ColumnTajamul Hussain Hashmi

ڈاکٹر انور کے کیپسول

تجمل حسین ہاشمی
کوئی 1980ء کی بات ہو گی، جب دور دراز علاقوں میں کوئی سکول نہیں تھا۔ تار یا خط لکھوانے کے لیے کئی میل دور جانا پڑتا تھا۔ مجھے یاد ہے کہ ایک ماسٹر صاحب کے ساتھ ڈاکٹر بھی اکا دکا ہوتا تھا، ڈاکٹر سے یاد آیا ہمارے ساتھ والے گائوں جو کہ دو کلو میٹر کے فاصلہ پر تھا، وہاں ایک ڈاکٹر انور صاحب تھے، انتہائی بااخلاق، وہ چند دن لاہور رہتے تھے اور باقی دن گائوں میں کلینک کرتے تھے، کیا دور تھا لوگ پیٹ کی صفائی کی دوا لینے دور دراز سے آتے تھے۔ دوا کو لوگ جلاب کے کیپسول کہتے تھے۔ دوا کا نام کسی کو بھی پتہ نہیں تھا۔ میڈیکل سٹور تو بالکل نہیں تھے۔ دوا ڈاکٹر صاحب کے پاس سے ہی ملتی تھی۔ چال بازی تو اس وقت بھی ہوتی تھی لیکن ابھی کے دور سے بہت فرق تھا۔ جس طرح آج کل لوٹ مار جاری ہے پہلے دور میں ایسا نہیں تھا۔ میرے عزیز شہر میں حکمت کرتی تھے اور چھوٹے ڈاکٹر جس کو کمپوڈر کہا جاتا ہے، کا کورس بھی کیا ہوا تھا، حکیم صاحب نے اپنی پرسکرپشن میں کیپسول نمبر دس ضرور لکھنا ہوتا تھا، یہ کیپسول پورے شہر میں کہیں سے نہیں ملتا تھا، صرف پسرور میں حکیم صاحب کی دکان پر دستیاب تھا، وہ بتاتے تھے کہ کیپسول میں صرف گلوکوز بھرا ہوتا تھا جو کہ ہم روزانہ رات میں بھرتے تھے اور حکیم صاحب کا کام بہت بہتر چل رہا تھا۔ اسی طرح معدے کی صفائی کے لیے دور دراز علاقوں سے بڑے مریض آتے تھے۔ ڈاکٹر انور صاحب کے کیپسول بہت مشہور تھے، ڈاکٹر صاحب کے پاس ایک عدد سرنج تھی، مجھے یاد ہے کہ وہ بھی لوہے کی تھی، اس کی نیڈل بھی لوہے کی تھی، جو کہ اچھی خاصی موٹی تھی، جانور اور انسانوں کے ٹیکہ میں تھوڑا سا فرق تھا۔ آج اس جیسے ٹیکے کا سوچ کر جسم لرز جاتا ہے۔ لیکن 90ء کی دہائی میں لوگ آرام سے ٹیکہ لگواتے تھے، اس وقت معمولی سی بات پر ڈاکٹر صاحب ٹیکہ لگا دیتے تھے۔ ایک ہی سرنج ہوتی تھی اور وہ بھی لوہے کی تھی، جو سب مریضوں کے لئے استعمال ہوتی، کبھی کبھار ٹیکے کو گرم پانی سے جراثیم کش کیا جاتا۔ جراثیم کے حوالے سے زیادہ تر لوگ نا سمجھ تھے۔ کسی کو کوئی سمجھ نہیں تھی، بس دوا سے آرام مل جاتا تھا۔ میں نے کئی افراد کو زندگی کی بازی ہارتے ہوئے دیکھا، جن کو بروقت میڈیکل سپورٹ نہیں ملی۔ ڈاکٹر جس کے پاس وسائل نہ ہوں وہ کیسے انسانی جان کو محفوظ بنا سکے گا۔ جب تعلیم میسر نہ ہو تو کیسے ترقی ممکن ہو گی۔ دس گائوں میں ایک ماسٹر صاحب جو درختوں کی چھائوں میں زمین پر بیٹھ کر اپنی ڈیوٹی ایمان داری سے ادا کر کے محب وطنی کے جذبہ سے سرشار تھا۔ عزت تو تھی لیکن سرکاری وسائل نہیں تھے۔ اس دور میں بھی لوگوں اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے فکر مند تھے لیکن تعلیمی سہولیات کا فقدان کل بھی اور آج بھی ہے، تعلیم نظام آج بھی کمزور ہے اور کل بھی تھا۔ اس دور میں گائوں کے ووٹ کا حق دار وہ رہنما ہوتا جو بنیادی سہولتوں جیسے گلی، نالوں کو پکا کرنا، سکول کی تعمیر پر ووٹ پکے ہوتے تھے اور آج الیکشن میں جیت کو اسٹیبلشمنٹ کی امان سمجھا جاتا ہے۔ غیر ملکی کافر ہونے کے بعد بھی تفریق میں نہیں پڑتے، انسانیت کی بہتری کے لیے نئی نئی ایجادات کر رہے ہیں۔ پنجاب میں ’ نئی روشنی ‘ کے نام سے سکول کھولے گئے۔ مجھے اچھی طرح یاد نہیں کہ اس کو کون سی این جی او چلا رہی تھی، لیکن مجھے یاد ہے کہ وہ زیادہ عمر کے مرد اور خواتین کو تعلیم دیتے اور ساتھ مفت کتابیں بھی دیتے تھے، صبح سکول نہیں آ سکتے تھے وہ دوپہر کے بعد بھی سکول میں تعلیم حاصل کر سکتے تھے، تعلیمی سلیبس اور ان کے سکھانے کا طریقہ کار انتہائی پریکٹیکل اور قابل فہم تھا، محلے کی عورتوں، بچوں سب کا سکول میں داخلہ بالکل فری تھا، انتظامیہ کی خاص توجہ ٹیچرز کی ٹریننگ پر مذکور تھی، وہ دن بھی یاد ہے جب گائوں میں بجلی آئی، یقین کریں اس وقت لوگوں کے پاس بجلی کی وائرنگ کرانے کے پیسے نہیں تھے، لوگوں نے فصل کی کٹائی پر پیسے دینے کے وعدے پر گھروں میں وائرنگ کرائی تھی، آپ یقین کریں لکڑی کی پھٹیوں پر وائرنگ کی جاتی تھی۔ انتہائی خوب صورت ڈیزائننگ کی جاتی، ہنر مندی کو دیکھ کر انسان دنگ رہ جاتا تھا۔ لوہار کی مہارت بھی کسی سے کم نہیں تھی۔ اتنی مہارت کے ساتھ کام کیا جاتا تھا، جب بجلی چالو ہوئی تو پورا گائوں رات بھر جاگتا رہا ، لوگ گھروں کی چھتوں پر لگے جالے صاف کرتے رہے۔ محلے میں خوشیاں تھیں۔ 70ء کی دہائی سے پہلے کئے گئے اقدامات مضبوطی دے گئے۔ آج 40سال بعد لوگ اسی بجلی کی قیمتوں کے ہاتھوں خودکشی کر رہے ہیں۔ دیہات کیا شہروں میں ایسی صورتحال پیدا ہو چکی ہے۔ لوگوں کے روزگار بند ہو چکے ہیں، حکومتوں نے ان 40سالوں میں کوئی اقدامات نہیں کئے، جن اداروں کو امانت اور حق پر کھڑا رہنے کی تلقین
بانی پاکستان دیتے رہے، سیاسی جماعتوں سے دور اور آئین کے حلف کی پاسداری کی تلقین کرتے رہے، وہ ادارے اپنا کردار بھول کر سیاسی بن گے، عوامی حقوق دینے اور دلوانے میں ناکام ہیں، طاقتور کو آئین کے دائرے میں رکھنا، ان کو قانونی کٹہرے میں کھڑا کرنا اداروں کی ذمہ داری ہے لیکن اب وہ طاقتور کے محافظ ہیں۔ افراتفری میں کمی صرف عدل و انصاف سے ہو گی، قیام پاکستان کے ابتدائی سالوں میں جو ترقی ہوئی، کامیاب پاکستان کی بنیاد ثابت ہوئی۔ سیاست دانوں نے 1970ء کے بعد سے ترقی کے نام پر لوٹ مار، لا قانونیت سے نظام کو کمزور کیا، کڑوا سچ یہی ہے کہ جن کا کام ملک کے غریب عوام کے حقوق کا تحفظ کرنا تھا وہی اپنے فرض سے غافل ہیں، مال اور بچوں سمت بیرون ممالک میں بیٹھے پاکستانی عوام کی تقدیر کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ یہ دوڑ ختم ہونے کے قریب ہے، رینٹل پاور، امپورٹڈ کوئلہ اور موٹر ویز کے چالان بھرنے کی قوت جواب دے چکی ہے، اس وقت نا امید قوم نہیں، نا امید تو وہ ہیں جو پاکستان چھوڑ کر اپنے بچوں کے مستقبل کے لیے باہر سیٹل ہو گئے ہیں، یہ کروڑوں لوگ تو پر امید ہیں، جو وفا وطن کے لیے سینوں پر گولیاں کھا رہے ہیں، جو مہنگائی کا عذاب برداشت کر رہے ہیں۔ نا امید وہ ٹھہرے جنہوں نے ملک چھوڑا ، ملک لوٹا، ان کی نسلیں غیر مسلم سے شادیاں رچا رہی ہیں، اپنی جنس بدل کر والدین کو آنکھیں دیکھا رہے ہیں، کیوں ان کی واپسی کی امید پر قوم کو کھڑا کیا جاتا ہے۔ جو ملک بچانے آئے تھے وہ اپنا مال بچا کر واپس چلے گئے ہیں، ان 17ماہ میں ساڑھے 18ہزار ارب قرضہ ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے کے لیے مزید چڑھا دیا گیا ہے۔ کہتے ہیں کہ ملک کو بچا لیا گیا ہے، اتحادیوں نے حساب برابر کر دیا، اب کسی سیاسی جماعت کے پاس کوئی جواز باقی نہیں ہے، قابل وزیر خزانہ ڈالر 200روپے سے نیچے لانے کے وعدے پر قائم نہیں رہا ان کی تجربہ کاری کا بھرم کا بھی اختتام پذیر ہوا۔ قادر یونیورسٹی اور 190ملین کا حساب خاموش، پانامہ سکینڈل خاموش ، باہر ممالک میں پڑے 200ارب روپے کسی کو یاد نہیں ہیں، سالانہ اربوں کی منی لانڈرنگ کا چیلنج کسی کو یاد نہیں۔ سیلاب کے نام پر اربوں ڈالر کہاں چلے گئے سب خاموش، ڈی سی لیول کے افسر اربوں روپے ہضم کر گئے سب خاموش، خاموشی ثابت کرتی ہے کہ رخ تبدیل ہو چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button