ColumnImtiaz Ahmad Shad

پاکستان کے بنیادی مسائل

امتیاز احمد شاد
وسائل چند ہاتھوں میں تھمانے والی اور مسائل عوام کے مقدر میں لکھنے والی ریاستوں کا ہمیشہ سے یہ وتیرہ چلا آرہا ہے کہ عوام اور ریاست کی خوشحالی مفاد پرستوں کی موت ہے تاہم ملک میں ترقی اور خوشحالی اگر کہیں ہو بھی تو اجارہ داری مفاد پرست طبقے کی ہی رہنی چاہئے۔ ایسی ریاستوں میں یہ عمل عام طور پر دیکھنے کو ملتا ہے کہ جو بولے گا مارا جائے گا، جو اٹھے گا پابند سلاسل ہو گا اور جو سوچے گا نشان عبرت بنا دیا جائے گا۔ ایسے رویوں کی حامل ریاستیں ہمیشہ اغیار کے دروازوں پر چند ٹکوں کی خاطر ایڑیاں رگڑتے ہوئے دکھائی دیتی ہیں۔ تاریخ کا مطالعہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ریاست کی ترقی اور خوشحالی اس وقت پائیدار ہوتی ہے جب اس کے باشندے نظام عدل سے مطمئن ہو کر اجتماعی طور پر اپنے فرائض نبھاتے ہیں اور بدلے میں ریاست ان کے حقوق کا خیال رکھتی ہے۔ اقوام عالم میں ایسی کسی ریاست کا وجود قائم نہیں رہ سکتا جو عوام کے حقوق کو خود پامال کرے اور ان سے فرائض کی ادائیگی کا تقاضا کرے۔ ملک کے موجودہ ابتر سیاسی و معاشی صورتحال کی وجہ سے ہر پاکستانی مہنگائی کی دلدل میں روز بروز دھنستا ہی جا رہا ہے جہاں سے اسے نہ نکلنے کی مایوسی کھائے جا رہی ہے۔ ایسے مایوس کن بلکہ تباہ کن حالات میں ہر کسی کے ذہن میں ایک ہی سوال ہے کہ اس سیاسی و معاشی عدم استحکام کی بنیادی وجہ کیا ہے، کون اس کا ذمہ دار ہے، اس اہم ترین سوال کا جواب تلاش کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ قائد اعظمؒ کے بعد پاکستان کی عوام عرصہ دراز سے حقیقی سیاسی لیڈر سے محروم چلی آ رہی ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر سیاسی جماعت کا کارکن اپنے پارٹی لیڈر کو ہی مسیحا سمجھتا ہے اور یہ اس کا حق بھی ہے۔ لیکن یہاں ہم حقیقت جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم نے بحیثیت قوم کبھی اپنے بنیادی مسائل پر توجہ نہیں دی اور ہمیشہ وقتی اور عارضی نوعیت کے حادثاتی مسائل پر غیر معمولی وقت اور توانائیاں صرف کرتے رہے ہیں۔ پاکستان قائد اعظم کی رحلت کے بعد سے قیادت کے بحران سے گزر ر ہا ہے۔ اگر ملک اور قوم کو قائد اعظمؒ جیسی صفات کا حامل ایک اور قائد میسر آجاتا تو پاکستان یقینی طور پر بنیادی مسائل پر قابو پاکر ترقی یافتہ ملکوں کی صف میں شامل ہوچکا ہوتا۔ آبادی میں ہوشربا اضافہ باقی مسائل کو جنم دے رہا ہے اور ترقی و خوشحالی کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہے مگر کسی حکومت نے اس مسئلہ کو حل کرنے کے لیے سنجیدہ کوشش نہیں کی حالانکہ دنیا کے بہت سے ملکوں نے آبادی کی شرح کو کنٹرول کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔ بنگلہ دیش اس ضمن میں ہم سے آگے نکل چکا ہے۔ پاکستان کا سیاسی بحران ابھی تک حل نہیں کیا جاسکا۔ سیاسی استحکام کے بغیر معاشی استحکام حاصل نہیں کیا جاسکتا۔ ہمارا جمہوری سیاسی نظام شخصیتوں اور خاندانوں کے دبائو کا شکار رہا ہے۔ اس لیے سیاسی جماعتوں میں اندرونی جمہوریت کا کلچر پروان نہ چڑ ھ سکا۔ عوام کی سیاسی جمہوری نظام میں شرکت پانچ سال میں ایک بار ووٹ دینے کی حد تک ہی رہی ہے۔ فوجی مداخلتوں نے جمہوری نظام کو تسلسل کے ساتھ چلنے نہ دیا۔ ابھی تک چونکہ ہم سیاسی عسکری تعلقات کا مستقل اور پائیدار لائحہ عمل تلاش نہیں کر سکے اس لیے فوجی مداخلت کے امکانات اس وقت تک باقی رہیں گے جب تک سیاسی جماعتیں یونین کونسل کی سطح پر منظم اور فعال نہیں ہو جاتیں اور جاگیردارانہ جمہوریت کی بجائے عوامی جمہوریت ظہور پذیر نہیں ہوتی۔ پاکستان کا معاشی عدم استحکام مرکزی قومی مسئلہ ہے۔ سرمایہ دارانہ معیشت کا نظام پاکستان کی ترقی میں بڑی رکاوٹ ہے۔ اس نظام کو عالمی مالیاتی اداروں کی سرپرستی حاصل ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام چونکہ سامراجی عزائم کا تحفظ اور دفاع کرتا ہے اس لیے سامراجی ممالک تیسری دنیا کے ملکوں کو اپنے پائوں پر کھڑا نہیں ہونے دیتے۔ جس طرح سیاسی نظام میں عوام کا فیصلہ سازی میں کوئی حصہ نہیں ہے اسی طرح معاشی نظام میں بھی ان کا فعال کردار نہیں ہے۔ امیر اور غریب کے درمیان فاصلہ بڑھتا جارہا ہے اور سرمایہ دارانہ معاشی استحصال کی وجہ سے عوام ہر روز غربت کی لکیر کے نیچے جارہے ہیں۔ زراعت اور صنعت کی ترقی کے بغیر پاکستان کی معیشت مستحکم نہیں ہوسکتی۔ قومی وسائل کی منصفانہ تقسیم کے بغیر معاشی ترقی کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ معاشی اجارہ داریوں نے عوام سے عزت سے جینے کا حق ہی چھین لیا ہے۔ تاجر اور صنعتکار اشیاء کی من مانی قیمتیں وصول کر رہے ہیں۔ منظم عوامی مزاحمت کے ساتھ ہی اس صورت حال کو تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ پاکستان کا اہم ترین مسئلہ تعلیم ہے اگر ہم نے سو فیصد تعلیمی شرح کی منزل حاصل کر لی ہوتی تو پاکستان آج ہر شعبے میں بہت بہتر حالت میں ہوتا۔ غربت، جہالت، سماجی مسائل اور بے روزگاری کا زیادہ تر تعلق تعلیم کے فقدان سے ہے۔ تعلیم کے لیے صرف 2فیصد بجٹ مختص کیا جاتا ہے جو مقتدر طبقات کی بے حسی کا مظہر ہے۔ تعلیمی ایمرجنسی کے بغیر یہ بنیادی مسئلہ حل نہیں کیا جاسکتا۔ حکومتوں پر انحصار کی بجائے پاکستان کے پڑھے لکھے باشعور محب الوطن افراد کو یہ چیلنج قبول کر کے فروغ تعلیم کی موثر اور سنجیدہ تحریک کا آغاز کرنا ہوگا۔ مساجد میں پرائمری تعلیم کا اہتمام آسانی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ ہم ابھی تک مقامی ضلعی حکومت کا ٹھوس نظام وضع نہیں کر سکے اور نہ ہی مرکز سے صوبے اور صوبے سے ضلع تک اختیارات اور مالیات کی تقسیم کا عمل مکمل کیا جاسکا ہے۔ اگر ضلعی حکومتوں کا نظام مستحکم ہوچکا ہوتا اور عوام کے بیشتر مسائل یونین کونسل کی سطح پر حل ہورہے ہوتے تو آج نئے صوبوں کے مطالبات ہی سامنے نہ آتے۔ مرکز اور صوبوں کی سطح کے سیاسی قائدین چونکہ زیادہ سے زیادہ اختیارات اپنے پاس رکھنا چاہتے ہیں اس لیے عوام کو مقتدر بنانے کا خواب پورا نہیں ہوسکتا۔ پاکستان میں ابھی تک عدل و انصاف اور احتساب کا مثالی نظام تشکیل نہیں پا سکا جس کی وجہ سے عوام سستے اور فوری انصاف سے محروم ہیں۔ یہ خواب اس وقت پورا ہوگا جب ہر یونین کونسل میں ایک منصف بیٹھا ہوگا اور عوام وکیل کے بغیر اس سے انصاف حاصل کر سکیں گے۔ احتساب کے صاف اور شفاف نظام کے بغیر پاکستان کے بنیادی مسائل حل نہیں کئے جاسکتے کیونکہ کرپشن کی وجہ سے پاکستان کے جسم کا خون ہی نچوڑ لیا جاتا ہے۔ آزادی کے بعد ہم نے اس ریاستی نظام کو قبول کر لیا جو ایک کالونی کو چلانے کے لیے بنایا گیا تھا۔ جبکہ ایک آزاد ملک کے تقاضے مختلف تھے۔ پولیس، فوج اور بیوروکریسی کے نظام کلونیل ہیں جبکہ پاکستان کا آئین اسلامی، جمہوری اور فلاحی ہے جب تک اس بنیادی تضاد کو ختم نہیں کیا جاتا ہم بھٹکتے ہی رہیں گے۔ پاکستان کے پڑھے لکھے افراد کا قومی فرض ہے کہ وہ بیدار ہوں اور پاکستان کے بنیادی مسائل حل کرنے کے لیے توانا اور موثر کردار ادا کریں۔ پاکستان کا الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا بنیادی مسائل پر توجہ دے کر نتیجہ خیز اور مثبت کردار ادا کر سکتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button