ColumnNasir Naqvi

قیامت کی چال کون چل گیا؟

ناصر نقوی
وطن عزیز پاکستان ہمارے بزرگوں کی قربانیوں، شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ اقبال کے خواب کی تعبیر، بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کے رفقاء کی ہی نہیں، ان گمنام شہیدوں کا حسین تحفہ ہے جن کے نام بھی تاریخ کے اوراق میں درج نہیں۔ پھر بھی ’’ اپنے پرائے‘‘ کیوں اس کے دشمن بنے ہوئے ہیں۔ یقینا یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے۔ ہم اور آپ 76واں یوم آزادی بھی جوش و خروش سے منا کر دشمنوں کو یہ پیغام دے بیٹھے کہ زندہ قوم تمہاری سازشوں کو کبھی بھی کامیاب نہیں ہونے دے گی۔ ہمارے ساتھ ایک حادثہ ’’ سقوط ڈھاکہ‘‘ کا ہو چکا، ہم نے کچھ سیکھا کہ نہیں لیکن ہماری فورسز اور عوام آنکھیں اور کان کھول کر جی رہے ہیں تاکہ مشکلات سے نجات کے بعد آنے والا وقت ملک و ملت کے لیے ماضی کے حوالوں سے بہتر نہیں، بہترین ہو؟ قدرت نے بھی جغرافیائی طور پر ہمیں اَن گنت نعمتوں سے نوازا ہے۔ ’’ ہم اور آپ‘‘ باصلاحیت بھی ہیں۔ قوم نے مشکل ترین حالات میں یکجہتی کا مثالی مظاہرہ کر کے ثابت کیا کہ ہم بہادر اور دلیر نظریاتی قوم ہیں۔ ہمیں کوئی بھی مٹا نہیں سکتا۔ مالک کا ہم پر فضل و کرم ہے لیکن دنیاوی ’’ مالک داری‘‘ کے دعویداروں نے ہمارے ساتھ وہ کچھ کر دیا، جو دشمن صرف سوچ ہی سکتے تھے۔ بابائے قوم کی رحلت کے بعد ’’ پاکستان‘‘ ایسے لاوارث ہوا جیسے ’’ یتیم بچہ‘‘۔ ہر کسی نے اس کا خون چوسا اور اس کے وسائل استعمال کرنا حق سمجھتے ہوئے ایسی روایت ڈالی کہ اب تک ختم نہیں ہو سکی۔ وجہ صرف ایک ہی بنی کہ ذمہ دار اپنے مفادات کے غلام بن کر غیروں کی خواہشات میںپھنس گئے اور پھر ہمارا حال دھوبی کے کتے والا ہوا۔ جنرل ایوب خان والد محترم گوہر ایوب خان اور دادا حضور عمر ایوب خان نے سکندر مرزا سے اقتدار چھین کر آمریت کا دروازہ کھولا۔ جو ’’ لمحہ موجود‘‘ میں بند ضرور ہے لیکن اس کے اثرات اب بھی موجود ہیں۔ جنرل صاحب کے نشمین پر جب اپنے ذوالفقار علی بھٹو نے بجلیاں گرائیں تو فیلڈ مارشل نے میدان سے دوڑ لگاتے ہوئے بھی اقتدار دوسرے آمر صدر یحییٰ خان کے حوالے کیا۔ بھٹو صاحب عوامی لیڈر ہی نہیں، مقبول ترین لیڈر بنے ، ایسے کہ آج کے مخالف لیڈران بھی بھٹو بننے کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ اس کے انجام سے بے خبر رہتے ہوئے وہ اپنے اصولوں اور عوامی جدوجہد کی پاداش میں تیسرے آمر جنرل ضیاء الحق کے ہاتھوں پھانسی چڑھ گئے کیوں ؟ اس کی مختلف وجوہات ہیں۔ آپ اتفاق کریں یا نہ کریں یہ آپ کی مرضی، پہلی یہ کہ انہوں نے جنرل ایوب خان کے ظلم و ستم اور جمہوری جدوجہد میں ہونے والے شہداء کے خون کا بدلہ نہیں لیا، وعدہ نہیں نبھایا، دوئم وہ پاکستان سدھارتے سدھارتے فخر ایشیا بن گئے یہی نہیں، انہوں نے ’’ تیسری دنیا‘‘ دریافت کر کے امت مسلمہ کی رہبری کی ٹھان لی، لہٰذا بین الاقوامی سطح پر ان کے خلاف ایک ایسا محاذ بنا کہ نہ ان کی جان بچ سکی اور نہ ہی ان کے حمایتیوں کی، زمانہ قیامت کی چال چل گیا اور ہم آج تک اپنے سہولت کار جنرل ضیاء الحق جیسے آمر کو کوسنے دے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ ایک مقبول ترین عوامی اور عالمی لیڈر کو تختہ دار پر پہنچانے کے لیے نہ صرف عدلیہ نے معاونت کی بلکہ سیاستدانوں نے بھی ’’ رائے عامہ‘‘ ہموار کرنے کے لیے آمر مطلق کی ہر ممکن سہولت کاری کی، آج پاکستان جس مشکل میںبحرانوں کے منجدھار میں ہچکولے کھا رہا ہے میری ’’ جمع تفریق‘‘ میں یہی دو طبقے قصور وار ہیں کیونکہ اس وقت کے سیاسی، معاشی اور آئینی بحران میں بھی ان کی کارکردگی نمایاں ہے۔ 76سالہ پاکستانی تاریخ میں ناکردہ گناہوں کی سزا تو دی گئی ہے، گناہ گار کو کسی نے بھی کٹہرے میں کھڑا نہیں کیا بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ اگر کسی کی باری آ بھی گئی تو اس کے لیے بچ نکلنے کے راستے ضرور بنائے گئے ، اسی لیے ’’ احتساب‘‘ بھی تماشہ بنا اور گرفتار بھی رہا کر دئیے گئے، روایت جاری ہے لہٰذا ’’ جزا و سزا‘‘ کا نظام بھی جس انداز میں آگے بڑھنا چاہیے وہ ناممکن ہے پھر بھی ہم کسی بھی لحاظ اور سطح پر اپنے آپ کو بدلنے کو تیار نہیں کیونکہ ’’ احتساب ‘‘ ہم ہمیشہ دوسروں کا چاہتے ہیں اپنا ہرگز نہیں، اس لیے کہ ہم تو’’ دودھ کے دھلے‘‘ ہیں۔ ایسے میں جب کوئی انہونی ہوتی ہے تو پھر ایک دوسرے سے سوال کرتے ہیں’’ قیامت کی چال کون چل گیا؟‘‘۔
ہمارے رویوں کا یہ حال ہے کہ ہم خالصتاً جمہوری اور آئین پرست ہیں لیکن منصب اقتدار پر براجمان ہوتے ہی سب کچھ فراموش کر کے ’’ عقل کل‘‘ بن جاتے ہیں لیکن جونہی ’’ اقتدار‘‘ سے اترتے ہیں، تمام تر ذمہ داری ’’ مقتدر‘‘ قوتوں پر لگا کر خود بری الذمہ ہونے کی بھرپور کوشش کرتے ہیں۔ عوام تنقید کرتی ہے لیکن پھر رو دھو کر خاموش ہو جاتے ہیں۔ سارا نظام چند من مرضی کے مالکان اور سہولت کاروں نے یرغمال بنا رکھا ہے اگر کوئی حکمران ہمت کر کے قومی اداروں کے استحکام اور انہیں آزادانہ انداز میں کام کرنے کی کوشش کر لیتا تو آج ہم دنیا کی نظروں سے نہ گرتے۔ اس میں پہلا کام انصاف ہے۔ تبدیلی سرکار نے یقین دہانی کے باوجود یہ رعایت قوم کو نہیں دی لیکن جب اپنی باری آئی تو سب ریلیف مل گیا بلکہ بار بار ملا اور ہر مرتبہ حکومتی ارکان حیران و پریشان رہے کہ یہ قیامت کی چال کون چل گیا؟ اس صورت حال نے مقابلے کی فضا قائم کی اور پھر کچھ چالیں حکومت نے چلیں اور کچھ عدلیہ نے، معاملات کشیدگی کی حد تک پہنچے تو ایسا محسوس ہوا کہ جیسے ’’ سیز فائر‘‘ ہو گیا۔ امپائر نے بھی غیر جانبداری کا چرچا کیا جو سابق وزیراعظم کو اچھا نہیں لگا، انہوں نے زوردار لہجے میں فرمان جاری کیا کہ ’’نیوٹرل‘‘ صرف جانور ہوتا ہے۔ لہٰذا ان کا حسب سابق ساتھ نہ دیا جائے ورنہ اعلان جنگ۔
دنیا اس بات کی قائل ہو چکی ہے کہ جنگ کبھی بھی مسائل کا حل نہیں، پھر بھی ’’ یوکرائن‘‘ اور ’’ روس‘‘ آمنے سامنے ہیں۔ بالکل اسی انداز میں ہماری حکومت اور اپوزیشن مشاورت اور مذاکرات کی بات کرتے ہوئے بھی ایک دوسرے کی دشمن بنی رہی، مقبول ترین سیاسی رہنما نے غلطی کا احساس دلایا تو حکومتی حکمت عملی نے واپسی کے دروازے بند کر کے ’’ نو لفٹ‘‘ کا بورڈ آویزاں کر دیا، کیونکہ انہوں نے اس دوران پس پردہ طاقتوں کے تعاون سے ’’ فرینڈلی اپوزیشن‘‘ لیڈر راجہ ریاض تلاش کر لیا تھا۔ راجہ صاحب ایک سے زیادہ مرتبہ صوبائی وزارتوں کے مزے لوٹ چکے تھے ان کا تعلق خوش مزاجوں کے شہر ’’ فیصل آباد‘‘ سے تھا۔ اس لیے حکومت تو اپنا الو سیدھا کرتی رہی، تحریک انصاف اور ان کے حمایتی انہیں کوئی اہمیت نہیں دیتے تھے لیکن’’ اللہ جب چاہے عزت دے اور جب چاہے ذلت‘‘ حکومتی رخصتی کا مرحلہ آیا تو راجہ ریاض نے بھی بطور اپوزیشن لیڈر ’’ چونکا‘‘ دیا جب انہوں نے دو روز وزیراعظم کو ملاقات کا وقت ہی نہیں دیا، تمام میڈیا اور سیاست دان اس سادہ اور پینڈو راجہ ریاض کی باتوں کو فیصل آبادی مذاق سمجھتے رہے لیکن انہوں نے دعویٰ کیا کہ نگران وزیراعظم کا نام وہی دیں گے؟ پوری سیاسی فضا میں قہقہے بلند ہوئے کہ اب یہ وقت بھی آ گیا؟۔
کہنے والے کہتے ہیں کسی کو کم تر نہیں سمجھنا چاہیے۔ لیکن آدم زادے کب یہ بات مانتے ہیں جس کو کوئی منصب یا عہدہ مل جائے وہ آپے سے باہر ہو جاتا ہے۔ حفیظ شیخ، اسحاق ڈار، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، عشرت العباد، محسن بیگ، رضا باقر، جلیل عباس جیلانی، تصدقی جیلانی، نجیب اللہ ملک، احسن اشرف اور شہباز شریف تک تقریباً دو درجن شخصیات سے زیادہ لوگوں کو میڈیا نے خصوصیات گنوائیں اور موجودہ بحرانی کیفیت میں نجات دہندہ قرار پائے بلکہ آخری لمحات میں معاشی خوشحالی اور استحکام کے پروگرام پر سپہ سالار پر سختی سے عمل درآمد کی خواہش، سابق سپہ سالار جنرل ( ر) راحیل شریف کا نام نامی بھی مارکیٹ میں آ گیا اس کی وجوہات ان کی سعودیہ سے واپسی اور گورنمنٹ کالج یونیورسٹی کی تقریب میں قومی تناظر میں خطاب تھا۔ میں بھی یہی سمجھا تھا کہ ہمارے سیاسی حکمرانوں پر’’ اپنے پرائے ‘‘ کوئی بھی اعتبار کرنے کو تیار نہیں، دنیا بھر کے ممالک اور آزمودہ دوست بھی سرمایہ کاری اور امدادی کارروائی سے پہلے’’ فوج‘‘ کی گارنٹی مانگتے ہیں۔ اس لیے ’’ راحیل شریف‘‘ قابل ہضم نام بن سکتا ہے۔ لیکن دونوں بڑی سیاسی پارٹیوں نے تیسری پارٹی کی غیر موجودگی میں یہ اتفاق اصولی طور پر کر لیا تھا کہ ’’ نگران وزیراعظم‘‘ سیاسی ہی ہو گا پھر یہ بھی اتفاق ہو گیا کہ یہ نامزدگی کسی چھوٹے صوبے سے کی جائے۔ 2018ء میں ناصر الملک کے۔ پی۔ کے سے بن چکے تھے لہٰذا بلوچستان کو نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا وہاں کنگز پارٹی، بلوچستان عوامی پارٹی کی نہ صرف حکومت بلکہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن دونوں اس سے قربت حاصل کرنے کی خواہش بھی تھی اور کوشش بھی، اور بلوچستان عوامی پارٹی کے اہم رہنمائوں نے اشاروں کنایوں میں دونوں بڑوں کو سمجھا دیا کہ انہیں راجہ ریاض نہ سمجھا جائے، آئندہ الیکشن اور اس کے بعد حکومتی اصول کے لیے نظرانداز نہ کریں ، یاد رکھیں کہ سیاسی خاندان کے رشتے میں ہم ’’ باپ‘‘ ہی ہیں، اس اشارے کی زبان جونہی سمجھ آئی تو ذوالفقار مگسی، اور ڈگری تو ڈگری ہے کی مثال کے خالق سابق وزیراعلیٰ اسلم رئیسانی کے ساتھ ساتھ صادق سنجرانی اور جام کمال کے نام بھی فہرست میں شامل ہوئے۔ یہی نہیں چند روز صادق سنجرانی موضوع بحث بنے رہے اور راجہ ریاض نے بھی ان کا نام ظاہر کر دیا لیکن اصلی نام صیغہ راز میں ہی رہا۔ ہمارا باصلاحیت میڈیا اور تجربہ کار صحافی جو زمین کے نیچے اور سات آسمانون کی خبروں کے دعویدار ہوتے ہیں انہیں بھی انوار الحق کاکڑ کی مخبری نہیں ہو سکی، ایسے میں سوال یہی ہے کہ قیامت کی چال کون چل گیا؟ تو خبر یہ ہے کہ ’’ باپ‘‘ جس نے نواز شریف اور مسلم لیگ ن کی حکومتوں کو گرانے میں سہولت کاری کی تھی اس سے مسلم لیگ ن نے براستہ مریم نواز شریف دوستی کر لی ہے اور یہ قیامت کی چال بھی مریم نواز کی مشاورت سے چلی گئی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button