ColumnTajamul Hussain Hashmi

چالاک تاجروں کی چالاکیاں

تجمل حسین ہاشمی
سابق ایف آئی اے افسر سجاد مصطفیٰ باجوہ نے سینئر اینکر رئوف کلاسرا کے پروگرام میں کہنا تھا کہ ’’ میں قسم نہیں کھاتا لیکن خدا کی قسم کھا کر بتا رہا ہوں ایک بندے نے مجھے بتایا کہ ایک وزیرداخلہ خصوصی جہاز میں 27ارب روپے لے کر بیرون ملک گیا۔ جس ملک کا وزیرداخلہ خود منی لانڈرنگ کرتا ہو اس ملک کی کیا حالت ہوگی ‘‘۔ ویسے جناب جیسے کئی افسر ریٹائرمنٹ کے بعد ایسی کہانیاں سناتے ہیں، بات سچی اور کڑوی ہے۔ اگر سرکاری آفیسرز سچ بولنا شروع کر دیں اور سیاست چھوڑ دیں تو ملک کی حالات کافی بہتر ہو جائیں گے۔ یقینا مسائل کافی حد تک بہتر ہو جائیں گے، کئی سیاسی رہنمائوں نے قرآن سر پر اٹھا کر شہادت دی لیکن کیا ہوا آج تک کسی بھی ایک بڑے چور کو سزا ملی۔ یقینا جب سزا نہیں دی جائے گی تو چور کی طاقت میں اضافہ یقینی ہے۔ سنہ1990کے بعد سے معیشت پر تاجر سیاست دانوں کا قبضہ ہو گیا، شوگر انڈسٹری سب سے زیادہ ایزی کیش انڈسٹری رہی۔ 1996ء میں بے نظیر بھٹو شہید کا دور تھا۔ چینی کی قیمت میں اضافہ پر اس وقت کے وزیرداخلہ میجر جنرل نصیر اللہ بابر تھے۔ میجر جنرل بابر نے ایکشن لیا، قیمت فورا کم ہوگئی، جب جب فوجی قیادت نے ملک کی بھاگ ڈور اپنے ہاتھوں میں لی، اس سے عوام کو ریلیف ملا۔ سات جولائی کو سیکرٹری فوڈ پنجاب کی طرف سے جاری پریس کانفرنس میں روزانہ کی بنیاد پر چینی کی قیمتوں میں اضافہ پر اظہار تفتیش کیا تھا اور واضح کیا گیا کہ آنے والے مہینوں میں چینی کی قیمت میں اضافہ کا خدشہ ہے لیکن اس رپورٹ کوئی توجہ نہیں دی گئی۔ حکومت پاکستان نے اس سال اپریل میں چینی کی فی کلو قیمت تقریبا 98 روپے مقرر کی تھی جو کہ چینی کی پیداواری لاگت کو مد نظر رکھتے ہوئے کی گئی تھی۔ تاہم شوگر ملوں نے عدالت عالیہ لاہور میں رٹ پٹشن نمبری 28772؍2023دائر کر کے چینی کی قیمت کے تعین کا نوٹیفیکیشن مورخہ چار مئی کو معطل کروا دیا۔ ٹی وی پروگرام کے اینکر سے معلوم ہوا کہ ایک جج کی طرف سے 15فیصلے کئے گئے جو تمام شوگر انڈسٹری کے حق میں تھے، کوئی بھی فیصلہ عوامی مفاد میں نہیں دیا گیا۔ حکومت پنجاب اور حکومت پاکستان نے کیس کی پیروی کی، تاہم مئی کے مہینے سے لے کر ابھی تک قیمتوں کے تعین پر سٹے آرڈر چل رہا ہے اور اس کی اگلی تاریخ عدالت عالیہ کی طرف سے ستمبر میں مقرر کی گئی ہے۔ اس حکم امتناعی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے شوگر ملوں نے چینی کی قیمت 98روپے فی کلو سے بڑھا کر تقریبا 130روپے کلو کر دی تھی۔ قیمت کا نوٹیفیکیشن معطل ہونے سے پنجاب سپلائی چین مینجمنٹ آرڈر بھی معطل ہو چکا ہے۔ حکومت پاکستان اور حکومت پنجاب کے قانونی ماہرین اور وکلا اپیلیں دائر کر چکے ہیں، تاہم حکم امتناعی ابھی تک خارج نہیں ہوا، جس کی وجہ سے نہ تو حکومت چینی کی قیمت مقرر کر سکتی ہے اور نہ ہی چینی کی سپلائی مطلوبہ مقدار میں کرا سکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اس حکم امتناعی کی آڑ میں معطل شدہ قیمت سے شوگر ملوں نے اب تک عوام سے پندرہ ارب روپئے سے زائد وصول کئے ہیں اور اگر ماہ ستمبر تک حکم امتناعی
نافذ العمل رہتا ہے تو خدشہ ہے کہ یہ اضافہ 35ارب روپئے سے تجاوز کر جائیگا۔ سیکرٹری فوڈ پنجاب زمان وٹو انتہائی قابل افسر ہیں، ان کی نشاندہی سچ ثابت ہو گئی۔ سیکرٹری فوڈ پنجاب زمان وٹو نے خدشہ ظاہر کیا تھا اور آج ان کا یہ خدشہ حقیقت بن چکا ہے، سیکرٹری فوڈ نے ٹی وی پروگرام میں بتایا کہ اس وقت شوگر مافیا 55ارب روپے کا ڈاکہ ڈالا جا چکا ہے۔ حکومت کی طرف سے سپریم کورٹ میں پٹیشن کی کوئی سنوائی نہیں ہوئی اور آج مافیا کے ہاتھوں 55ارب کا سیدھا ڈاکہ ڈالا گیا ہے، تاجر نئی عسکری قیادت کے سامنے اپنے رونے دھونے کرتے ہیں، پھر ایکسپورٹ بڑھانے کے لیے مراعات مانگتے ہیں لیکن تاریخ اٹھا کر دیکھیں، ان کو مراعات، سبسڈی دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہوا، ملک کی ایکسپورٹ میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں دیکھا گیا اور نا ہی ان تاجر حضرات کی طرف سے نئی انڈسٹری قائم کی گئی۔ سمگلنگ کو بند کرنے رٹ کرتے ہیں لیکن ان علاقوں میں جا کر انڈسٹری نہیں لگاتے۔ بارڈر پر جائیں وہاں انڈسٹری قائم کریں تاکہ غریبوں کو روزگار ملے۔ کیا نگران حکومت ان شوگر انڈسٹری مالکان، جو ذخیرہ اندوزی میں ملوث ہیں، کے خلاف MPOکے تحت کارروائی کرے گی، یقینا دیکھیں پھر شوگر مافیا کی دوڑیں لگ جائیں گی۔ قیمتوں تین طرح سے بڑھتی ہیں، قیمتوں پر انٹرنیشنل مارکیٹ اثر انداز ہوتی ہے، جس کے کنٹرول کے لیے حکومت کو بہتر وزیر خزانہ کی ضرورت پڑتی ہے، حال ہی اتحادی حکومت نے تجربہ کار وزیر خزانہ کو بلوا کر ملک کی حالت کو مزید پتلا کر دیا، اور دوسری کمشنری نظام یا بلدیاتی نظام کی کمزوری، نا اہل انتظامیہ کی رٹ نہ ہونے سے تاجر برادری عوام کو دونوں ہاتھوں سے کاٹنا شروع کر دیتی ہے، چند ہزار روپے علاقائی، ضلع کمشنر، اسسٹنٹ کمشنر کو نذرانہ دے کر لوٹ مار کی اجازت کا پروانہ حاصل کر لیتے ہیں۔ بڑوں تاجروں کی بڑے کارنامے ہیں، جب بھی ملک کو مشکلات در پیش آئیں، تاجر برادری اپنے فرائض ادا کرنے کی بجائے حکومت اور عوام کو بلیک میل کرنا شروع کر دیتی ہے۔ ریاست کے ساتھ کھڑے ہونے کے بجائے اپنی جیبوں بھرنا شروع کر دیتے ہیں، نگران وزیر اعظم اور عسکری قیادت کو ایسے تاجروں کے خلاف بھی بھر پور ایکشن لینا چاہئے۔ ڈیری فارمنگ والوں کو بھی ٹیکس نیٹ میں لے کر آئیں، دودھ کی قیمتیں آسمانوں سے باتیں کر رہی ہیں، ان کے خلاف سخت ایکشن کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button