ColumnNasir Naqvi

ایوارڈ نہیں ملا مجھے14اگست کو

ناصر نقوی
ہر سال 14اگست آتی ہے، ہم بھی جشن آزادی مناتے ہیں۔ ہمارے بچے بھی اودھم مچا کر خوش ہوتے ہیں۔ الحمد للہ بچے اب سیانے ہو گئے ورنہ سجاوٹ، جشن آزادی اور برقی قمقمے دیکھنے کے وہ بھی ہر پاکستانی بچے کی طرح شوقین تھے۔ ہوں بھی کیوں نا؟ ہمارے ماں باپ، دنیا چھوڑنے سے پہلے انہیں ’’ داستان آزادی‘‘ سنا گئے ہیں۔ بابائے قوم حضرت قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ان کی ہمشیرہ مادرِ ملت فاطمہ جناحؒ کے قصّے ہم نے بھی انہیں ازبر کرائے۔ دو قومی نظریہ اور تحریک آزادی کی معرکہ آرائی کے اہم اور دلچسپ واقعات سے بھی آگاہ کیا انہیں یہ بھی بتایا کہ تمہارے دادا اور دادی 14اگست 1947ء کے بعد ’’ عید آزادی‘‘ کی خوشیاں اور نومولود آزاد پاکستان کا نظارہ کرنے لاہور براستہ ’’ کھوکھرا پار‘‘ ملتان میں چند روز گزارنے کے بعد پہنچے تھے لیکن خوشی اس قدر تھی کہ والٹن کیمپ اور پیرا شوٹ فیکٹری میں انتہائی کسمپرسی میں بھی راضی رہے۔ کیونکہ انہیں یقین تھا کہ ان کا روشن مستقبل پاکستان ہی ہے لیکن بچے اب اپنی تعلیم مکمل کر چکے ، لہٰذا پوچھتے ہیں کہ ہماری بنیاد دو قومی نظرئیے کو نظر کیوں لگ گئی؟ با اصول رہبر محمد علی جناحؒ کے ملک میں مختلف نظریات کیسے پیدا ہو گئے؟ قائداعظمؒ کا فرمان تھا کہ ’’ ریاست پاکستان میں بلا امتیاز مذہب، رنگ و نسل برابری کے حقوق حاصل ہوں گے‘‘۔ یقینا ہمارے ہاں مسجد و محراب و منبر کے ساتھ ساتھ اقلیتوں کی عبادت گاہوں کی بھی عزت و توقیر موجود ہے۔ دنیا کے کسی بھی کونے سے ہندو، سکھ، پارسی کوئی غیر مذہب پاکستان آئے تو اسے اپنی عبادت گاہوں کی تزئین و آرائش دیکھ کر حقیقی خوشی ہو تی ہے۔ خاص طور پر ازلی دشمن بھارت کے یاتری اپنے مندر اور گردوارے دیکھ کر یہ الفاظ ضرور کہتے ہیں کہ ایسا تو ہندوئوں کے ہندوستان میں بھی نہیں، پھر کیوں ایسا واقعہ ہو جاتا ہے کہ ہمارے سر شرم سے جھک جاتے ہیّں؟ ہم انہیں لاکھ تاویلیں دیتے رہیں لیکن وہ مطمئن نہیں ہوتے ان کا دعویٰ ہے کہ ہمارے حکمرانوں اور عوامی طبقات کی دوری نے ایسے تضادات کیساتھ بداعتمادی پیدا کر دی ہے کہ 76سالہ پاکستان میں ’’ مفادات‘‘ کے لیے سب اجتماعی حوالوں کی بجائے انفرادی حیثیت سے آگے بڑھنے کی فکر میں ہیں یقینا حالات تو ایسے ہی ہیں۔ پوری قوم ایک خاص طبقے کے مفادات کی چکی میں پس رہی ہے اور اسے بھی اپنی قسمت کا لکھا سمجھتی ہے تاہم میں ان کے خیالات کو منتشر کرنے کے لیے ہاں میں ہاں نہیں ملاتا۔
ہم عجیب لوگ ہیں ابتداء سے ہی ایسی تضاد بیانی کی ہوا چلی کہ حقیقی رہنمائوں کی دنیا سے رخصتی کے بعد یہ تضاد سود در سود کے ساتھ ہمارا مقدر بن گیا۔ مہنگائی، بے روزگاری اور بداعتمادی نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا، کمال مزاج پایا ہے ہم نے، جمہوریت میں سخت اور منفرد روئیوں کی تمنا کرتے ہیں جبکہ آمریت میں جمہوری انداز تلاش کرتے ہیں، صدر جنرل محمد ایوب خان نے ہمیں ایسے جال میں پھنسایا کہ آج تک ہم خود اعتمادی سے آگے نہیں چل سکے۔ ہمیں سہارے چاہیں کبھی یہ سہارا کسی مضبوط مقتدرہ سے خود بخود مل جاتا ہے، کبھی اقتدار کی ہوس میں مبتلا شخصیات ازخود ہمارے لیے درخواست گزار ہو کر کہتی ہیں ۔ ’’ میں گر رہا ہوں بڑھ کر ذرا تھامنا مجھے‘‘۔
پھر تھامنے والے ان پر قبضہ کرنا اپنا حق سمجھ لیتے ہیں۔ اب یہ رویہ پوری قوم میں ہے۔ ’’ احتساب‘‘ کا ہم سب مطالبہ کرتے ہیں لیکن خواہش یہی ہے کہ ’’ احتساب‘‘ دوسروں کا ہو، خود تو ہم دودھ کے دھلے ہیں، ’’ اسی طرح ہماری یہ بھی سوچ مستقل بنیادوں پر قائم ہے کہ جو مل گیا وہ میرا حق تھا اور جو نہیں ملا وہ ناانصافی ہے اگر مجھے نہیں ملا تو کسی دوسرے کو کیوں ملا؟ ہمیشہ سوچ یہی ہوتی ہے کہ اگر دیکھنے والے کو مجھ میں کوئی کمی دکھائی دی ہے تو دوسرے میں خوبی کیا ہے کون سا سرخاب کا پر اسے لگا ہے؟‘‘۔
ہر سال 14اگست کو حکومت پاکستان مختلف شعبہ جات میں خدمات کے اعتراف میں ایوارڈز عطا کرتی ہے۔ سول اعزازات میں یہ خوش قسمتی کی سیڑھی ’’ تمغہ امتیاز‘‘ سے شروع ہوتی ہے۔ پھر تمغہ حسن کارکردگی، اس کے بعد ستارہ امتیاز اور آخری ہلال امتیاز ہے۔ اس میں ایک اعزاز ’’ تمغہ حسن کارکردگی‘‘ واحد ہے جس میں مبلغ دس لاکھ روپے نقد بھی سرکاری خزانے سے ملتا ہے۔ میں 14اگست کو سب سے پہلے اعزاز یافتہ شخصیات کے نام پڑھتا ہوں کیونکہ یہ سب کے سب اپنے ہوتے ہیں۔ ان میں سے اپنے قرابت دار ڈھونڈ کر انہیں مبارک باد دیتا ہوں۔ یقین جانیے اپنا نام کبھی نہیں ڈھونڈا اس لیے کہ مجھے پتہ ہے جن خصوصیات پر یہ اعزاز ملتے ہیں وہ مجھ’’ میں‘‘ نہیں۔ حالانکہ میرے دوستوں کو غلط فہمی ہے کہ میں نے ایسی معرکہ آرائی کی ہوئی ہے کہ میں بھی حقدار بن سکتا ہوں لیکن اپنی ذات کے حوالے سے بھی مفاد پرست ہرگز نہیں۔ میرے ایک دوست نے اپنے ایک آرٹیکل میں تصویر کے کیپشن میں ’’ لیجنڈ‘‘ لکھ دیا تو میں کئی روز اس سے ناراض رہا بلکہ میں نے اس کو اچھی بھلی جھاڑ پلا دی تھی۔’’ دشتِ صحافت‘‘ میں ایک عمر گزار چکا ہو اس لیے بخوبی جانتا ہوں کہ کامیابیوں اور ناکامیوں کے پس پردہ کون سے ہاتھ کارفرما ہوتے ہیں اور ہم صرف اپنے ہاتھوں کے غلام ہیں۔ لہٰذا خواہشات کبھی پالی ہی نہیں لیکن ہر سال کی طرح اس مرتبہ بھی اعزازات حاصل کرنے والوں کو تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ ماضی میں بھی یہ روایت تھی، حالانکہ اس راز سے سب واقف ہیں کہ آج کے دور میں ہی نہیں، ہمیشہ سے اس ’’ دوڑ‘‘ میں شامل ہونے کے لیے کیا کچھ کرنا پڑتا ہے جب دوڑ سکتے تھے اس وقت اس ریت کو مناسب نہیں سمجھا تو اب دوڑ کے قابل ہی نہیں رہے جنہیں ’’ اعزاز‘‘ ملا انہیں کھلے دل سے مبارک باد اور جنہیں نہیں ملا ان کے لیے دعا گو ہیں۔
میرے بھائی ممتاز شاعر صدارتی ایوارڈ یافتہ فرحت عباس شاہ نے اپنے کالم ’’ ادراک‘‘ میں بعنوان ’’ ایوارڈ کیا ملا مجھے چودہ اگست کو‘‘ مختلف دانشوروں کے حوالوں سے تذکرہ فرمایا ہے جس کا مقصد یقینا میرٹ، حق اور انصاف کی بات کر کے حقدار کو حق دلانے کی کوشش نظر آتا ہے لیکن یہ معیار ہم سب کا مختلف ہوتا ہے۔ پھر بنیاد کسے اور کیسے بنایا جائے؟ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ ’’سول ایوارڈز‘‘ کا سلسلہ بھی جنرل ضیاء الحق کے آمرانہ دور میں شروع کیا گیا تھا ، مختلف شعبہ جات کی کن کن شخصیات کو ’’ پہلا اعزاز‘‘ ملا، مجھے یاد نہیں لیکن قوی خاں، طلعت حسین، عابد علی، سلیم ناصر، روحی بانو اور اَن گنت سینئر اداکاروں اور اداکارائوں کی موجودگی میں عظمیٰ گیلانی صاحبہ کو ملا تھا۔ اس وقت بھی تنقید ہوئی تھی لیکن قوی خان کا کہنا تھا کہ چھوڑیں ’’ ایوارڈ‘‘ کس کو ملا، خوشی کی بات ہے کہ حکومتی پذیرائی تو ملی، آج انہیں ملا ہے، کل کسی اور کو ملے گا اور پھر آئندہ سال یہ اعزاز محمد قوی خان کو بھی مل گیا۔ ہمارے بھائی نے کچھ بندر بانٹ اور کچھ اندر بانٹ کی بات کی ہے ، کسی حد تک یہ درست بھی ہے لیکن حقیقت یہی ہے کہ ’’ کیبنٹ ڈویژن‘‘ اور ’’ وزارت اطلاعات‘‘ کے ذرائع کے مطابق اس میں صوبائی کوٹہ ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے اس انفارمیشن کے دور میں بھی بہت سے باصلاحیت اور قدآور یہ نہیں جانتے کہ اپنا حق کیسے لینا ہے؟ شاہ جی نے بیورو کریسی کے دو نمائندوں پر تنقید کی، اور دو شعراء افتخار عارف و عباس تابش کو بھی رگڑا لگا دیا جبکہ معاف احمد شاہ کو بھی نہیں کیا۔ یقینا عباس تابش کی سرگرمیوں پر دوسرا گروپ ناراض ہے لیکن ادبی دنیا میں بھی بے ادبی کا کسی حد تک لحا ظ ہونا چاہیے۔ ’’ افتخار عارف‘‘ پاکستانی ادب کا افتخار ہے، خواہ آپ اس سے اختلاف ہی کیوں نہ کریں، احمد شاہ کو ادب و ثقافت کا ’’ مافیا‘‘ قرار دے دیں لیکن جو کچھ وہ کر گئے یا کر رہے ہیں اسے فراموش کرنا بھی تو ناانصافی ہے۔ کسی کو اور اس کی خدمات کو تسلیم کرنا بھی ’’ خوبی‘‘ ہے ، باقی رہا ’’ سوشل میڈیا‘‘ تو یہ ترقی پاکستان میں تو صرف دوسروں کی پگڑیاں اچھالنے کے لیے ہے۔ ہم اس سے فائدہ کم اور نقصان زیادہ کر رہے ہیں۔ فرحت عباس شاہ صاحب آپ بھی ’’ پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ ہیں آپ کی صلاحیتوں اور شاعری کے قائل ہیں ہم اور ہمارے جیسے اَن گنت۔ لیکن میں نے کبھی آپ کو اس اعزاز پر اتراتے ، فخر کرتے نہیں دیکھا، آپ کو اس کے لیے بھاگ دوڑ نہیں کرنی پڑی ورنہ یقین جانئیے، اسے حاصل کرنے میں بندہ وہ کچھ کر گزرتا ہے جو ’’ توہین بندہ‘‘ ہے یعنی یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ مارکیٹ میں صحافی، شاعر، ادیب، استاد اور سائنسدان ایسے پھر رہے ہیں جنہوں نے اس اعزاز کو نام کا حصّہ بنا لیا ہے بلکہ وہ تعارف کراتے ہوئے بھی اپنا نام نامی بعد میں بتاتے ہیں ’’ پرائڈ آف پرفارمنس‘‘ کا تذکرہ پہلے کرتے ہیں۔ ہماری دعا ہے کہ آپ جیسے لوگ ستارہ امتیاز اور ہلال امتیاز کی منزل تک پہنچیں اور ہم مبارک باد دیں ’’ ہم اور آپ‘‘ اشرف المخلوقات کے زمرے میں گِنے جاتے ہیں پھر ہمارا ’’ حسب نسب‘‘ ایسا ہے کہ ’’ حد ادب‘‘ کے پابند ہونا ہماری فطرت اور تربیت کا حصہ ہے۔ خوش رہیں، خوشیاں بانٹیں اور دوسروں کی خوشیوں میں بھی اپنا حصّہ ڈالیں یہی صدقہ جاریہ ہے۔ ہمارا کام ہی یہی ہے اس لیے کہ ’’ صدقہ‘‘ ہم دونوں پر حرام ہے۔ ’’ ایوارڈ نہیں ملا 14اگست کو‘‘، 25کروڑ عوام کی اکثریت کو 76سالوں میں نہیں ملا؟
ناصر کرے گا کون تیری سادگی پسند
سارا جہان مبتلائے رنگ و بو تو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button