ColumnImtiaz Ahmad Shad

مرے کو مارے شاہ مدار

امتیاز احمد شاد
ملک میں ہر طرف ہاہاکار مچی ہے، روزمرہ سیاسی، معاشی اور معاشرتی حالات ناقابل فہم ہوتے جا رہے ہیں جبکہ دانشور طبقہ ملکی حالات کی خرابی اور ملک کے ہاتھوں سے نکلنے پر کنفیوژن کا شکار ہے۔ مصلحتوں اور ذاتی مفاد پرستی کے شکار سیاستدان اور سیاسی جماعتیں سیاہ کو سیاہ اور سفید کو سفید کہنے سے عاجز ہیں۔ عوام اس قدر بے بس اور لاچار کہ ان کے حلق سے اپنے حقوق کے لئے چند جملے بھی باہر نہیں آرہے۔ ہر طرف مافیاز کا راج ہے۔ انصاف کے ادارے بے توقیر، بد نظمی اور بد انتظامی اپنے عروج پر۔ ملک پر خوفناک حد تک سیاہ بادلوں کا سایہ ہے کب کسی کے ساتھ کیا ہو جائے، کوئی نہیں جانتا، سبھی فکر فردا میں مبتلا ہیں۔ یہ واضح ہے کہ ملکی حالات دگرگوں ہیں، قوم کی کشتی بھنور میں پھنسی ہے لیکن حکمرانوں پر اپنی ذمہ داریوں سے بے نیازی کا عالم طاری ہے۔ قوم کی کشتی کو بھنور سے نکالنے کی بھرپور کوششیں کرنے کے بجائے نہ معلوم کیوں بیشتر ریاستی ادارے محض خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں؟ حقیقت یہی ہے کہ گزشتہ چند برس میں قومی یکجہتی کو غیر معمولی نقصان پہنچا ہے، سیاسی عدم استحکام زوروں پر ہے، قومی معاشرتی اور معاشی مسائل کا حل تلاش کرنے کے بجائے حالات کی زبوں حالی پر پردہ ڈالنے کیلئے سابق حکمران اتحادی جماعتیں ایک دست و گریبان ہیں۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ کو قید میں ڈال کر اس کی جماعت کے حصے بکھرے کر کے بھی تاثر یہ دیا جا رہا ہے کہ ملک کی تمام خرابیوں کا سبب وہی ہے، جب کہ دوسری جانب سابق حکمران اتحادی گزشتہ سولہ ماہ کی بربادی ایک دوسرے کے کھاتے میں ڈالتے ہوئے ہنڈیا بیچ چوراہے پھوڑ رہے ہیں۔ وطن عزیز بیرونی اور ملکی بنکوں کے غیر معمولی قرضوں میں جکڑ دیا گیا ہے جبکہ کرپشن ریاست کے بیشتر ریاستی منصبوں اور اداروں پر حاوی ہو چکی ہے۔ احباب پروری اور بے انصافی نے میرٹ کی دھجیاں پہلے ہی بکھیر رکھی ہیں۔ طاقتور مافیا کے سامنے حکومتی رِٹ اور لاء اینڈ آرڈر بھیگی بلی بن چکے، جبکہ آئین و قانون سے انحراف ہر طاقتور کا روزمرہ کا معمول بن گیا ہے۔ ملک میں غربت اور بے روزگاری تو پہلے بھی عام تھی سیلاب کی تباہ کاری نے حالات کو مزید گھمبیر بنا دیا ہے۔ گزشتہ چند برس میں آسمان سے باتیں کرتی ہوئی غیر معمولی مہنگائی، بیروزگاری، ریاستی بے انصافیوں اور بدانتظامی کے باعث ملک کی نصف سے زیادہ آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکی ہے جبکہ روزمرہ پیدا ہونے والے معاشرتی، سماجی اور معاشی مسائل نے متوسط اور نیم متوسط طبقوں کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ عوام الناس آج جن مشکلات میں گرفتار ہیں، اُس کا اندازہ روزمرہ استعمال کی چیزوں کی قیمتوں کو دیکھ کر بخوبی لگایا جا سکتا ہے۔ آٹا ، چینی کوکنگ آئل ، دودھ دہی، ڈیزل اور پٹرول ، گیس کی قیمتوں میں ناقابل برداشت اضافہ ہو چکا ہے جبکہ لوڈ شیڈنگ اپنے عروج پر ہے۔ بھارت اور بنگلہ دیش کو چھوڑیں، افغانستان میں ڈالر کی قیمت کس حد تک مستحکم ہے جبکہ پاکستان میں ڈالر ٹرپل سنچری مکمل کر چکا ہے، جس کے باعث غیر ملکی قرضوں کا بوجھ ناقابل برداشت ہوگیا ہے۔ آئی ایم ایف، ایسٹ انڈیا کمپنی کی مانند ہمارے سانس لینے تک ٹیکس لگوا چکی جسے ہمارے حکمرانوں نے بخوشی قبول کیا تھا۔ سابق حکمران عوام کو یہ بتاتے رہے کہ ہم ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لئے مشکل فیصلے کر رہے ہیں۔ آئی ایم ایف، عوام کی چیخ و پکار، نگران حکومت کی منت سماجت کے باوجود بجلی کے بلوں میں کمی کرنے کو تیار نہیں۔ مایوسی کے اِس عالم میں سیاستدانوں نے عوام کو تنہا چھوڑ دیا ہے۔ نگران حکمران موجودہ بد حالی کو تباہی ماننے سے ہی انکاری ہیں، ریاستی اداروں کی مصروفیات اور ترجیحات سب کے سامنے ہیں۔ سب کے سب مری ہوئی عوام کو مزید مارنے کے لئے قربانی کا تقاضا کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ خود کوئی بھی شخص، جماعت یا ادارہ قربانی دینے کو تیار نہیں۔ جس کسی کو دیکھو خواہ وہ سابق ہو یا موجودہ سبھی یکسوئی سے کہہ رہے ہیں کہ، ریاست مشکل میں ہے عوام کو قربانی دینا ہو گی۔ بچپن میں اپنے ایک بزرگ سے سنا کرتے تھے جن کا شاید یہ تکیہ کلام تھا کہ ’’ مرے کو مارے شاہ مدار‘‘ کبھی سمجھ ہی نہیں آئی کہ اس کا کیا مطلب ہے؟ جب کبھی ایک دو بار مطلب پوچھنے کی کوشش بھی کی تو ان کا جواب ہوتا کہ جب تک ان حالات سے خود نہیں گزرو گے معنی اور مطلب نہیں سمجھ پائو گے۔ آج جب ہر طرح سے پسی اور مری ہوئی عوام کو مزید مارنے کے لئے ٹیکسوں کی بھرمار دکھائی دیتی ہے تو اس تکیہ کلام کی بخوبی سمجھ آتی ہے۔ مختلف سروے گروپ پاکستان میں بڑھتی ہوئی خودکشیوں کے رجحان سے حیران ،پریشان حقائق سامنے لا رہے ہیں، بالخصوص ایسے واقعات جن میں ماں یا باپ اپنے بچوں اور بچیوں کو فروخت کرنے یا اُن کے ہمراہ دریاں اور نہروں میں چھلانگ لگا کر اجتماعی خودکشی کرنے سے بھی دریغ نہیں کرتے ہیں۔ یہ درست ہے کہ ماضی میں بہت سی خودکشیوں کے اسباب نفسیاتی بیماریوں سے بھی جوڑے جاتے تھے لیکن گزشتہ چند ماہ میں زیادہ تر خودکشیوں کا سبب بنیادی طور پر غربت و افلاس کے باعث ہی ہے۔ اِس کی ایک وجہ حکومتوں کی نااہلی کے باعث ملک میں طوفانی مہنگائی ا، انڈسٹری کی بندش ، بے روزگاری اور حکمرانوں کی شاہ خرچیاں ہیں۔ عوام حیرانی سے ایک دوسرے سے یہی پوچھتے ہیں کہ کیا کبھی ان چوروں ڈاکوئوں کا بھی احتساب ہو سکے گا؟ یہ وہی صورتحال ہے جس کیلئے قائداعظم کہتے تھے کہ جاگیردار اور سرمایہ دار طبقہ اسلام کی تعلیمات بھلا چکا ہے جبکہ ملک میں لاکھوں لوگ ایسے ہیں جن کو ایک وقت کی روٹی بھی مشکل سے ہی میسر ہے۔ قیام پاکستان سے قبل 6نومبر 1944ء میں دہلی میں مسلم لیگ پلاننگ کمیٹی کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے قائداعظم نے بڑی وضاحت سے کہا تھا کہ ’’ہمارا ہرگز یہ مقصد نہیں کہ مالدار اور زیادہ مالدار ہوجائیں اور دولت چند ہاتھوں میں منتقل ہو جائے، ہمارا مطمع نظر یہ ہونا چاہئے کہ عوام کے معیار زندگی کے درمیان آنے والے فرق کو دور کریں، لہذا ہمارا نصب العین اسلامی معیشت ہونا چاہئے نہ کہ سرمایہ دارانہ نظام ‘‘، سوال آج بھی یہی ہے کہ کیا ہم نے قائد کے اِس نصب العین کو بھلا دیا ہے؟ آرمی چیف موجودہ حالات کو درست سمت کی جانب گامزن کرنے کے لئے کوشش کر رہے ہیں، کاروباری طبقے سے ملاقاتیں اور کور کمانڈر کانفرنس کا اعلامیہ یہ ظاہر کرتا ہے کہ فیصلہ ہو چکا کسی کو کوئی معافی نہیں۔ زیرو ٹالرنس کی یہ پالیسی عوام کو کسی حد تک امید دلا رہی ہے۔ مگر سوال پھر وہی ہے کہ کیا اس عمل کو جارہی رکھا جا سکے گا؟ کیا مافیاز سرنڈر کریں گے؟ سابقہ تجربات تو بہرحال مایوس کن رہے ،اگر اب ایسا ہو جائے کہ لٹیرے گرفت میں آجائیں اور عوام سکون میں تو یقینا راکھ کے اس ڈھیر سے بھی کھیتوں کھلیانو ں کی ہریالی واپس لائی جا سکتی ہے۔ یاد رہے حشر کو میدان سجنا ہے، ہر شخص کو اللہ کے حضور پیش ہونا ہے، سرخرو وہی ہوں گے جنہوں نے اللہ کی مخلوق کو درد سے بچانے کی کوشش کی نہ کہ وہ جو ظالموں کے ساتھی تھے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button