاد اور منصوبہ بندی میں سیاسی پیار کی پینگیں بڑھا رہا ہے پھر بھی کوئی انہیں کیوں نہیں پوچھتا؟ اس کا جواب بھی سادہ اور سیدھا سا ہے کہ اوپر سے نیچے تک مفادات کی گنگا میں سب نہانے کے عادی ہو چکے ہیں۔ بنیادی وجہ یہی ہے کہ جنرل محمد ایوب خان سے براستہ جنرل ضیاء الحق کبھی نہ ختم نہ ہونے والا ایک ’’ شارٹ کٹ‘‘ سیاسی تربیتی کورس ہمارے سیاستدانوں نے ہی نہیں زندگی کے تمام شعبہ جات کی اہم شخصیات نے مکمل لیا ہے جس کے تحت زندگی کے نئے ڈھنگ اور مفادات کے حصول کے لئے نئے راستے تلاش کر لیے ہیں کوئی اس دعوے کو جھٹلا نہیں سکتا کہ ہر دور آمریت میں سیاستدانوں اور معزز عدالتوں نے ہر ممکن سہولت کاری کی کیونکہ خصوصی ’’ سیاسی تربیتی کورس‘‘ نے یہ بات سب کو ازبر کرا دی ہے کہ مستقبل کی فکر میں ’’ آج‘‘ کچھ کر گزرو، جس نے آج کی قدر نہیں کی وہ مستقبل میں بھی کچھ نہیں کر سکے گا؟ ماضی سے سبق سیکھنے کا رواج پرانا ہو گیا، اس وجہ سے عمرانی دور میں بھی تبدیلی کے نعرے کے باوجود وہی کچھ کیا گیا جو پہلے کیا جاتا تھا اور آج بھی مقدمات پر مقدمے بن رہے ہیں۔ نتیجہ پہلے بھی کچھ نہیں نکلا اور شائد ان مقدمات میں بھی کچھ نہ نکلے لیکن سابق وزیراعظم عمران خان اور ان کے بچے کھچے ساتھی رہنما 9مئی کے شکنجے میں بْرے پھنسے ہیں، موجودہ صورت حال پر ہمارے دوست شہباز انور خاں کا یہ قطعہ آپ کی نذر:
یہ کیسز پر بنا کر اور کیسز
مسلسل ظلم جنتے جا رہے ہیں
سبق تاریخ سے سیکھیں گے کیا یہ
یہ خود تاریخ بنتے جا رہے ہیں
لاہور ہمیشہ سے سیاسی، ثقافتی، ادبی اور صحافتی سرگرمیوں کا مرکز جانا جاتا ہے۔ یہاں کی ان تمام شعبہ جات میں خدمات ہر لحاظ سے منفرد تھیں۔ صرف ماضی کے جھروکوں میں جھانکنے کی ضرورت ہے۔ جدید دور میں کوئی یہ تکلیف کرنے پر آمادہ نہیں، اس لیے تمام معامالات گوگل اور موبائل تک محدود ہو کر رہ گئے ہیں اس انداز نے سیاسی لوگوں کو ’’ بے پر‘‘ کی اڑانے کے مواقع فراہم کر دئیے۔ جس کی سہولت کاری کے لئے ٹیوٹر اور وی لاگرز بھی موجود ہیں۔ اب کوئی ذمہ دار بھی سوشل میڈیا کی وار میں کسی کو حقائق پر قائل نہیں کر سکتا، اس طرح الیکٹرانک میڈیا پر بھی غیر پیشہ وارانہ خوش شکل اور اشرافیہ کے نمائندوں نے ایک طوفان برپا کر رکھا ہے کیونکہ ان کے جھوٹ سچ کے امتزاج سے چینل کی ریٹنگ بہتر بلکہ بہت اچھی ہو جاتی ہے’’ سیٹھ راضی تے کل جہان راضی‘‘ کے نسخے پر بات کہیں سے کہیں پہنچ چکی ہے ۔’’ پیمرا‘‘ اتھارٹی صرف اپنی حدود میں رہ کر چینلز کی نگرانی، حکمرانوں اور ریاستی اصولی میں بے ضابطگی پر کرتی ہے باقی ’’ جھوٹ سچ‘‘ دیدہ دلیری سے بِک رہا ہے۔ انفرادی شکایت پر بھی کارروائی ہو سکتی ہے لیکن عام آدمی کو آگاہی ہی نہیں کہ ’’ پیمرا‘‘ اس کی کوئی مدد کر سکتا ہے۔ پرانے روایتی صحافیوں کی حقیقی کھیپ رخصت ہو چکی ہے جو گنتی کی شخصیات موجود ہیں وہ ’’ آئوٹ آف ڈیٹ‘‘ قرار پا چکے ہیں۔ بات بھی کسی حد تک درست ہے، نئے زمانے کے نئے تقاضےسوشل اور الیکٹرانک میڈیا کا پیٹ ہر منٹ اور ہر سیکنڈ پر کچھ نیا کھانے کو مانگتا ہے لہٰذا تحقیق کا کسی کے پاس وقت ہی نہیں، پہلے ایک فیڈرل یونین آف جرنلسٹس، پنجاب یونین آف جرنلٹس اور پریس کلب ہوا کرتا تھا اب ایک ڈھونڈو ہزار ملتے ہیں۔ یونیز بھی بہت، لیڈر بھی بہت اور مسائل بھی اَن گنت اس لیے کہ میڈیا ترقی کر گیا، جس طرح سیاست اور جمہوریت میں بلدیاتی الیکشن کی ضرورت ہی نہیں اسی طرح میڈیا میں ’’ پرنٹ میڈیا‘‘ کو بالکل نظر انداز کر دیا گیا۔ دنیا کے ہر مہذب اور ترقی یافتہ ممالک میں تمام تر جدیدیت کے باوجود پرنٹ میڈیا بھی موجود اور حکومتی موقف کو لوگوں تک پہنچانے کے لیے اخبارات بھی ہیں لیکن ہمارے ہاں جمہوری دور اور جمہوری حکمرانوں نے نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات کا خاتمہ کیا حالانکہ پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کا مطالبہ ’’ نیشنل پریس ٹرسٹ‘‘ توڑنے کا تھا۔ ٹرسٹ موجود وہاں بڑی تنخواہوں اور عہدوں پر افسران بھی براجمان ہیں۔ ادارے بند اور ورکرز بے روزگار ہو گئے ایسے میں چند لوگ ماضی کے صحافتی قائدین کو یاد کرتے ہیں کہ ان کے دور میں صحافیوں اور ان کے اخبارات کی بڑی قدر و منزلت تھی۔ اب قدم قدم پر یونینز اور لیڈرز موجود ہیں لیکن منہاج برنا، نثار عثمانی، آئی ایچ راشد، شیخ عبدالقدوس جیسا بلند پایا ایک بھی نہیں، گزشتہ دونوں جناب نثار عثمانی کی برسی خاموشی سے گزر گئی حالانکہ وہ اس قدر حق سچ کی بات کرنے والے تھے کہ کبھی کسی آمر کے سامنے بھی خاموش نہیں رہتے تھے بڑی صاف ستھری صحافت کی اور صحافتی برادری کے لیے بڑی خدمات انجام دیں۔ عثمانی صاحب میرے روحانی استاد اور باپ کی حیثیت رکھتے تھے میرے والد محترم اور ان کی جنم بھونی ’’ الہ آباد‘‘ تھی۔ عثمانی صاحب نے دیال سنگھ کالج لاہور میں درس و تدریس سے عملی زندگی کا آغاز کیا اور میری مادر علمی بھی دیال سنگھ کالج ہی ہے یہی نہیں صحافتی زندگی میں بھی مرحوم میرے حقیقی اور عملی رہنما تھے، صحافی جدوجہد اور لاہور پریس کلب کے حصول کے لیے 1989ء میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی بھی عثمانی صاحب نے کی اور پھر روزنامہ ’’ مشرق‘‘ میں جب ان کے شاگرد ممتاز احمد سید نے حکومتی محبت میں کارکن دشمن پالیسی اختیار کی تو پی۔ ایف۔ یو۔ جے کے آل پاکستان اکٹھ منعقدہ ملتان میں مشرق ایمپلائز یونین سی۔ بی۔ اے کی صدارت کے لیے میری غیر موجودگی میں میرا فیصلہ کر لیا، میں ٹریڈ یونین سے دور بھاگتا تھا لیکن وہ مرکزی قائد تھے لہٰذا میں نے سر تسلیم ختم کیا، الحمد للہ میری قیادت میں ’’ مشرق ملازمین‘‘ کو اجتماعی مفادات کے مطابق ’’ گولڈن شیک‘‘ کا تحفہ مل گیا لیکن نجی مالکان کی سازش میری صدارت کے بعد کامیاب ہوئی اور نیشنل پریس ٹرسٹ کے اخبارات بند کر دئیے گئے جب جناب نثار عثمانی دنیا سے رخصت ہوکر اپنے خالق حقیقی کے پاس گئے اس وقت وہ پی ایف یو جے کے صدر تھے اور میں پنجاب یونین آف جرنلسٹس کا صدر، انہوں نے موت سے قبل مجھے الیکشن کرانے کا حکم دیا، مرکزی اجلاس کے فیصلے کے بعد میزبانی ہمارے ذمے تھی میں نے نامور صحافی سید امجد حسین سے مشاورت کر کے الیکشن کے تمام انتظامات مکمل کر لئے لیکن ایسا اس لیے نہیں ہو سکا کہ عبدالحمید چھاپڑا ہر ممکن کوشش سے زبردستی صدر بننے کے خواہشمند تھے جو کہ میری موجودگی میں ناممکن دکھائی دیا لہٰذا الیکشن کی کارروائی سبوتاژ کر دی گئی اور عثمانی صاحب کی رحلت کے بعد الیکشن ہوئے میں نے ردعمل پر اپنا عہدہ چھوڑ دیا تاہم میں نے بانی صدر لاہور پریس کلب کی حیثیت سے اپنا ویٹو استعمال کرتے ہوئے کلب کے مرکزی آڈیٹوریم کو نثار عثمانی صاحب کے نام سے منسوب کر دیا جو یقینا ان کی صحافتی خدمات کا اعتراف ہے۔ ہمارے دوست شہباز انور خان نے عثمانی صاحب کی برسی پر صحافتی برادری کی بے حسی کا شکوہ کیا تو جواب شکوہ میں راولپنڈی یونین آف جرنلسٹس کی جانب سے نیشنل پریس کلب اسلام آباد کی ایک ایسی تقریب کا تذکرہ کیا گیا جس میں نثار عثمانی صاحب کے ساتھ سابق سیکرٹری جنرل سی آر شمسی کو مشترکہ خراج تحسین پیش کیا گیا صحافتی دنیا میں یہ دونوں شخصیات کبھی بھی یکساں خصوصیات اور خدمات کے حوالے سے برابر، ہمعصر اور معتبر قرار نہیں دی جا سکتیں ایسا کرنا بھی ظلم اور زیادتی ہے۔ سی آر شمسی ایک خاص نظرئیے اور انداز کے صحافتی لیڈر تھے لیکن کہاں عثمانی صاحب کہاں شمسی؟ یہ سچ ہے کہ انہیں دیکھ کر عثمانی صاحب’’ لاحول ‘‘ پڑھا کرتے تھے بہرحال سی آر شمسی ( رحمت اللہ چودھری) عثمانی صاحب کے انتقال کے بعد صحافتی سیاسی اکھاڑی کے ایک نمایاں پہلوان بن کر ابھرے تھے، اس تقریب میں صدر پی ایف یو جے افضل بٹ نے خطاب فرمایا لیکن انہیں نثار عثمانی کے ساتھ میرے خیال میں ایک روز بھی کام کرنے کا موقع نہیں ملا کیونکہ اس وقت وہ مخالف گروپ نواز رضا میں فتوحات کر رہے تھے، بہرکیف سیاسی اکھاڑہ صحافتی ہو کہ سیاسی یہاں مطلب اور موقع پرستوں کا ڈیرہ ہے، یہ ہم رندوں کو بھول بیٹھے ہیں انہیں دنیا چھوڑ جانے والوں سے کیا لینا؟۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button