ColumnJabaar Ch

سائفر ۔۔۔ سیزن ٹو

جبار چودھری
ریاست کے حالات مسلسل گھمبیر۔ پریشان کن کہ معاملات کی کوئی سمت ہے نہ ترجیحات کا تعین۔ ترجیحات اگر ہیں بھی تو وہ پاکستان کا راستہ صاف کرنا نہیں بلکہ شخصیات کو راستے سے صاف کرنا ہے اور یہ روایت کوئی آج سے نہیں ہے۔ طاقت کی لڑائی میں نہ اصول ہوتے ہیں نہ نظریات کی کوئی گنجائش۔ اس لڑائی میں صرف طاقت ہی سب کچھ ہوتی ہے۔ جو زیادہ طاقتور ہوا وہ جیت گیا۔ اب صدر مملکت عارف علوی نے آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے قانون بننے پر ٹویٹ کیا ہے اس پر اب صرف سر ہی پیٹا جاسکتا ہے۔ صدر اگر کہتے ہیں کہ انہیں کسی بل پر اختلاف ہے تو اس میں نہ کوئی نئی بات ہے اور نہ ہی حیران کن ایشو ہے۔ صدر عارف علوی کی اپنی پارٹی کی جب حکومت تھی تو انہوں نے کبھی کسی بل پر اعتراض نہیں کیا بلکہ ان ساڑھے تین سالوں میں پارلیمنٹ کے منظور کردہ بل کم اور آرڈیننس انہوں نے زیادہ جاری کئے۔ انہیں کبھی کسی قانون پر اعتراض نہیں ہوا نہ کبھی ان کی آواز کسی نے اس دور میں سنی۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ صدر عارف علوی کو سب قانون ہی بہت اچھے لگتے تھے بلکہ انہوں نے پیکا جیسے سنگین قانون پر بھی دستخط کرنے سے انکار نہیں کیا تھا۔ وجہ صرف یہ تھی کہ وہ ایوان صدر میں تو چلے گئے لیکن اپنی پارٹی کو کبھی دل سے نہیں نکال سکے کیونکہ اگر وہ اس دور میں ایسا کرتے تو اگلے ہی دن بعد ایوان صدر سے نکال دئیے جاتے ۔
ہمارے ہاں بڑے سے بڑا عہدیدار بھی پہلے اپنی ذات کا غلام ہوتا ہے پھر اپنی پارٹی کا۔ حلف میں لکھی ہوئی باقی باتیں بے معنی ہوجاتی ہیں۔ عدم اعتماد کے بعد عمران خان صاحب وزیراعظم ہاؤس سے رخصت ہوئے تو صدر صاحب پی ڈی ایم حکومت کی اپوزیشن میں آگئے اور انہوں نے آئین میں دئیے گئے اختیارات کو کھلم کھلا استعمال کیا۔ مجھے یاد ہے کہ شہباز شریف نے حلف اٹھانے کے اگلے ہی دن پنجاب کے گورنر عمر چیمہ کو ہٹانے کی سمری ایوان صدر بھیجی۔ انہوں نے اس پر دستخط کرنے سے انکار کرتے ہوئے آئین میں دئیے ہوئے وقت تک وہ سمری اپنے پاس دبا کر رکھی۔ آخری دن انہوں نے وہ سمری پر اعتراض کے دو صفحات لکھ کر واپس بھیج دی۔ حکومت نے اعتراضات دور کرنے کے بعد دوبارہ سمری بھیجی لیکن صدر صاحب نے پھر بھی دستخط نہیں کئے اور اس طرح قانون کے مطابق پچیس دن بعد گورنر پنجاب عمر چیمہ کو عہدے سے الگ کیا گیا۔ اس کے بعد انہوں نے نیب ترامیم کے بل کے ساتھ بھی یہی کیا۔ صدر چاہتے تو آرمی ایکٹ اور سیکرٹ ایکٹ کے ساتھ بھی یہی کر سکتے تھے۔ وہ مقررہ مدت دس کے اندر اعتراض لگاکر باقاعدہ اعلان کرکے ان دونوں قوانین کو واپس بھیج سکتے تھے لیکن انہوں نے ایسا کرنے کی بجائے ان قوانین کو اپنے پاس رکھا اور قانون بننے کے بھی دو دن بعد ٹویٹ کرکے بتایا کہ انہوں نے اس پر دستخط نہیں کئے لیکن واپس بھیجنے کا کہا جو ان کے اسٹاف نے نہیں بھیجے۔
اگر صدر صاحب سب کچھ سچ بھی بیان کر رہے ہیں پھر بھی قانون تو بن گیا ہے۔ اگر وہ واقعی ان قوانین کو روکنا چاہتے تو جیسے دو دن پہلے انہوں نے تیرہ بل واپس کئے اسی دن وہ یہ دونوں بل بھی واپس بھیج سکتے تھے۔ اگر وہ ایسا کرتے تو یہ ایشو ہی نہ بنتا کیونکہ واپس بھیجنا ان کا اختیار ہے اور اس اختیار پر کسی نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ پی ڈی ایم کی حکومت نے جتنے بھی اہم قانون جو پی ٹی آئی کو پسند نہیں تھے وہ اسی طرح بنائے کہ صدر نے واپس بھجوائے تو مشترکہ اجلاس بلاکر ان کی منظوری لی گئی ۔
اصل مسئلہ قوانین پر صدر کا دستخط نہ کرنا یا یہ قانون بن جانا نہیں ہے بلکہ اصل مسئلہ سائفر کیس کی سنگینی سے پی ٹی آئی اور عمران خان کو بچانا ہے۔ اس وقت عمران خان صاحب کے لیے سب سے خطرناک کیس یہی سائفر کا کیس ہے ۔ باقی کیس کرپشن کے ہیں ان کو سیاسی انتقام کہا جاسکتا ہے اور پاکستان میں کرپشن کے کیسز کا جو حال ہوتا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ابھی توشہ خانہ کیس میں ان کو صرف تین سال کی سزا ہوئی ہے اس کیس کی سماعت آج اسلام آباد ہائی کورٹ میں ہورہی ہے اور غالب امکان یہی ہے کہ ان کی سزا معطل ہوجائے گی اور اس کیس کی حد تک ان کو ضمانت بھی مل جائے گی لیکن وہ جیل سے باہر نہیں نکل پائیں گے کیونکہ سائفر کے معاملے پر ان کے خلاف ایف آئی آر کٹ چکی ہے۔ ان کا بیان بھی ریکارڈ ہو چکا اور گرفتاری بھی ڈال دی گئی ہے۔ اسی کیس میں شاہ محمود قریشی کو گرفتار کیا جا چکا ہے اور اسد عمر کو بھی اتوار کو حراست میں لیا گیا۔ سائفر کے کیس میں عمران خان اور شاہ محمود قریشی نامزد ملزم ہیں جبکہ اسد عمر براہ راست نامزد نہیں لیکن ایف آئی آر میں عمران خان کے ساتھیوں والے الفاظ میں شامل کیا جائے گا۔
سائفر میں کیا لکھا تھا یا اس پر ایک ریاست کا ردعمل کیا ہونا چاہئے تھا اس پر بحث ہوسکتی ہے ۔کیا ریاست نے وہ ردعمل دیا اس پر بھی بات ہوسکتی ہے آرا مختلف ہوسکتی ہیں لیکن سائفر جیسی خفیہ دستاویز کو اپنی سیاست کے لیے کھیل بنانا کسی طرح بھی قابل قبول نہیں۔ جب عمران خان اس سائفر پرکھیلنے کی پلاننگ کر رہے تھی وہ وقت تھا جب ان کے ساتھی ان کو سمجھاتے اور بتاتے کہ سائفر کو اس طرح عوام میں لیجانے سے سیاست تو بہتر ہوسکتی ہے عوام کی نظروں میں مقبولیت بھی مل سکتی ہے لیکن بطور ایک سابق وزیراعظم کے حلف کے اس خفیہ دستاویز کو اپنے ساتھ لے جانا اور پھر اس کے گم کرنے کا اعتراف بہت مہنگا سودا ہوگا۔ جس جلسے میں عمران خان نے سائفر لہرایا اور اس کا مرکزی خیال بتایا اسی جلسے میں شاہ محمود قریشی نے بڑے فخر سے بتایا کہ انہوں نے عمران خان کو کیا مشورہ دیا ہے۔
ہمارے ملک میں بہت سے مسائل ہیں ۔ عمران خان بطور وزیراعظم اقتدار سے نکالے اور بعد ازاں سزا پانے والے نہ پہلے وزیراعظم ہیں اور نہ ہی شاید آخری ہوں لیکن ان سے پہلے کسی نے اس طرح خفیہ دستاویزات کے ساتھ کھلواڑ نہیں کیا۔ نوازشریف کو جس دن اقتدار سے نکالا گیا اس دن انہوں نے پنجاب ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس رکھی تھی۔ اس دن پریس کانفرنس سے پہلے کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ وہ پھٹ پڑیں گے وہ بہت کچھ سامنے لے آئیں گے لیکن پریس کانفرنس میں انہوں نے صرف اتنا کہا کہ ان کے پاس بہت سے رازہیں لیکن وہ ان کو ایسے افشا نہیں کریں گے ان کے ساتھ جو ہوگیا وہ اس کا معاملہ اللہ پر چھوڑتے ہیں لیکن خان صاحب نے معاملہ اللہ پر چھوڑنے کی بجائے خود سب سے حساب لینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے سائفر سے کھیلا اور خوب کھیلا۔ پاکستان کے تعلقات امریکا سے تباہ کر دئیے۔ اپنے گھر بلوا کر اپنے پسندیدہ صحافیوں کو سائفر کے مندرجات دکھائے۔ جب وہ یہ سب کر رہے تھے تو ان کو احساس ہی نہیں تھا کہ وہ کس قدر خطرناک کھیل کھیل رہے ہیں۔ کچھ عرصے بعد جب ان کو احساس ہونا شروع ہوا تو انہوں نے امریکا سے متعلق باتوں سے یوٹرن لے لیا۔ سارا قصور جنرل ( ر) باجوہ کے سر رکھ دیا لیکن اس وقت بہت دیر ہوچکی تھی۔
خان صاحب جب سائفر کو جلسوں میں لہرا رہے تھے وہ اس کھیل کا پہلا سیزن تھا اور جو اب شروع ہورہا ہے وہ سائفر کے کھیل کا دوسرا سیزن ہے۔ پہلے سیزن میں اس کھیل کا کنٹرول خان صاحب کے پاس تھا لیکن اس دوسرے سیزن میں اس کھیل کا مکمل کنٹرول ریاست کے پاس ہے۔ سائفر کے مقدمے میں ایف آئی اے مدعی ہے اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت اس کیس کی سزا عمر قید سے لیکر موت تک بھی ہوسکتی ہے۔ صدر عارف علوی کے ٹویٹ سے نہ یہ تماشا ختم ہوگا اور نہ ہی اس سیزن ٹوکا جلدی اختتام ہوگا۔ سائفر کیس میں شاید اتنی شدت نہ آتی اگر سائفر لیک نہ ہوتا۔ اب لیک کس نے کیا ہے اس کا جوا ب تو وہ اخبار دے سکتا ہے جس نے پورا ٹرانسکرپٹ شائع کیا ہے لیکن لیک کہیں سے بھی ہو یہ اس لیے معنی نہیں رکھتا کہ خان صاحب سائفر ساتھ لے جانے اور اس کے گم ہونے کا خود اعتراف کر چکے ہیں اور لیک ہونے کا پہلا شک بھی ان پر ہی جائے گا۔ اللہ پاکستان کی مملکت پر اپنا رحم کرے اگر کوئی اس ریاست اور ملک کے ساتھ غلط کر رہا ہے تو اللہ کریم اس کو عقل دے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button