Editorial

بجلی کی قیمت میں پھر اضافہ

ملک عزیز کے عوام پچھلے 5سال سے بدترین حالات سے گزر رہے ہیں۔ اُن پر تاریخ کی بدترین مہنگائی مسلط ہے۔ اُن کی آمدن سے زائد اخراجات ہوچکے ہیں۔ پاکستانی روپیہ بے وقعتی کی انتہائوں پر ہے۔ محض دوچار روز سے ڈالر کی ہوش رُبا اُڑانوں کا سلسلہ رُکا ہے اور اس کی قدر میں کمی واقع ہورہی ہے، وگرنہ اس نے تو ساڑھے تین سو کی حد پار کر جانا تھا۔ ڈالر کی یہ بدمستیاں ہی ہیں، جن کے باعث غریب عوام کی زندگی ازحد اجیرن ہوچکی ہے۔ اُن کی آمدن وہی ہے، اخراجات حد سے تجاوز کر چکے ہیں۔ ہولناک گرانی، ہر شے کے دام آسمانوں کو چھو رہے ہیں۔ آٹا اور چینی تک کا مصنوعی بحران پیدا کرکے ان کی قیمتیں تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچا دی گئی ہیں۔ بنیادی ضروریات ( بجلی، گیس اور پٹرولیم مصنوعات) کے دام بھی تاریخ کی بلند ترین سطحوں پر براجمان ہیں۔ خاص طور پر پچھلے کچھ ایام سے بجلی کے بھاری بھر کم بلوں نے قوم کو سڑکوں پر آنے پر مجبور کر دیا ہے۔ اس حوالے سے ملک کے طول و عرض میں عوامی سطح پر بڑے احتجاج سامنے آرہے ہیں۔ تاجر برادری بھی بجلی کے بلند ترین ٹیرف پر سراپا احتجاج ہے۔ تمام مکتب فکر کے افراد اس کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں، کیونکہ انتہائی کم یونٹ استعمال کرنے والے بہت سے صارفین کو بھاری بھر کم بل ارسال کیے گئے، جو اُن کی آمدن سے بھی زائد تھے۔ ویسے بھی یہاں دو دو کمرے کے گھروں میں لاکھوں روپے بجلی کے بل ارسال کرنے کی ریت خاصی پُرانی ہے۔ ظاہر ہے اس پر عوام کا سراپا احتجاج ہونا لازمی تھا۔ احتجاج کے سلسلے دراز ہوئے۔ پورے ملک تک پھیلے۔ گزشتہ دنوں ملک بھر میں بجلی کے بھاری بھر کم بلوں کے خلاف کامیاب ہڑتال بھی کی گئی۔ ایسے میں ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ بجلی کے نرخوں کو مناسب سطح پر لایا جاتا۔ بجلی بلوں اور مہنگائی مخالف احتجاجی سلسلے کو اہمیت دی جاتی۔ گو حکومت نے آئی ایم ایف سے بجلی بلوں میں ریلیف کے معاملے پر گفت و شنید کی، تاہم کوئی حوصلہ افزا نتائج برآمد نہ ہوسکے۔ 200یونٹ والے صارفین کے لیے عالمی مالیاتی ادارے نے رضامندی ظاہر کی۔ عوام اب بھی بجلی بلوں پر خوش نہیں ہیں۔ اُن کے لیے روح اور جسم کا رشتہ برقرار رکھنا پہلے ہی بہت مشکل تھا، اب مزید دُشوار ترین ہوگیا ہے۔ ایسے میں وہ ریلیف کے منتظر تھے کہ اُن پر مزید برق گراتے ہوئے بجلی کی قیمت میں فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں فی یونٹ لگ بھگ ڈیڑھ روپے اضافہ کر دیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی ( نیپرا) نے بجلی صارفین کے لیے بجلی مزید مہنگی کردی۔ نیپرا نے بجلی ایک روپے 46پیسے فی یونٹ مہنگی کردی اور بجلی کی قیمت میں اضافہ جولائی کی ماہانہ فیول ایڈجسٹمنٹ کی مد میں کیا گیا۔ نیپرا نے بجلی کی قیمت میں اضافے کا نوٹیفکیشن جاری کردیا، جس میں کہا گیا ہے کہ بجلی کی قیمت میں اضافے کا اطلاق ستمبر کے بلوں میں ہوگا۔ نوٹیفکیشن کے مطابق اضافے کا اطلاق لائف لائن اور کے الیکٹرک صارفین پر نہیں ہوگا۔ خیال رہے کہ ملک میں عوام پہلے ہی بجلی کے بھاری بلوں کے خلاف سراپا احتجاج ہیں اور کئی شہروں میں شہریوں نے احتجاجاً بجلی کے بل جلا دئیے اور ادائیگی سے انکار کر دیا ہے۔ بجلی کی قیمت میں ایک بار پھر اضافہ کسی طور مناسب قرار نہیں دیا جاسکتا۔ یہ پسے ہوئے غریب عوام پر ایک اور وار ثابت ہوگا۔ قوم کی اکثریت پہلے ہی بہ مشکل تمام اپنی زندگی کی ڈور کو کھینچ پا رہی ہے۔ غریب پہلے ہی گرانی کے ہولناک عذاب کو بھگت رہے ہیں۔ ہر نیا دن اُن کے لیے ایک نئی آزمائش لے کر آتا ہے۔ ایسے میں بجلی کی قیمت میں اضافے کو اُن کے لیے سوہان روح کے سوا اور کیا قرار دیا جائے۔ عوام کا درد اپنے دلوں میں محسوس کرنے والے حکمراں اُن کی آسانیوں کے لیے اقدامات کرتے ہیں۔ اُن کے لیے مشکلات کا باعث نہیں بنتے۔ بجلی کی قیمت میں مزید اضافے پر عوامی احتجاج کا سلسلہ شدت اختیار کر سکتا ہے، جو کسی طور ملک و قوم کے مفاد میں ثابت نہیں ہوگا۔ اس کے باعث ہڑتالیں بھی ہوسکتی ہیں۔ معیشت پہلے ہی متاثر ہے، مشکل دور سے گزر رہی ہے، اُس پر ان احتجاجوں کے منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ ان سطور کے ذریعے گزارش ہے کہ غریب عوام کی زندگیوں میں آسانی لانے کا بندوبست کیا جائے۔ بجلی کے نرخ مناسب سطح پر لائے جائیں۔ اس حوالے سے سنجیدہ اقدامات وقت کی اہم ضرورت ہیں۔ خطے میں سب سے زیادہ مہنگی بجلی پاکستان کے عوام استعمال کرنے پر مجبور ہیں۔ چین، ایران، بھارت، بنگلہ دیش کے عوام کو انتہائی سستے نرخوں پر بجلی کی سہولت میسر ہے۔ اُن کی آمدن کا بہت ہی معمولی حصہ بجلی کی سہولت پر صرف ہوتا ہے جب کہ وطن عزیز میں صورت حال مختلف ہے۔ یہاں صورت حال تب تک بہتر نہیں ہوسکتی، جب تک بجلی کے سستے ذرائع کو بروئے کار نہیں لایا جاتا۔ اس حوالے سے ہنگامی بنیادوں پر منصوبے بنانے کی ضرورت ہے۔ انہیں جلد از جلد پایہ تکمیل کو پہنچایا جائے۔ سورج، ہوا، پانی سے ملکی ضروریات کی تمام تر بجلی حاصل کی جائے اور بتدریج بجلی کی پیداوار کے مہنگے ذرائع سے جان چھڑائی جائے۔ عوام کے مفاد میں سستی بجلی کے حصول کے منصوبوں کی جانب نیک نیتی کے ساتھ پیش رفت کرنے کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button