ColumnHabib Ullah Qamar

جنرل حمید گل کی یاد میں

حبیب اللہ قمر
جنرل حمید گل پاکستان کی تاریخ کا ایک معروف نام ہیں اور ان کی خدمات کو تادیر یاد رکھا جائے گا۔ انہیں اس دنیائے فانی سے رخصت ہوئے آٹھ برس بیت چکے ہیں۔ وہ اگست کے مہینہ میں ہی ہم سے جدا ہوئے۔ ان کی وفات سے چند دن قبل لاہور میں نظریہ پاکستان کے احیاء کیلئے ملک گیر تحریک چلانے کے حوالے سے ایک مشاورتی مجلس کا انعقاد کیا گیا جس میں جنرل حمید گل کو بھی دعوت دی گئی ، وہ کبھی ایسی مجالس میں شرکت سے پیچھے نہیں رہے اور ہمیشہ قائدانہ کردار ادا کیا کرتے تھے تاہم اس مرتبہ انہوں نے معذرت کرتے ہوئے کہا کہ میں اپنی اہلیہ کو لیکر مری جا رہا ہوں مجھے امید ہے کہ پرفضا مقام پر جاکر ان کی طبیعت بحال ہوجائے گی۔ وہ اپنی اہلیہ اور بچوں کا بہت زیادہ خیال رکھنے والے عظیم شخص تھے لیکن کون جانتا تھا کہ جہاں وہ جارہے ہیں وہاں خود ان کی اپنی طبیعت بگڑ جائے گی اور انہیں اس دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا۔ بہرحال ہر انسان کی موت کا وقت مقرر ہے اور ہر کسی نے اس دنیا کو چھوڑ کر جانا ہے لیکن خوش قسمت ہیں وہ انسان جن کے رخصت ہونے کے بعد دنیا انہیں اسلام، ملک و قوم کی خدمت اور اچھے اخلاق و کردار کی بنیاد پر یاد رکھی۔ جنرل حمید گل بہت زیادہ باصلاحیت انسان تھے۔ انہوںنے اپنی ساری زندگی اسلام و پاکستان کے دفاع کیلئے وقف کر رکھی تھی۔ 1936ء میں پیدا ہونے والے یہ عظیم جرنیل پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے ڈائریکٹر جنرل بھی رہے۔ یہ وہ وقت تھا جب افغانستان میں روس کی قوت بکھر چکی اور یہ جنگ اپنے اختتامی مراحل تک پہنچ رہی تھی۔ یہ بہت کٹھن دور تھا۔ پاکستان کے خلاف سازشیں عروج پر تھیں مگر ان کی قیادت میں آئی ایس آئی نے ایسا شاندار کردار ادا کیا کہ بین الاقوامی دنیا تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئی کہ پاکستان کا یہ خفیہ ادارہ دنیا بھر میں ٹاپ پوزیشن پر ہے اور بھرپور انداز میں پیشہ وارانہ امور سرانجام دے رہا ہے۔ روس کے بارے میں مشہور تھا کہ یہ ایسا ریچھ ہے جہاں جاتا ہے خالی ہاتھ واپس نہیں پلٹتا لیکن پھر تاریخ نے دیکھا کہ جنرل حمید گل کی سربراہی میں طے کردہ وار اسٹریٹیجی نے سوویت یونین کی چولیں ہلا کر رکھ دیں اور وہ بدترین شکست کے بعد یہاں سے بھاگنے پر مجبور ہوا۔ سوویت یونین کے بکھرنے کے بعد دیوار برلن بھی گرا دی گئی جس پر جرمنی والوں نے اس دیوار کا ایک ٹکڑا انہیں تحفے کے طور پر بھیجا اور کہاکہ آپ کے سوویت یونین کو توڑنے سے ہمیں حوصلہ ملا اور ہمیں بھی کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ جنرل صاحب کے اس کارنامے کو دنیا بھر کے اخبارات میں شہ سرخیوں میں شائع کیا گیا۔ ان کے گھر میں جب کوئی خاص مہمان جاتا تو وہ انہیں دیوار برلن کا یہ ٹکڑا خاص طور پر دکھایا کرتے تھے جو کہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کی زندگی کا قیمتی اثاثہ تھا۔ بھارت، امریکہ اور دیگر اسلام دشمن قوتیں انہیں پاکستان کا دفاع کرنے والی ایک فولادی قوت سمجھتی تھیں اور ان کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈا کیا جاتا۔ اللہ تعالیٰ نے دشمن کے دلوں میں ان کا بہت رعب و دبدبہ ڈال رکھا تھا مگر حقیقی زندگی میں وہ انتہا درجے کی حد تک نرم دل انسان اور اس شعر کی عملی تصویر تھے کہ:
ہو حلقہ یاراں تو بریشم کی طرح نرم
رزم حق و باطل ہو تو فولاد ہے مومن
فروری انیس سو نواسی میں سوویت یونین کا انخلاء مکمل ہو ا تو بیرونی قوتوں نے سازشیں کر کے مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کر دیا اور افغان جہاد کے ثمرات کو ضائع کرنے کی کوششیں کیں تاہم جنرل حمید گل ہمیشہ افغان مجاہدین کے مختلف گروہوں میں باہم اتحاد و یکجہتی کا ماحول پیدا کرنے کی کوششیں کرتے رہے۔ ان کی آئی ایس آئی کی سربراہی کے دور میں پاکستان کی پہلی خاتون وزیر اعظم بے نظیر بھٹو نے اقتدار سنبھالا اورانیس سو اکیانوے میں آئی جے آئی کا تخلیق کار سمجھتے ہوئے انہیں آئی ایس آئی کی سربراہی سے ہٹادیا گیا۔ پاکستان میں اگرچہ اس فیصلہ کو پسند نہیں کیا گیا تاہم امریکہ ، بھارت اور مغربی دنیا نے اس پر زبردست خوشی کا اظہار کیا۔ اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد بھی انہوں نے اسلام و پاکستان کے دفاع کیلئے اپنی جدوجہد کو بھرپور انداز میں جاری رکھا ۔ وہ کہا کرتے تھے کہ نہ تو میں تھکا ہوں اور نہ ہی خود کو ریٹائرڈ سمجھتا ہوں۔ یہی وجہ تھی کہ اسلام و پاکستان کے خلاف سازشوں کے توڑ کیلئے وہ ہمیشہ ہراول دستہ کا کردار ادا کرتی۔ پاکستان میں ان کی آواز کو بہت موثر سمجھا جاتا تھا اور محب وطن و سنجیدہ طبقہ ان سے بہت زیادہ محبت کرتا تھا۔ نائن الیون کے بعد امریکہ اور نیٹو فورسز نے افغانستان پر حملہ کیا تو پاک افغان دفاع کونسل میں انہوںنے قائدانہ کردار ادا کیا۔ وہ ملا عمر اور طالبان کے بہت بڑے حامی تھے البتہ تحریک طالبان کے نام سے ملک میں خودکش حملے کرنے والوں کی سرگرمیوں کو پاکستان کے حق میں نہیں سمجھتے تھے۔ وہ نا صرف یہ کہ ان کی کھل کر مخالفت کرتے بلکہ پاکستانی فورسز پر حملوں کو شرعی طور پر ناجائز سمجھتے ہوئے اسے افغان طالبان کو بدنام کرنے کا عمل قرار دیا کرتے تھے۔ وہ پاکستان میں امریکہ کے بہت بڑے ناقد تھے اور اس کی پالیسیوں کی کھل کر مخالفت کیا کرتے تھے۔ افغانستان کی سرزمین سے جب پاکستان کے خلاف سازشیں بڑھنے لگیں۔ امریکیوں نے بھارت سرکار کو کھل کھیلنے کا موقع دیا، بھارتی قونصل خانوں میں دہشت گردوں کو تربیت دے کر پاکستان داخل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا اور سلالہ چیک پوسٹ جیسے حملے ہونے لگے تو محب وطن مذہبی و سیاسی جماعتوں نے دفاع پاکستان کونسل کے نام سے نیا اتحاد تشکیل دیا اور نیٹو سپلائی بحالی کے خلاف زبردست تحریک شروع کر دی۔ اس اتحاد میں انہیں مشترکہ طور پر دفاع کونسل کی رابطہ کمیٹی کا کنوینر بنایا گیا۔ اس دوران جب حکومت پاکستان کی جانب سے بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کی کوششیں شروع ہوئیں تو کونسل نے اس کی بھی بھرپور مخالفت کی اور نیٹو سپلائی منقطع کرنے کی طرح مسئلہ کشمیر حل ہونے تک بھارت سے دوستی و تجارت بڑھانے کی کوششوں کو مظلوم کشمیریوں کے زخموں پر نمک پاشی قرار دیا گیا۔ اس دوران لاہور، اسلام آباد، ملتان، کراچی، کوئٹہ اور پشاور سمیت پورے ملک میں بڑی دفاع پاکستان کانفرنسوں کا انعقاد کیا گیا جن میں بلاشبہ لاکھوں افراد نے شرکت کی۔ اسی طرح تاریخی لانگ مارچ کئے گئے جس سے عوامی دبا اس قدر بڑھا کہ نیٹو سپلائی کئی ماہ تک منقطع رہی اور حکمرانوں کے دل میں انڈیا کے حوالہ سے نرم گوشہ ہونے کے باوجود بھارت کو پسندیدہ ترین ملک کا درجہ نہیں دیا جاسکا۔ یعنی سیاسی و مذہبی جماعتوں کے اس مشترکہ فورم کی کوششیں بہت کامیاب رہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ کونسل نے صحیح معنوں میں اپوزیشن کا کردار ادا کیا اور جنرل حمید گل اور حافظ محمد سعید جیسے قائدین نے حکومت کی سمت درست رکھنے میں اہم کردار ادا کیا تو بے جا نہ ہوگا۔ ان کے اس کردار کو تاریخ میں سنہری حروف میں یاد رکھا جائے گا۔ جنرل حمید گل بلا کے خطیب تھے۔ وہ لانگ مارچوں کے دوران سخت گرمی اور طبیعت کے خرابی کے باوجود گھنٹوں ٹرک پر سفر کرتے اور جگہ جگہ کھڑے ہو کر شرکاء کے جذبات کو گرماتے جس کے نتیجے میں لمبے سفر کے باوجود لوگوں میں کسی قسم کی تھکان اور جذبہ کی کمی دیکھنے میں نہیں آتی تھی۔ کشمیر، فلسطین، برما، افغانستان و دیگر خطوں کے مظلوم مسلمان انہیں اپنا حقیقی لیڈر سمجھتے تھے تو دشمنان اسلام بھی انہیں مجاہدین کا روحانی باپ کہا کرتے تھے۔ افغان مجاہدین کی طرح تحریک آزادی کشمیر کے حق میں بھی وہ ایک توانا آواز تھے اور مظلوم کشمیری قوم بھی ہر مشکل وقت میں ان کی جانب دیکھتی تھی۔ حقیقت ہے کہ وہ آ ج ہمارے درمیان نہیں رہے تاہم اسلام و پاکستان کے دفاع کیلئے ان کی مخلصانہ جدوجہد اور قربانیوں کی یاد ان شاء اللہ دلوں میں تازہ رہے گی۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں جنت الفردوس میں بلند مقام عطا فرمائے اور ان کی آخرت کی منزلیں آسان کرے۔ آمین۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button