Columnمحمد مبشر انوار

قربتیں!!!

محمد مبشر انوار( ریاض)
انسان خود کو کتنا ہی عقلمند سمجھے، ہوشیار سمجھے یا ذہین و فطین سمجھے لیکن اپنی دنیاوی حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہمیشہ ایک ازلی حقیقت سمجھنے سے قاصر رہتا ہے کہ آخرکار اس کے بداعمال ہی اس کی تباہی کا سبب بنتے ہیں اور جب تقدیر کی بے آواز لاٹھی حرکت میں آتی ہے تو اس کا سب ٹھاٹ دھرے کا دھرا رہ جاتا ہے اور بنجارہ اس کو لاد کر چلتا بنتا ہے۔ دنیاوی جاہ و جلال یا مال و زر کی خاطر انسان، سطح انسانیت سے گرتا چلا جاتا ہے اور ہوس زر اسے ہلاکت خیز گڑھے میں گرا کر قعر مذلت کا توشہ بنا دیتی ہے اور انسان ان حالات میں بھی یہی سمجھتا ہے کہ اپنی ذہانت و فطانت سے ان مسائل سے نکل آئیگا لیکن تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔ پاکستان ایسے مسائل میں گزشتہ کئی دہائیوں سے پھنسا ہوا پھڑپھڑا رہا ہے لیکن اس کے لئے آسانیاں کہیں سے نظر نہیں آ رہی کہ بنیادی وجہ ہی صرف یہ ہے کہ اس کو دبوچنے والے ہاتھ ہی دراصل، اس کی پرورش کرنے والے ہیں اور جب تک وہ ہاتھ اس کی نمو کو لوٹنے والوں کے خلاف حرکت میں نہیں آتے، اس کی نمو ممکن نہیں۔ اقتدار کی میوزیکل چیئر میں، حکمرانوں اس حقیقت سے بخوبی واقف ہیں کہ ان کے ہاتھ روکنے والا کوئی نہیں لہذا مادر وطن کو اپنی ہوس زر میں دونوں ہاتھوں سے لوٹتے رہے ہیں اور ایسے شرمناک قوانین بنانے سے بھی نہیں چوکے کہ جس کی نظیر زمانہ جہالت میں تو مل سکتی ہے لیکن آج کے مہذب دور میں ایسے قوانین کا ملنا ناممکن ہے۔
بہرکیف موجودہ صورتحال یہ ہے کہ سولہ ماہ کی پی ڈی ایم حکومت ملکی سیاست و معیشت کا جو بھرکس نکال کر گئی ہے، اس کے اثرات آشکار ہونا شروع ہو چکے ہیں اور عوام مہنگائی سے مجبور سڑکوں پر سراپا احتجاج نظر آتی ہے۔ الگ بات کہ مسلم لیگ ن کا میڈیا سیل انتہائی ڈھٹائی اور بے شرمی سے اس کا سارا ملبہ عمران خان کے سر پر ڈال رہا ہے ، مراد حقائق کے منافی شور و غوغا کرکے گوئبلز کی دروغ گوئی کو بھی مات دی جارہی ہے۔ ان سولہ ماہ میں پی ڈی ایم حکومت کے کارناموں میں سر فہرست تو اپنے مقدمات سے بریت، قانون سازی میں بدنیتی، ملکی اداروں کو کمزور ترین کرنا، عدالت عظمی میں نقب زنی، عدالت عظمیٰ کے ججز کی توہین، آئین کی بے توقیری کے علاوہ معاشی صورتحال میں مزید ابتری اور ہنوز یہ خواہش اور توقع کہ اگر پاکستانی عوام نے مستقبل میں مزید موقع دیا تو ملکی حالات کو بہتر کر دیں گے۔ نجانے ایسے دعوے یہ لوگ کس طرح اور کس منہ سے کر لیتے ہیں کہ ایک طرف تو عوام کو دو وقت روٹی کے لالے پڑے ہیں اور یہ بجلی، پٹرول، گیس کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کرکے اپنے آبائی ملک جا بیٹھے ہیں اور ابھی بھی یہ آس کہ انہیں مزید موقع ملے گا۔ کسی پارلیمانی جمہوریت میں یہ کیسے ممکن ہے کہ آئین میں دی گئی شقوں کے برخلاف کوئی اقدام کیا جا سکے یا عدالت عظمی کے کسی فیصلے پر من و عن عمل درآمد سے گریز کیا جائے۔ پی ڈی ایم کی حکومت بننے کا سہرا بنیادی طور پر سابق صدر آصف علی زرداری کے سر ہے، جنہیں آج کل سیاست کا بے تاج بادشاہ کہا جاتا ہے جبکہ حقیقت یہ ہے کہ کوئی بھی سیاسی رہنما، اسی وقت سیاست کا بے تاج بادشاہ کہلوا سکتا ہے اگر اس کی جڑیں عوام میں ہوں اور وہ طاقتوروں کے ساتھ مذاکرات کے دوران عوام کے حقوق کی حفاظت کر سکے، عوامی حقوق کی خاطر کھڑا ہو سکے۔ یہ دونوں چیزیں بادی النظر میں آصف علی زرداری کے سیاسی سفر میں نظر نہیں آتی، البتہ اس حقیقت میں کوئی کلام نہیں کہ زرداری طاقتوروں کے ساتھ مذاکرات میں ذاتی مفادات کے حصول میں انتہائی کامیاب سیاستدان نظر آتے ہیں لیکن اس بھرم کا پول بھی جلد ہی کھلنے والا ہے کہ جب طاقتوروں کو عمران خان سے چھٹکارا چاہئے تھا، زرداری کی ہر بات پر آمنا و صدقنا نظر آ رہا تھا لیکن اب معاملات مختلف دکھائی دے رہے ہیں۔ اس خدمت کو کسی بھی طور عوامی تو نہیں کہا جا سکتا کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں طاقتوروں کے فرمان کے عین مطابق، حکومت گرا دی کئی، جس میں عوامی رائے یا حقوق کا تحفظ کہیں نظر نہیں آیا جبکہ بعد ازاں دو صوبائی حکومتوں کی تحلیل پر بھی آئین اور عوامی حقوق کے حوالے سے پیپلز پارٹی کی آواز کہیں سنائی نہیں دی۔ اسی پر کیا اکتفا کیا جائے کہ پی ڈی ایم حکومت کے دوران تو پیپلز پارٹی انسانی حقوق پر بھی خاموش تماشائی نظر آئی یا صرف زبانی جمع خرچ، جبکہ گزشتہ دور حکومت میں انسانی حقوق کی جس طرح پامالی ہوئی، وہ تاریخ میں رقم ہو چکی اور پاکستان کے ماتھے پر ایک بدنما داغ کا اضافہ کر چکی ہے۔
تحریک انصاف کی حکومت کے دوران یہ باتیں زبان زد عام تھی کہ ایک طرف عمران خان احتساب کے بلند و بانگ دعوے کر رہے تھے اور دوسری طرف پس پردہ انہیں پیپلز پارٹی کی حمایت بھی حاصل رہی ہے جبکہ زرداری ببانگ دہل یہ کہتے رہے کہ وہ جب چاہیں، عمران حکومت کو گرا سکتے ہیں۔ بہرکیف اس وقت نگران دور حکومت ہے اور ملکی معاملات کا انتظام انہی ہاتھوں میں کہ جن ہاتھوں میں بیشتر اوقات رہا ہے، لیکن اس مرتبہ اشارے کچھ مختلف نظر آرہے ہیں، تاجروں سے ملاقاتیں، معاشی صورتحال پر فکر مندی، امن و امان پر تشویش کے ساتھ ساتھ عمل اقدامات لئے جانے کی خبریں زور و شور سے آ رہی ہیں۔ شنید ہے کہ اگلے چند ہفتوں میں سخت اور تیز ترین کارروائیاں ہونے جا رہی ہیں، بالخصوص سندھ کے حوالے سے کارروائیوں کا آغاز کر دیا گیا، بحوالہ شازیہ مری کے گھر پر چھاپہ اور برآمدگی، جس کی بہرحال شازیہ مری تردید کر چکی ہیں اور سوشل میڈیا پر ہرجانے کے نوٹس کی تشہیر بھی کر چکی ہیں۔ جبکہ پنجاب میں ایسی کوئی کارروائی تادم تحریر نظر نہیں آئی، البتہ تحریک انصاف کے ’’ شر پسندوں‘‘ کے لئے زمین مسلسل تنگ ہو رہی ہے اور دوسری طرف مسلم لیگ ن کے زعماء بڑی سہولت کے ساتھ بیرون ملک جا چکے ہیں، یعنی چڑیا ں کھیت چگ کر جا چکی ہیں تاہم اگر ارباب اختیار چاہیں تو ان مگرمچھوں کو واپس لا نے کے سامان بھی کر سکتے ہیں بشرطیکہ واقعتا احتسابی عمل غیر جانبدار اور بلاامتیاز ہو۔ البتہ ایک تبدیلی اس سے ضرور آئی ہے کہ پیپلز پارٹی کو اپنے استعمال ہونے کا شدت سے احساس ہوا ہے اور اسے آج عام انتخابات، آئین کے مطابق نوے روز میں کروانے کا خیال ضرور آیا ہے جبکہ دو صوبوں میں ہونیوالی آئینی خلاف ورزی پر ان کا بیانیہ اتنا پرزور نہیں تھا اور پیپلز پارٹی آئینی جمہوریت کا رونا روتے ہوئے انتخابات کو نوے روز میں کروانے پر زور دے رہی ہے۔ علاوہ ازیں!خدمات بجا لانے کے باوجود، سندھ میں بننے والی نگران حکومت بھی پیپلز پارٹی کی تجویز کردہ حکومت سے ہٹ کر ہے، جو ممکنہ طور پر مستقبل میں ہونے والی کارروائیوں کی قبل از وقت کی گئی منصوبہ بندی کی نشاندہی کر رہی ہے، جو یقینی طور پر پیپلز پارٹی کے لئے قابل قبول نہیں ہوسکتی۔ اگر معاملات طے شدہ منصوبوں کے مطابق روبہ عمل ہوتے ہیں، تو یقینی امر ہے کہ نہ صرف سندھ میں پیپلز پارٹی بلکہ پنجاب میں تحریک انصاف کے ساتھ ساتھ مسلم لیگ ن کی بساط بھی لپیٹی جائیگی، تاہم اس دوران استحکام پارٹی کی پنجاب میں اور تحریک انصاف پارلیمینٹرین کی عدم شناخت ؍ قبولیت کے باعث ایک نئی سیاسی جماعت کے معرض وجود میں آنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں، جس کی قیادت ممکنہ طور پر شاہد خاقان عباسی کریں۔ استحکام پارٹی اور تحریک انصاف پارلیمینٹرین کے متعلق سب کو علم ہے کہ ان کو عمران خان کی مخالفت میں کھڑا کیا گیا ہے جبکہ شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل اور مصطفیٰ نواز کھوکھر کے متعلق رائے عامہ قطعی مختلف ہے کہ یہ تینوں اصحاب بہرطور پارٹی پالیسیوں پر تنقید اور مخالفت کرکے نئی پارٹی ترتیب دیتے نظر آتے ہیں، گو کہ غالب امکان یہی ہے کہ پس پردہ وہی قوت ہے، جو ایسے کھیل کھیلتی ہے، جس کا اظہار شاہد خاقان عباسی اپنے مختلف پروگرامز میں کر چکے ہیں۔
اس پس منظر میں جب زرداری اور ان کے رفقاء براہ راست زد پر ہوں، قرین از قیاس ہے کہ ان کا جھکائو اعلانیہ طور پر معتوب عمران خان کی طرف ہو جائے، جو بہرکیف پیپلز پارٹی کا طرہ امتیاز رہا ہے۔ سیاست میں کوئی بھی امکان، خارج از امکان نہیں ہوتا کہ کس لمحے کیا ہوجائے، کون سا حلیف، حریف اور کون سا حریف، حلیف بن جائے، اس وقت ایسی ہی صورتحال ابھرتی ہوئی نظر آ رہی ہے کہ مسلم لیگ ن کا سوشل میڈیا اس وقت بھرپور انداز میں ان ’’ قربتوں‘‘ کو آشکار کرتا ، شکوہ کناں اور سیخ پا نظر آرہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button