Columnمحمد مبشر انوار

ایل او سی اور انتخابات

محمد مبشر انوار( ریاض)
پیر کی شب معمول کے پروگرامز روک کر ایک بریکنگ نیوز نشر کی گئی جس کے مطابق لائن آف کنٹرول نکیال سیکٹر پر بھارتی فوج کی بلا اشتعال فائرنگ سے ایک شہری شہید ہو گیا۔ لائن آف کنٹرول کی یہ خلاف ورزی اس وقت ہوئی ہے جب دونوں ملکوں کے درمیان لائن آف کنٹرول پر سیز فائر ہے، جس کی حقیقت اب زبان زدعام ہو چکی ہے کہ چند اینکر حضرات اس کی رپورٹنگ کر چکے ہیں۔ ان کی رپورٹنگ اتنی واضح ہے اور ذمہ داران کی شناخت نے تو زندہ درگور کر رکھا ہے لیکن خوف کے سائے ایسے ہیں کہ مجھ جیسے ناتواں ان کا نام بھی ضبط تحریر میں نہیں لا سکتے کہ اس وقت ملک میں آئین و قانون کہیں نظر نہیں آتا۔ حکمرانوں اور طاقتوروں کا اشارہ ابرو سمجھیں، زبان سے نکلے چند الفاظ ہی آئین و قانون کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں، ہر ذی شعور کو اس کا بخوبی علم ہے کہ اس کے پس پردہ محرکات کیا ہیں اور کیوں ایک مخصوص سیاسی جماعت اور اس کے اکابرین کو تختہ مشق بنایا جارہا ہے۔ جس انداز سے ریاست چلائی جار ہی ہے، اسے کسی بھی صورت ایک جمہوری ریاست سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہی اسے ذہنی بلوغت کہا جا سکتا ہے کہ ریاستی امور میں ذاتی انا و ضد کسی بھی صورت فائدہ مند ثابت نہیں ہو سکتی اور نہ ہی کبھی تاریخ نے ایسی کسی انا و ضد کو ریاستی مفادات کے لئے مفید تصور کیا جاتاہے۔ نجانے کیوں ایک ایٹمی طاقت ہوتے ہوئے بھی پاکستان بھارتی جارحیت کا جواب دینے سے کتراتا ہے حالانکہ چار برس قبل ریاست پاکستان نے، ایسی ہی ایک احمقانہ کارروائی اپنے تئیں سرجیکل سٹرائیک، کا ایسا منہ توڑ جواب دیا تھا کہ ساری دنیا کو پاکستان کی طاقت و حمیت کا ادراک ہو گیا تھا۔ نہ صرف یہ کہ اس احمقانہ سرجیکل سٹرائیک کو ناکام بنایا گیا تھا بلکہ مشہور زمانہ ابھینندن بھارتی پائلٹ کو گرفتار بھی کر لیا گیا تھا، یہ الگ بات کہ بعد ازاں پاکستان کو ابھینندن کو رہا کرنا پڑا تھا۔ اس رہائی کے عوض بہرطور پاکستان نے اپنے امن پسند ہونے کا ثبوت دیا تھا یا یوں سمجھ لیں کہ منصوبے کے مطابق ایک جنگ مسلط ہونے سے محفوظ رکھا تھا۔ اس کے دیگر کئی عوامل اپنی جگہ مسلمہ ہیں کہ جن کا ’’ ذکر خیر‘‘ چند اینکر حضرات واضح کر چکے ہیں کہ اس کے پس پردہ وہ کون سے محرکات تھے کہ جن کے باعث پاکستان کو ایک جنگی قیدی کو فوری رہا کرنا پڑا تھا اور بعد ازاں لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کرنے کی وجوہات کیا تھی؟ آج کوئی بھی باشعور اس سیز فائر کو دی گئی وجہ کے مطابق تسلیم کرنے سے عاری ہے کہ اس سیز فائر کے بعد ہی بھارت نے مقبوضہ کشمیر کی متنازعہ حیثیت کو ختم کرتے ہوئے، اسے یونین ٹیرٹری میں ضم کر دیا تھا۔ جس کے بعد چین نے بھارت کو لداخ سیکٹر میں ناکوں چنے جپوا رکھے ہیں اور بھارت کے زیر تسلط ہزاروں مربع میل کا رقبہ اس سے چھین لیا ہے، جس پر اب تک کوئی انیس/بیس مذاکراتی رائونڈز ہو چکے ہیں لیکن چین بجائے پیچھے ہٹنے کے اپنی پیش قدمی مسلسل جاری رکھے ہوئے ہے۔ چین کی یہ حیثیت یونہی نہیں بلکہ اس کے پیچھے چین کی مضبوط ریاست، واضح لائحہ اور حکمت عملی ہے کہ چین گزشتہ کئی دہائیوں سے بھارت کے زیر تسلط کشمیر کے بیشتر رقبہ کو چین کا حصہ سمجھتے ہوئے اس پر کنٹرول حاصل کرتا جا رہا ہے۔
دوسری طرف پاکستان اس سیز فائر کے باعث، بھارتی اقدام کے بعد بھی، اس پوزیشن میں نہیں کہ اپنی شہ رگ پر کوئی پیش قدمی کر سکے کہ سیز فائر کرنے کے بعد، اس معاہدے کی پاسداری پاکستان یکطرفہ طور پر ہی کر رہا ہے یا اس کی دوسری وجہ وہ ہے جس کا اظہار بیشتر اینکر حضرات سابق آرمی چیف کے حوالے سے کر رہے ہیں؟ یوں مقبوضہ کشمیر میں ایک طرف تو بھارتی تعینات فوج کی اکثریت لائن آف کنٹرول سے لائن آف ایکشن پر چین کے سامنے بھیگی بلی بنی مسلسل مار کھا رہی ہے لیکن پاکستان اس سیز فائر معاہدے کے باعث کسی قسم کا فائدہ کشمیری عوام کے لئے حاصل کرنے میں کوئی پیشرفت نہیں کر رہا۔ تصویر کا یہ ایک رخ ہے تو دوسری طرف بھارت اس سیز فائر معاہدے کے باوجود انتہائی اعتماد کے ساتھ، لائن آف کنٹرول پر بلا خوف و خطر اور معاہدے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، بلااشتعال فائرنگ کا مرتکب کیوں ہو رہاہے؟ صد افسوس !کہ اس معاہدے کی خلاف ورزی کرنے میں بھارت کی سوچی سمجھی سکیم کے مطابق ہے کہ اگلے سال اپریل میں بھارت میں نئے عام انتخابات کی آمد ہے اور پاکستان کے برعکس، بھارت میں انتخابی عمل انتہائی مستحکم ہو چکا ہے اور اس میں ایک تسلسل قائم ہے۔ بھارت میں جمہوریت کا پہیہ بعد از آزادی مسلسل رواں دواں ہے اور اس میں کو تعطل نظر نہیں آیا بلکہ وہاں مخصوص حالات میں، اسمبلیوں کی مدت سے قبل بھی انتخابات ہوتے رہے ہیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ گزشتہ چند انتخابات میں، بھارت کا سیکولر چہرہ بری طرح بگڑ چکا ہے، اس کی شناخت انتہا پسند حکومت کی وجہ سے مسخ ہو چکی ہے اور عالمی برادری میں اس کی سیکولر شناخت قائم نہیں رہی۔
گو کہ یہ بھارت کا داخلی معاملہ ہے لیکن پاکستان پڑوسی ہونے کے ناطے اس سے لاتعلق نہیں رہ سکتا کہ بھارتی انتخابات میں پاکستان مخالف بیانیے کو شدید پذیرائی ملتی ہے، بالخصوص موجودہ بھارتی انتہا پسند حکومت کے ہوتے ہوئے، پاکستان اس سے لاتعلق تو نہیں رہ سکتا مگر کچھ کرنے سے بھی قاصر ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ بھارت میں اس انتہا پسند حکومت کے بعد ایک طرف پاکستان کے ساتھ تعلقات میں سرد مہری تو ایک طرف، بھارت اسے درخوور اعتنا ہی نہیں سمجھتا کہ وہ اپنے تئیں پاکستان کو اندرونی طور پر اتنا کمزور کر چکا ہے کہ اب انہیں اس کی چنداں کوئی فکر نہیں اور اب بھارت کی انتہا پسند حکومت بھارت کے اندر بسنے والی اقلیتوں کے ساتھ جو سلوک روا رکھے ہوئے ہے،وہ بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں ۔ کل تک بھارتی انتہا پسند سیاسی جماعتیں صرف اور صرف مسل و سکھ اقلیت کے خلاف برسر پیکار تھی تو آج ہر اقلیت ان انتہا پسندوں کے نشانے پر ہے،جس کاواضح ثبوت منی پور و میزو رام کے تلخ واقعات ہیں۔بھارتی موجودہ لائحہ عمل مصلحت کے بغیر نہیں کہ ان کی نظریں آنے والے انتخابات پر ہیں اور حسب سابق وہ ایک مرتبہ پھر مذہبی جنونی کارڈ کو بروئے کار لانا چاہ رہے ہیں تا کہ بھارتی شہریوں کے مذہبی جذبات کو ایک بار انگیخت کر کے، اقتدار میں واپسی کا راستہ ممکن بنایا جا سکے۔ یہ تمام حقائق ایک بھارتی شہری/سیاسی شخصیت کے ویڈیو کلپ میں وائرل ہو رہے ہیں کہ بی جے پی حکومت آئندہ انتخابات میں اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لئے، ووٹرز کو متحرک کرنا چاہتی ہے لہذا ایک طرف وہ پاکستان سے جنگی جھڑپوں کا کھیل شروع کر چکی ہے تو دوسری طرف یہ بھی ممکن ہے کہ منی پور اور میزو رام میں وقتی طور پر مذاکرات کے ذریعے معاملات کو قابو کر لیا جائے جبکہ انتخاب میں کامیاب ہونے کے بعد، معاملات کو اسی نقطہ سے شروع کیا جائے۔ بھارت کی موجودہ حکومت کی خواہشات دنیا بھر میں کسی سے ڈھکی چھپے نہیں کہ وہ بھارت کو صرف اور صرف ہندوئوں کا ملک سمجھتے ہیں اور اس میں بسنے والے ہر شہری کو اسی صورت رہنے کی اجازت دیں گے اگر وہ ہندو بن کر رہتے ہیں وگرنہ ا ن کے لئے زندگی دن بدن اجیرن ہوتی جائے گی۔ لہذا بھارت کی لائن آف کنٹرول پر بلا اشتعال فائرنگ اورسیز فائر معاہدے کی خلاف ورزی کو اسی تناظر میں دیکھا اور سمجھا جانا چاہئے کہ چند ناعاقبت اندیش پاکستانی طاقتور بھارت کو یہ موقع فراہم کر چکے ہیں اور نجی محفلوں میں نہ صرف اپنی کمزوری کا شرمناک اظہار کر چکے ہیں بلکہ ملک و قوم کو اس کے لئے تیار کرنے کی اپنی سی مذموم کوشش بھی کر چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button