Column

دفاع وطن اور وفائوں کی سرزمین گجرات

یاور عباس
حصول پاکستان کے لیے جن کٹھن تکلیفوں کا سامنا برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو کرنا پڑا یقینا وہی جانتے ہیں جن پر وہ کڑے وقت گزرے ہیں، لاکھوں قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے وطن کی حفاظت کرنا یقینا کوئی آسان ہدف نہیں ہے ہمیں انگریزوں سے آزادی ملی مگر مسئلہ کشمیر کے ساتھ جس کی وجہ سے آزادی کے صرف ایک سال بعد ہی ہمیں جنگ کا سامنا کرنا پڑگیا اور یوں خطے میں مسلسل امن ناپید رہا، دونوں ملکوں کے سروں پر جنگ کے بادل منڈلاتے رہے ، دشمن کی یہ آگ سرحدوں تک ہی نہیں بلکہ دہشت گردی کی صورت میں اندرونی امن و سکون بھی تباہ ہوا۔ سرد جنگوں کے ذریعے ایک دوسرے کو کمزور کرنے کے علاوہ دفاعی ہتھیاروں کی خریداری کی دوڑ نے بھی معاشی مسائل پیدا کئے۔ قیام پاکستان سے لے کر اب تک بھارت، جو طاقت میں ہم سے کئی گنا زیادہ ہے، مگر ہماری مسلح افواج نے عوام کی حمایت سے ہمیشہ دشمن کے دانت کھٹے کئے ، جنگ عظیم دوم کے بعد 1965ء کی پاک بھارت جنگ بڑی جنگوں میں سے ایک ہے، جس میں ہزاروں لوگوں کی جانیں ضائع ہوئیں اور وسیع پیمانے پر تباہی مچی، مسئلہ کشمیر پر شروع ہونے والے یہ جنگ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے ذریعے امریکی، روس کی مداخلت پر بند ہوئی ۔ پاکستانی قوم ازلی دشمن بھارت کے سامنے سیسہ پلائی ہوئی دیوار ثابت ہوئی اور پاک فوج کے شانہ بشانہ جرات و بہادری سے دشمن کا مردانہ وار مقابلہ کیا ، جذبہ شوق شہادت سے لبریز سپاہیوں نے اپنی جانوں پر کھیل کر دشمن کی ٹینکوں کو تباہ کیا۔ فضائی، بری اور بحری محاذوں پر دشمن کو منہ کی کھانی پڑی ۔
دفاع وطن کی خاطر جہاں پوری پاکستانی قوم نے متحد ہوکر دشمن کو شکست دینے کے لیے اپنا اپنا حصہ ڈالا وہاں گجرات کے جری جوانوں نے دفاع وطن کی خاطر شہادتوں کی لازوال داستانیں رقم کیں، گجرات کے حصہ میں پاکستان کے سب سے بڑے فوجی اعزاز نشان حیدر حاصل کرنے والے 10جانبازوں میں سے تین گجرات کے حصے میں آئے ۔ گجرات شہر کے صدر مقام کچہری چوک پر نشان حیدر یادگار بنائی گئی ہے جہاں تینوں شہداء کے اعزازات ان کی بہادری کی یاد دلاتے ہیں ۔ 1965ء کی جنگ کا سب سے بڑا محاذ لاہور کا بارڈر تھا جہاں دشمن آنکھوں میں خواب سجائے روز یہ دعویٰ کرتا تھا کہ ہم اگلی صبح لاہور میں ناشتہ کریں گے مگر گجرات کے جری نوجوان میجر راجہ عزیز بھٹی شہید نے دشمن کو نہ صرف عبرتناک شکست سے دوچار کیا بلکہ مٹھی بھر نوجوانوں کے ساتھ ہزاروں کے لشکر کو پیچھے بھاگنے پر مجبور کر دیا ، راجہ عزیز بھٹی شہید کا تعلق گجرات کے گائوں لادیاں سے تھا جہاں آج بھی ان کا مزار اقدس موجود ہے اور سارا سال وہاں لوگ جاتے ہیں اور ان کی قبر پر فاتحہ خوانی کرتے ہیں اور ان کی جرات و بہادری کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں ۔ راجہ عزیز بھٹی شہید 12ستمبر کو 37سال کی عمر میں دشمن کے ٹینک کا گولہ لگنے سے جام شہادت نوش کرگئے اور پاکستانی حکومت نے انہیں سب سے اعلیٰ فوجی ایوارڈ نشان حیدر سے نوازا۔ گجرات کا ضلعی ہیڈکوارٹر ہسپتال میجر عزیز بھٹی شہید کے نام سے منسوب ہے ۔ ضلع گجرات کی دوسرے ہیرو میجر شبیر شریف شہید ہیں جن کا تعلق ضلع گجرات کے تاریخی ، علمی ، ادبی قصبہ کنجاہ سے ہے ۔ میجر شبیر شریف شہید نے 1971کی پاک بھارت جنگ میں پاک فوج نے مغربی محاذ پر دشمن کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا۔ میجر شبیر شریف، 6فرنٹیئر فورس رجمنٹ کی ایک کمپنی کے کمانڈر کے طور پر، سلیمانکی سیکٹر کے ایک گائوں گرومکھی کھیرا اور بیری سے نظر آنے والی اونچی زمین پر قبضہ کرنے کا حکم دیا گیا۔3دسمبر 1971کو، ایک منظم کارروائی میں، اس نے اپنے جوانوں کے ساتھ مل کر لڑا اور بھارتی حملوں کو روک دیا۔ اس نے دشمن کی جانب سے بچھائی گئی بارودی سرنگ کے میدان سے گزر کر اور پانی کی رکاوٹ، ’سابونا ڈسٹری بیوٹری‘ کو تیراکی کرتے ہوئے، دشمن کی شدید گولہ باری کے دوران جھانگر پوسٹ کو صاف کیا اور اپنی کمپنی کو مقصد حاصل کرنے کے لیے قیادت کی۔6دسمبر کی سہ پہر، دشمن نے فضائی حملوں اور بھاری توپ خانے کی گولہ باری سے پہلے حملہ کیا۔ حملے میں جانی نقصان کے بعد، اس نے ٹینک شکن گن پر گنر کی ذمہ داری سنبھالی اور دشمن کے ٹینکوں پر فائرنگ شروع کر دی۔ یہ لڑائی جاری تھی کہ دشمن کے ٹینکوں میں سے ایک نے اس پر گولی چلائی جس سے وہ شہید ہوگئے ۔ میجر شبیر شریف شہید کے آخری الفاظ اس طرح نقل کیے گئے تھے:’’ پل کو مت کھونا‘‘۔ یہ وہی پل تھا جو ہندوستانی فوج کے حملے سے بچتے ہوئے شہید گیا تھا۔ وہ 6دسمبر 1971ء کو صرف 28سال کی عمر میں جام شہادت نوش فرما گئے ۔ حکومت پاکستان نے انہیں اعلیٰ فوجی اعزاز نشان حیدر، ستارہ جرات اور اعزازی تلوار سے نوازا۔ میجر شبیر شریف شہید نشان حیدر کے آبائی قصبہ کنجاہ کا تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال ان کے نام سے منسوب ہے۔ کنجاہ قینچی چوک پر ان کی یادگار بھی بنائی گئی ہے ۔ ضلع گجرات کے تیسرے سپوت میجر محمد اکرم شہید ہیں جن کا تعلق ضلع گجرات کے قصبہ ڈنگہ سے ہے ۔میجر محمد اکرم شہید نے 1971ء کی پاک بھارت جنگ میں مشرقی پاکستان میں دیناج پور کے محاذ پر جرات و بہادری کی داستانیں رقم کیں۔ 1971ء کی مشرقی پاکستان کی جنگ کے دوران، چوتھی ایف ایف رجمنٹ، جس کی کمانڈ اس وقت لیفٹیننٹ کرنل محمد ممتاز ملک کر رہے تھے، کو ہلی میونسپلٹی کے فارورڈ ایریا ( ضلع دیناج پور کے ضلع حکیم پور کے تحت) میں رکھا گیا تھا۔ اس وقت مشرقی پاکستان تھا۔ رجمنٹ ہندوستانی فوج کے مسلسل اور بھاری فضائی، توپ خانے اور بکتر بند حملوں کی زد میں آئی۔ دشمن کی تعداد اور فائر پاور دونوں میں برتری کے باوجود، اکرم اور اس کے جوانوں نے بہت سے حملوں کو پسپا کیا، جس سے دشمن کو بھاری جانی نقصان پہنچا۔ وہ حملے میں ایکشن میں مارا گیا اور بعد از مرگ پاکستان کے اعلیٰ ترین فوجی اعزاز نشان حیدر سے نوازا گیا۔ انہیں گائوں بولدار، تھانہ؍اپوزیلا۔ حکیم پور ( بنگلہ ہلی)، ضلع دیناج پور میں سپرد خاک کیا گیا۔ جہلم شہر کے وسط میں ایک یادگار میجر اکرم شہید کی یادگار ہے۔ پاکستانی قوم دفاع وطن کے لیے آج بھی اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے اور کسی قربانی سے دریغ نہیں کرینگے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button