ColumnImtiaz Aasi

آفیشل سیکرٹ اور آرمی ترمیمی بل کی تشریحات

امتیاز عاصی
یوں لگتا ہے ریاست پاکستان کا نظام مفلوج ہو کر رہ گیا ہے۔ ایک مسئلہ ختم ہونے میں نہیں آتا دوسرا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اب آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر صدر کے دستخطوں کا مسئلہ کھڑا ہو گیا ہے۔ عجیب تماشا ہے اگر صدر نے بل بلوں پر مقررہ وقت میں دستخط نہیں کئے تھے تو بلوں کی واپسی ہونی چاہیے تھی۔ دفتری طریقہ کار کے مطابق اگر کسی فائل پر اعتراض ہو تو اسے تحریری شکل میں لایا جاتا ہے نہ کہ ایسی فائلوں کو یوں ہی واپس کر دیا جا تا ہے۔ اگر بل واپس نہیں ہوئے تھے تو صدر مملکت کو یہ معاملہ پبلک کرنے کی بجائے اس کی انکوائری کرانی چاہیے تھی تاکہ ذمہ داروں کا تعین کیا جاتا۔ جب گزٹ آف پاکستان میں دونوں بلوں کو نوٹی فائی کر دیا گیا تو صدر صاحب کو یاد آیا انہوں نے تو بلوں پر دستخط نہیں کئے تھے۔ جس ملک کے صدارتی سیکرٹریٹ میں نظم و ضبط کا یہ عالم ہو اس ملک کے دیگر امور کیسے چل رہے ہوں گے۔ اس صور ت حال میں پارلیمنٹ اور چاروں اسمبلیوں کی عدم موجودگی میں صدر مملکت کا مواخذہ ممکن نہیں لہذا صدر مملکت کو اپنے منصب سے ازخود مستعفی ہو جانا چاہیے تھا۔ صدر مملکت کے ٹوئٹر پیغام کے بعد انہوں نے آفیشل سیکرٹ ایکٹ اور آرمی ترمیمی بل پر دستخط نہیں کئے تھے اور دونوں بل Assent کے بغیر واپس کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس ضمن میں آئین کے آرٹیکل 75 کی مختلف تشریحات کی جا رہی ہیں۔ آئین کے اس آرٹیکل کے دو حصے ہیں۔ پہلے حصے میں صدر کے پاس دس روز کا وقت ہوتا ہے جس میں یا تو وہ بل کی Assent دے گا یا پھر اسے بغیر توثیق کئے واپس کرتے ہوئے اس میں وضاحتیں طلب کی جاتیں۔ پہلے یہ مدت تیس روز تھی لیکن اٹھارویں ترمیم کے بعد یہ مدت دس روز کر دی گئی ہے۔ آرٹیکل کے دوسرے حصے میں کہا گیا ہے صدر بغیر دستخطوں کے بلوں کے مسودے کو واپس بھیجے گا تو اسے پارلیمنٹ کے جوائنٹ سیشن میں رکھا جائے گا جس کی منظوری کے بعد بل صدر مملکت کو دوبارہ بھیجے جائیں گے۔ اگر صدر مقررہ مدت میں پھر بھی Assent نہیں دے گا تو بل صدر کی توثیق تصور ہوں گے اور انہیں پھر قانون کا درجہ حاصل ہو جائے گا۔ ایک ایسے موقع پر دونوں بلوں کی صدر سے توثیق نہ ہونے کا ایشو کھڑا ہو گیا ہے جب پارلیمنٹ کا وجود نہیں ہے لہذا نہ تو اس کی منظوری ہو سکتی ہے اور نہ اسے قانون کا درجہ حاصل ہو سکتا تھا حکومت نے گزٹ آف پاکستان میں دونوں بلوں کا نوٹیفکیشن کر دیا ہے۔ اب نگران وفاقی وزیر قانون نے یہ تسلیم کیا ہے صدر نے بلوں پر دستخط نہیں کئے ہیں لہذا کیا ان بلوں کو قانون کا درجہ حاصل ہو گیا ہے بل تو پارلیمنٹ کی منظوری کے لئے پیش نہیں کئے گئے ہیں تو انہیں قانون کا درجہ کیسے حاصل ہو گیا ہے؟ قانونی ماہرین کے مطابق جب بل پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے منظوری لینے کے لئے پیش نہیں کئے گئے تھے تو انہیں قانون کا درجہ حاصل نہیں ہو سکتا۔ چلیں صدر مملکت نے بلوں کی توثیق نہیں کی لیکن پارلیمنٹ کے joint sessionسے اس کی منظوری نہیں لی گئی ہے تو قانون کا درجہ کیسے حاصل ہو گیا ؟۔ جہاں تک دونوں بلوں کی اہمیت کا تعلق ہے وہ اپنی جگہ بڑی اہمیت کے حامل ہیں۔ آرمی ترمیمی بل کے تحت کوئی فوجی افسر پانچ سال تک سیاست میں حصہ نہیں لے سکے گا جب کہ آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت سویلین کے ٹرائل کا معاملہ ہے۔ صدر مملکت نے اپنے پرنسپل سیکرٹری کو سرنڈر کر دیا ہے۔ سیکرٹری کو سرنڈر کرنے سے بات ختم نہیں ہوتی یہ معاملہ معمولی نوعیت کا نہیں جسے درگزر کیا جا سکے بلکہ اس مقصد کے لئے اعلی ٰ سطح کی کمیٹی قائم کی جانی چاہیے جواس معاملے کی انکوائری چند روز میں کرکے ذمہ داروں کا تعین کرے ۔ سیاسی رہنمائوں نے بھی اس معاملے کی تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے لہذا نگران وزیراعظم کو وقت ضائع کئے بغیر انکوائری کمیٹی قائم کرنی چاہیے۔ دوسری طرف پی ٹی آئی نے اس معاملے کو سپریم کورٹ میں لے جانے کا عندیہ دیا ہے۔ بادی النظر میں اس کیس میں 75(a) کا پراسیس تو ہوا لیکن 75(b) کا پراسیس نامکمل رہا اس لئے ان دونوں بلوں کی منظور ی کے سلسلے میں Deeming Claus Effective نہیں ہوتی ۔اب دیکھتے ہیں اونٹ کسی کروٹ ہے بیٹھتا ہے۔ سیاست دانوں کے خلاف کرپشن کے مقدمات برسوں التواء میں پڑے رہتے ہیں ان کے خلاف ٹرائل کے لئے خصوصی عدالتوں کا قیام عمل میں نہیں لایا جاتا۔ سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت میں شروع ہے۔ تاسف ہے ملک لوٹنے والوں کے مقدمات زیر التواء رکھنے والوں کو کسی نے کبھی نہیں پوچھا۔ پی ٹی آئی کا چیئرمین تو جیل میں ہے بس باقی رہ جانے والوں کو خصوصی عدالتوں سے سزائوں کے بعد تحریک انصاف کا قلع قمع مقصود ہے جس میں حکومت کافی حد تک کامیاب رہی ہے۔ بغیر انکوائری کرائے صدر کا گریڈ بائیس کے سول سرونٹ کو سرنڈر کرنے کا جواز نہیں بنتا نہ اس طرح اس کھیل کے ذمہ داروں بچ سکتے ہیں۔ ہونا تو چاہیے تھا جب بلوں کو ایوان صدر بھیجا گیا تھا تو صدر اعتراض کی صورت میں کورننگ لیٹر لگا کر واپس بھیجنے کو یقینی بناتے تو آج یہ اودھم نہ مچا ہوتا لیکن کورننگ لیٹر کے بغیر قانونی مسودے کو واپس بھیجنا سمجھ سے بالاتر ہے۔ ہمارے خیال میں صدر عارف علوی نے تمام فریقوں کو خوش کرنے کی کوشش کی ہے لیکن کھیل خراب ہو گیا ہے۔ اس وقت آفیشل سیکرٹ ایکٹ سے سب زیادہ متاثر پی ٹی آئی ہے اسی لئے سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ سوال ہے اگر حساس تنصیبات کو نقصان پہنچانے والوں کا خصوصی عدالتوں میں مقدمہ چلانے کا قانون موجود ہے تو اس میں کسی ابہام کی ضرورت نہیں ۔ کسی سیاسی جماعت کے رہنما اور ورکر کو ملک کی حساس تنصیبات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی خواہ ان کا کسی بھی جماعت سے تعلق ہو کسی رو رعایت کے مستحق نہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button