ColumnNasir Naqvi

بجلی تماشہ

ناصر نقوی
عرصہ دراز کی بات ہے کہ ایک ٹی وی شو میں معروف اداکارہ بشریٰ انصاری نمودار ہوئی تو ان کی پذیرائی میں ہر کسی نے قربت حاصل کرنے کی کوشش کی تو ان کا جواب تھا’’ میں بجلی ہوں‘‘ حد ادب فاصلہ رکھیں ورنہ 440وولٹ کا جھٹکا بھسم کرکے رکھ دے گا۔ پھر ہم نے الحمرا لاہور میں ڈرامہ نویس سلیم چشتی کا تحریر کردہ کھیل ’’ لوٹ سیل‘‘ سٹیج کیا تو اس میں ایک منفرد کردار بجلی کا ثمینہ خالد ( خواجہ اینڈ سن فیم جواد جی) نے ادا کر کے زبردست داد حاصل کی۔ ان کا جو ڈائیلاگ تھا کہ’’ میں کتنی خوبصورت ہوں اس بات کا اندازہ اس بات سے لگائو کہ شہر ہو کہ گائوں، غریب کا ٹھکانہ ہو کہ امیر کا، عالی شان بنگلہ سب کو میرے آنے جانے کا انتظار ہوتا ہے لیکن میں کسی کی پابند نہیں ، اپنی مرضی سے آتی جاتی ہوں‘‘۔ اس سے پہلے ممتاز ڈرامہ نویس اطہر شاہ خاں جیدی ایک ڈرامہ ’’ خطرہ440 وولٹ‘‘ بھی لکھ چکے ہیں۔ جس سے جھٹکا بجلی کا ہی محسوس ہوتا تھا لیکن اس تمام کہانیوں اور پرفارمنس میں معاشرتی ناہمواری اور طبقاتی مسائل کو ہی بنیاد بنایا گیا تھا تاہم تدارک ممکن اس لئے نہیں ہو سکا کہ وطن عزیز میں دو طبقات کی واضح تقسیم گزشتہ 76سالوں میں پیدا ہو چکی ہے۔ یہ ایسی خلیج ہے کہ اسے پْر نہیں کیا جا سکتا۔ اسی سوچ میں کسی نے کوشش بھی نہیں کی، اس لئے کہ ہمارے ذمہ داروں اور حکمرانوں نے صرف اپنے مفادات کی آبیاری کی، قوم کو سبز باغ اور ’’ ڈیم فل‘‘ بنا کر وقت گزارا۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو ’’ ڈیم‘‘ بھی بنتے اور دھرتی بھی سرسبز و شاداب ہوتی۔ جن بحرانوں کو آج ہم اپنا نصیب سمجھنے پر مجبور ہیں وہ کبھی ہمارا مقدر نہ بنتے بلکہ ’’ بجلی‘‘ کی چمک اور کڑک جس طرح دور دور سے آسمانوں پر اچھی لگتی ہے لیکن سب خیر مانگتے ہیں کہ یہ چمک ، کڑک وہیں رہے جہاں بھلی لگ رہی ہے کسی پر گرے نہ کیونکہ وہ نقصان کا باعث بنتی ہے، اس سوچ کے باوجود ہمارے حکمرانوں نے قوم پر بجلی گرا دی اور خود ٹھہرے اشرافیہ اس لیے ’’ بجلی تماشہ‘‘ دیکھ رہے ہیں البتہ یہ حقیقت ہے کہ یہ تالی نہ ایک ہاتھ سے بجی اور نہ ہی اس میں صرف کسی ایک دور کے حکمران شامل ہیں یعنی ’’ عام اور خاص‘‘ نے مل کر یہ کارنامہ انجام دیا، مطلب یہ کہ ہر کسی نے اپنا حصّہ ڈالا جس میں ’’ ہم اور آپ‘‘ بھی شامل ہیں۔
آئیےحالات کا جائزہ لیتے ہیں۔ موجودہ دور میں بجلی ہی مہنگی نہیں، بلوں میں مختلف ٹیکسز ڈال دئیے گئے۔ معاملہ لوگوں کی پہنچ سے باہر ہو گیا۔ مطالبہ یہ ہے کہ کم از کم ٹیکسز سے تو نجات دی جائے کیونکہ ’’ بل‘‘ کم اور اس پر ٹیکسز زیادہ ہیں۔ حکومت اسے آئی ایم ایف معاہدے کا شاہکار قرار دے رہی ہے۔ نگران حکومت وعدے اور یقین دہانی کے باوجود کچھ نہیں کر سکی بلکہ جواب یہی دیا گیا کہ آئی ایم ایف کی اجازت کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے۔ اب آپ کا دعویٰ یہ ہو گا کہ اس میں حکمرانوں کی کرپشن، لوٹ مار اور عیاشیاں شامل ہیں۔ ہم غریبوں یا عام پاکستانیوں کا کیا قصور؟ پہلی بات آپ کی درست ہے کہ معاہدے اور غلط منصوبہ بندیوں کے ذمہ دار حکمران ہیں۔ موجودہ دور کے مسائل شوکت ترین، مفتاح اسماعیل اور اسحاق ڈار کے تجویز کردہ آئی ایم ایف شرائط سے پیدا ہوئے لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اگر شرائط طے نہ ہو پاتیں تو آئی ایم ایف انکار کر دیتا، ملک ڈیفالٹ کے موڑ پر کھڑا تھا لہٰذا عالمی ادارے نے آخری لمحے تک ناک سے لکیریں نکلوائیں۔ ہماری مجبوری سے ہر ممکن فائدہ اس لیے اٹھایا گیا کہ مقروض ملک کو واپسی کی منصوبہ بندی بتانی پڑتی ہے لہٰذا انہوں نے بہترین حل ’’ بجلی بلوں‘‘ کی معرفت نکال لیا ہم ویسے جس قدر غیر ضروری معاملات میں پیسے خرچ کر دیں لیکن سرکار کو دینے میں ہمیشہ ہاتھ کھینچ لیتے ہیں۔ 25کروڑ کی آبادی کے ملک میں ’’ٹیکسز‘‘ ادا کرنے والوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے لہٰذا حکمرانوں نے اس کی وصولی کے لیے ایسے راستے نکالے کہ ہم ہر شے پر ٹیکس دینے کے باوجود ٹیکس نہ دینے والوں میں شمار کئے جاتے ہیں کیونکہ براہ راست ٹیکس کی ادائیگی جہاں جہاں بھی ہے وہاں وہاں کرپشن، لوٹ مار، حکومتی خزانے کی بجائے ذاتی جیبیں گرم کرنے کا رواج عام ہے یہی وجہ ہے کہ ہم ٹی وی دیکھیں، رکھیں نہ رکھیں ہمیں بجلی بلوں کے ساتھ ٹی وی اور ریڈیو کی فیس بھی ادا کرنی پڑتی ہے حکومت اس انداز میں پوری قوم سے ایک خطیر رقم اکٹھا کرتی ہے یہ فیس، مسجد، گرجا گھر، مندر اور گردوارے بھی ادا کر رہے ہیں۔ فیس کم ہے اس لیے وہ واویلا نہیں مچا جو دوسرے ٹیکسز کے باعث گلے پڑا ہے۔ عالمی معاشی بحران میں ترقی پذیر اور کم ترقی یافتہ ممالک کے لئے توانائی درد سری بن گئی ہے۔ صنعت و تجارت اس کے بغیر آگے بڑھ ہی نہیں سکتی، تیل عالمی سطح پر مہنگا ہوا تو ہم بجلی بھی تیل سے بنا رہے ہیں پھر ہمارے اداروں سے معاہدہ یہ ہے کہ وہ ہماری کھپت سے کم بجلی بنائیں یا نہ بنائیں ان کو معاہدے کے مطابق ادائیگی کرنی ہے، دوسری جانب ہماری اور آپ کی کوتاہی یہ ہے کہ ہم مسائل کا حقیقی حل تلاش نہیں کرتے بلکہ ’’ شارٹ کٹ‘‘ کے لیے فکر مند زیادہ ہوتے ہیں اس لئے ’’ مک مکا‘‘ ملازمین سے کرتے ہیں، بجلی محکمے کی کنڈا ڈال کا استعمال کرتے ہیں اس سے بھی محفوظ طریقہ ’’ میٹر ریڈر‘‘ کا تعاون ’’ قائداعظم‘‘ کی تصویر کی جھلک اور ماہانہ بنیاد پر معاملہ طے پا جاتا ہے۔ جیب گرم تو خون گرم ، تمام کام با آسانی ہو جاتے ہیں۔ نہ دفاتر کے چکر ، نہ ہی کوئی لمبی چوڑی بھاگ دوڑ، محلہ محلہ یہ کام ہورہا ہے۔ ملک کے قومی ادارے ’’ واپڈا‘‘ کی جڑوں میں چونا ڈالا جا رہا ہے۔ اب بات بگڑی تو بہت دور تک پہنچ گئی۔ ’’ جدید میڈیا‘‘ کا دور ہے۔ لہٰذا میڈیا نے بھی قومی خدمت اور عوامی مسائل کی نشاندہی کے نام پر خوب ہوا دی۔ حالات اس حد تک خراب ہو گئے کہ انتشار بڑھتا جا رہا ہے مار کٹائی سے بات آگے نکل گئی ، جلائو گھیرائو تک نوبت آ چکی ہے لیکن حل دکھائی نہیں دے رہا جبکہ صرف لیسکو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق ایک سال میں 9ارب 30کروڑ کے نقصانات ہوئے بلکہ ٹرانسمشن۔ڈسٹری بیوشن سسٹم سے بجلی چوری کی وجہ سے لیسکو مقررہ لائن لاسز بھی حاصل کرنے میں ناکام رہا۔ تفصیلات کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ’’ نیپرا‘‘ نے 90فی صد لائن لاسز کے اہداف حاصل کرنے کا حکم دیا اور لیسکو نے صرف گیارہ اعشاریہ بیس فیصد تک لائن لاسز کم کئے جبکہ جماعت اسلامی کے سینیٹر مشتاق احمد کہتے ہیں کہ پانچ سو ارب کی بجلی چوری ہوتی ہے جس میں صرف 743ملازمین ملوث ہیں لیکن ان بحرانی حالات میں نومولود سیاسی پارٹی آئی پی پی کے عبدالعلیم خان نے دعویٰ کیا ہے کہ اگر انہیں کامیابی ملی تو وہ تین سو یونٹ فری بجلی دیں گے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز شریف نے ابتدائی طور پر سو یونٹ بجلی فری دینے کی منصوبہ بندی کی تھی تو عبدالعلیم خان کی سابق سیاسی جماعت پی ٹی آئی اسے رکوانے کے لیے عدالت پہنچ گئی تھی اور پھر یہ عوامی رعایت نہیں مل سکی۔ بھارتی ریاست دہلی کے وزیراعلیٰ کچریوال نے یہ کارنامہ کر کے پورے ملک بلکہ ہمیں بھی پریشان کر دیا کہ وہ دہلی کے غریبوں کو تین سو یونٹ فری بجلی دے رہا ہے اس نے جھاڑو کے انتخابی نشان پر الیکشن لڑا۔ پہلی مرتبہ مطلوبہ کامیابی نہیں ملی تو اقتدار کو لات مار دی۔ عوام نے دوسری بار بھاری اکثریت ایسے دی کہ بڑے بڑے سیاسی برج الٹ گئے اور بھارت کی ’’ راج دھانی‘‘ میں مکمل جھاڑو پھیر دی۔ ایک چھوٹی پارٹی کی اس کارروائی سے بڑی پارٹیاں منہ دیکھتی رہ گئیں، ایسا ہی’’ پاکستان‘‘ میں بھی کچھ ہوتا محسوس ہو رہا ہے کیونکہ تینوں بڑی پارٹیوں سمیت پی ڈی ایم اتحاد کی تمام جماعتیں ’’ بجلی تماشہ‘‘ میں فعال کردار ادا نہیں کر رہیں نہ ہی نگران حکومت سے حل نکلنے کی امید ہے۔ وزیر خزانہ شمشاد اختر نے آئی ایم ایف سے رابطہ کر لیا اور انہوں نے حالات کا جائزہ لینے کے لئے تحریری رپورٹ بھی طلب کر لی لیکن بظاہر یہ تماشہ ختم ہوتا اس لئے دکھائی نہیں دے رہا کہ تماشہ کرنے والا ’’ مداری‘‘ پس پردہ ہے۔ عوام اور جماعت اسلامی ’’ فرنٹ فٹ‘‘ پر کھیل رہی ہے لیکن اندازہ یہ لگایا جا رہا ہے کہ اتحادی حکومت کے ایسے ناراض لوگ بھی احتجاج کو ہوا دے رہے ہیں جنہیں نگران حکومت میں حصہ نہیں ملا یا پھر انہیں نظر انداز کیا گیا۔ خبر گرم ہے کہ چار سو یونٹ والے صارفین کے لئے ریلیف کے لیے سوچا جا رہا ہے لیکن وفاقی وزیر اطلاعات مرتضیٰ سولنگی کے بیانات کسی طرح بھی عوامی حوصلہ افزائی کا باعث نہیں بن سکتے، اس بحران کے دو ہی حل ہیں ایک سرکاری اور دوسرا عوامی سرکاری یہ ہے کہ اب تک جتنی بدعنوانی ہونی تھی ہو چکی، مستقبل کی منصوبہ بندی حالات کے مطابق کی جائے۔ بجلی چوری کا خاتمہ اور لائن لاسز کے لئے جنگی بنیادوں پر کام کیا جائے اور عوام حالات کے تقاضی کے مطابق اپنی چادر میں رہتے ہوئے منصوبہ بندی کریں کیونکہ ’’ اشرافیہ اور سرکار‘‘ موجودہ مشکل حالات میں صرف تماشائی بنی رہے گی۔ اسی طرح میڈیا بھی صرف اپنے وقت گزاری کے لئے کوریج کر کے احتجاج، جلائو گھیرائو کو بڑھا سکتا ہے، کمی نہیں کرا سکتا، بْرا وقت ہے مشکل ترین حالات ہیں، قومی اور اجتماعی سوچ کو پروان چڑھانے کے لئے اپنے گھر، کاروبار، بازار سے نیکی کا اصولی آغاز کریں، قومیں وہی جو ترقی اور خوشحالی کا راستہ ڈھونڈ نکالتی ہیں جو افراد نہیں اجتماعی سوچ سے صبر و استقامات کا مظاہر ہ کرتی ہیں۔ آئو عہد کریں ایک قربانی وطن عزیز کے استحکام کے لئے اور سہی، ہم کسی کی طرف سوالیہ نظروں سے کیوں دیکھیں، مداری ہمیں تکتے رہ جائیں، ہم مل کر ’’ بجلی تماشہ‘‘ ختم کریں گے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button