CM RizwanColumn

کرگس مزاج بزنس ٹائیکون

سی ایم رضوان
پرواز ہے دونوں کی اسی ایک فضا میں، کرگس کا جہاں اور شاہیں کا جہاں اور۔۔ یعنی شاہین اور گدھ دونوں اسی ایک فضا میں اڑ رہے ہوتے ہیں۔ شاہین اپنی ہمت سے زندہ طیور کا شکار کر کے حلال کھاتا ہے اور کرگس یعنی گدھ مردار کھاتا ہے۔ وطن عزیز میں حلال روزی کے لئے سارا دن مزدوری کرنے والے شاہین صفت بھی موجود ہیں اور یہاں کے بااثر طبقات میں ہر قسم کے ظالم گدھ بھی پائے جاتے ہیں جو ناجائز کمائی کی صورت میں ہر قسم کا مردار رغبت سے ہڑپ کر رہے ہیں۔
اس بااثر طبقے کے دولت اکٹھی کرنے کے لاتعداد طریقے ہیں جن سے کمائی کر کے یہ بااثر طبقات اپنے اثاثوں میں روز بروز کروڑوں روپے کا اضافہ کر رہے ہیں اور معصوم، انجان عوام روز بروز غربت، افلاس اور بے سروسامانی کا شکار ہو رہے ہیں۔ یہ لوگ راتوں رات کمپنیاں بنا کر لوٹ کھسوٹ کا ایسا سلسلہ شروع کر لیتے ہیں کہ عام لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی کس طرح ان ٹائیکونز کی تجوریوں میں چلی جاتی ہے۔ ان میں شوگر مافیا اور آئی پی پیز ٹائیکون ان دنوں کروڑوں کما رہے ہیں کیونکہ ایک طرف بجلی اور چینی کا بحران عوام کو ہلکان کر رہا ہے تو دوسری طرف یہ ٹائیکون انہی بحرانوں کی وجہ سے کروڑوں روپے کی اضافی دیہاڑیاں لگا رہے ہیں۔ 1996ء میں بینظیر حکومت نے نجی پاور کمپنیوں ( آئی پی پیز) کے ساتھ ابتدائی معاہدے کئے تھے۔ اس کے بعد آنے والی تقریباً ہر حکومت نے انہی معاہدوں اور شرائط کو جاری رکھتے ہوئے نئے پلانٹس لگانے کی منظوریاں دیں۔ ان معاہدوں میں یقین دہانی کروائی گئی کہ ان کی پیدا کردہ بجلی صرف حکومت خریدے گی اور اگر حکومت بجلی کسی وجہ سے بھی ان سے نہیں خریدتی تو بھی ان کی پیداواری صلاحیت کے 70فیصد کے برابر ادائیگی کی جائے گی۔ اس پر مستزاد یہ کہ ان کمپنیوں کا زیادہ حصہ تیل، گیس اور کوئلے کے ذریعے بجلی پیدا کر رہا ہے۔ معاہدوں میں یہ بھی شامل ہے کہ ان کمپنیوں کو تیل اور گیس مارکیٹ سے سستا مہیا کیا جائے گا۔ حکومت ان آئی پی پیز کو تمام تر ادائیگیاں امریکی کرنسی ڈالر میں کرنے کی بھی پابند ہے۔ یوں جو بجلی یہ کمپنیاں پیدا ہی نہیں کرتیں، اس کے لئے ان کو ادائیگیاں کی جا رہی ہیں۔ یہ سارا ظلم آخر کار عوام یا بجلی کے صارفین پر آزمایا جاتا ہے۔ متعدد حکومتوں نے بجلی کی پیداواری صلاحیت بڑھانے کے لئے آئی پی پیز کے قیام کا راستہ ہموار کیا۔ ان کمپنیوں کو عوام کے خون کا آخری قطرہ تک پیش کر دیا گیا لیکن بجلی کی ترسیل کا ڈھانچہ بہتر نہیں کیا۔ یعنی ملک بھر میں بجلی کے ترسیلی ڈھانچے میں 22ہزار میگاواٹ سے زائد بجلی ایک ہی وقت میں ترسیل کرنے کی صلاحیت ہی موجود نہیں اور ضرورت اگر 22ہزار میگاواٹ سے تجاوز کر جائے تو لوڈ شیڈنگ ناگزیر ہو جاتی ہے۔ لیکن ان کمپنیوں کو ادائیگی اور مراعات اس پیداواری حد سے کہیں زیادہ دی جارہی ہیں۔ اس سارے بحران کا تمام تر بوجھ غریب پر پڑتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ بجلی کی قیمتوں پر یکساں سلیب سسٹم ٹیرف کے نفاذ کے بعد حکومت نے آئی ایم ایف کی ایماء پر تمام تر معاشی بحران کا بوجھ اکثریتی غریب عوام پر ڈال دیا ہے۔ بات صرف بجلی کی زائد پیداواری صلاحیت، چوری اور لائن لاسز کی قیمت چکانے تک ہی محدود نہیں بلکہ انکم ٹیکس جمع کرنے میں ناکام ریاست نے بجلی کے بلوں کو ہی انکم ٹیکس جمع کرنے کا ذریعہ بھی بنا لیا ہے۔ پی ٹی وی، ریڈیو سمیت دیگر اداروں کے خساروں کا بوجھ، جنرل سیلز ٹیکس سمیت مختلف ویلیو ایڈڈ ٹیکس بھی ان بلوں میں شامل کئے گئے ہیں۔ یوں ان ٹیکسوں کی شرح استعمال شدہ بجلی کے سو فیصد کے برابر ہو گئی ہے۔ بجلی کی قیمتیں الگ سے ایک پیچیدہ ٹیرف کے ذریعے مقرر کی گئی ہیں۔ اس پیچیدہ ٹیرف کے تحت ایک بار اگر کسی صارف نے 200یونٹ سے زائد بجلی استعمال کر لی تو اسے اگلے کم از کم 6ماہ تک دو سو یونٹ کے حساب سے بجلی کی قیمت ادا کرنا ہوتی ہے۔ ٹیرف کے نام پر اس قیمت پر پھر سو فیصد ٹیکس عائد کئے جاتے ہیں۔ اس طرح حکمرانوں کی ناقص پالیسیوں کے باعث 80 فیصد سے زائد عوام فاقوں تک پہنچ گئے ہیں۔ حل تو یہ ہے کہ تمام نجی پاور کمپنیوں کو قومی تحویل میں لے کر گردشی قرضوں کی ادائیگی بند کی جائے۔ یہ پاور کمپنیاں جو اب تک اپنی سرمایہ کاری سے کئی سو گنا زائد لوٹ چکی ہیں۔ ان کو چھوڑ کر سستی بجلی کے پیداواری ذرائع کو ترجیحاً اپنایا جائے۔ گھریلو صارفین کو 300یونٹ تک بجلی مفت فراہم کی جائے۔ سامراجی اداروں کی پالیسیاں اپنائے والے حکمران اگر ایسے اقدامات نہیں اٹھائیں گے تو ظاہر ہے عوام کو احتجاج کا راستہ اختیار کرنا پڑے گا۔
ابھی ہم بجلی کے بلوں کی تاریخی زیادتی کا رونا رو ہی رہے تھے کہ ایک رونا اور پڑ گیا۔ یہ رونا ہے چینی کی قیمتوں کے بے قابو ہو جانے کا۔ 90روپے سے ایک سو روپے فی کلو کے قریب فروخت ہونے والی چینی محض ایک ہفتہ کی میڈیا وار کے بعد دو سو روپے فی کلو تک پہنچ گئی۔ موجودہ حکومت کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ اس ساری چور بازاری کو خاموش تماشائی بن کے دیکھ رہی ہے اور چینی کی قیمت جو اس سال کے شروع میں 85سے 90روپے فی کلو تھی، صرف آٹھ مہینوں میں دو سو روپے سے زائد کی سطح تک پہنچ گئی ہے۔ اس وقت چینی کی ایکس فیکٹری قیمت 168روپے، ہول سیل پر قیمت 172سے 175روپے تک پہنچ چکی ہے اور اس کی ریٹیل قیمت 180روپے فی کلو یا اس سے زائد سطح پر ہے۔ چینی کی ذخیرہ اندوزی، سٹے بازی اور سمگلنگ اس کی بڑی وجوہات قرار دی جا رہی ہیں۔ دوسری جانب شوگر ملز بھی اس وقت تنقید کی زد میں ہیں اور ان کے مطالبے پر چینی برآمد کرنے کی اجازت ملنے کے بعد چینی کی قیمت بڑھنے پر انہیں مورد الزام ٹھہرایا جا رہا ہے۔ تاہم شوگر ملز کی نمائندہ تنظیم کی جانب سے اس تاثر کی نفی کی گئی ہے اور اسے حقائق کے برعکس قرار دیا گیا ہے۔ یہ بھی ایک خبر ہے کہ پی ڈی ایم کی گزشتہ حکومت کی جانب سے اس سال جنوری کے مہینے میں چینی کی برآمد کے فیصلے کی منظوری دی تھی۔ پھر مارچ کے مہینے میں چینی کی قیمت میں اضافے کا سلسلہ شروع ہوا اور اس میں مسلسل اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔ جب برآمد کرنے کا فیصلہ لیا گیا تھا اور جو چینی سٹاک کے بارے میں اعداد و شمار دیئے گئے تھے ان کا جب آزادانہ جائزہ لیا گیا تو چینی کا اتنا ذخیرہ موجود نہیں تھا اور جو کھپت بتائی گئی۔ وہ اصل کھپت سے کم تھی۔ بتایا جاتا ہے کہ اس وقت کے ایف بی آر اور وزارت صنعت و پیداوار کے اعداد و شمار میں فرق تھا، خاص کر چینی کے سٹاک کے نمبرز میں فرق تھا۔ تاہم ایک سیاسی فیصلہ کیا گیا جس سے شوگر ملز مالکان نے دو فائدے اٹھائے۔ ایک تو انہوں نے غیر ملکی مارکیٹ سے چینی برآمد کر کے زرمبادلہ کمایا۔ دوسری جانب جب یہاں سے چینی برآمد کی گئی تو جو چینی 85روپے کلو تھی وہ 180روپے تک پہنچ گئی تو اس کا انہوں نے فائدہ اٹھایا۔ المختصر چینی کی برآمد کا یہ فیصلہ غلط تھا کیونکہ پاکستان میں مارچ کے مہینے کے بعد چینی کی کھپت میں عموماً اضافہ ریکارڈ کیا جاتا ہے کیونکہ ایک جانب گرمی کے سیزن کی وجہ سے چینی کی کھپت بڑھ جاتی ہے تو دوسری جانب مختلف تہواروں کی وجہ سے بھی اس کے استعمال میں اضافہ ہوا۔ چینی کی افغانستان سمگلنگ بھی ہمیشہ سے ایک مسئلہ رہا ہے۔ ظاہر ہے اس کے پیچھے بھی کچھ کرگس مزاج بزنس ٹائیکون ہوتے ہیں جو دولت کمانے کی ہوس میں ملکی مفاد تک کو دائو پر لگا دیتے ہیں۔ دوسری طرف ایک دن میں چینی کی قیمت میں چار روپے اور اگلے روز پانچ روپے مزید کا بڑھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ چینی کے معاملے میں سٹے بازی ہو رہی ہے اور کرگس مزاج چینی مافیا کے ٹائیکون قیاس آرائیوں پر مبنی قیمت بڑھاتے ہیں اور پھر حقیقت میں قیمت بڑھ جاتی ہے۔ اس وقت بھی یہی ہو رہا ہے کیونکہ چینی کی برآمد کی وجہ سے مقامی مارکیٹ میں اس کی کمی ہوئی اور ابھی نئے کرشنگ سیزن میں دو مہینے ہیں اور نئی چینی مارکیٹ میں آنے میں تین چار ماہ کا عرصہ لگے گا تو اس کی وجہ سے ایک ایسی صورتحال پیدا ہو گئی ہے جہاں چینی پر سٹہ بھی ہو رہا ہے جو قیمت میں مزید اضافے کا خدشہ ظاہر کرتا ہے۔ دوسری طرف نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے بجلی کے معاملے میں بھی یہ کہہ دیا کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں ہوا یعنی بجلی کی ٹھیکیدار کمپنیاں بھی مزید مردار کھانے کو تیار ہیں۔ اللہ تعالیٰ ان کرگس مزاج بزنس ٹائیکونز کے زہریلے اور نوکیلے دانتوں میں جکڑے پاکستانی عوام کے حال پر رحم فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button