Ahmad NaveedColumn

آخر افغان بچیوں کا گناہ کیا ہے؟

احمد نوید
ہم خواتین کو اپنے فریم ورک کے اندر تعلیم حاصل کرنے اور کام کرنے کی اجازت دینے جا رہے ہیں۔ خواتین ہمارے معاشرے میں بہت فعال ہونے جا رہی ہیں۔ طالبان نے 15اگست 2021ء کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے فوراً بعد اپنی پہلی پریس کانفرنس میں یہ اعلانات کئے تھے، مگر آج دو سال گزر چکے ہیں اور طالبان حکومت کے اقدامات ان کی یقین دہانیوں سے بالکل مختلف ہیں۔ ان دو سالوں میں طالبان قیادت کی جانب سے خواتین کے حقوق کو مسلسل دبایا جا رہا ہے۔ آج افغانستان میں خواتین کی دنیا سکڑ گئی ہے۔ وہ غم، خوف، دکھ اور اذیت میں زندگی گزار رہی ہیں۔ طالبان کے خواتین کے ساتھ منفی رویے کا پہلا اشارہ ان کے اقتدار پر قبضہ کرنے کے ایک ماہ بعد ہی سامنے آگیا تھا جب وزارت تعلیم کی جانب سے لڑکوں کے لیے سیکنڈری سکول تو کھولے گئے مگر لڑکیوں کی تعلیم کا کہیں کوئی ذکر نہیں تھا۔
اس وقت کابل میں ایک 17سالہ طالبہ رو پڑی، جب اس نے سکول جانے والے اپنے بھائیوں کو الوداع کہا۔ اسی ہفتے کابل شہر کی انتظامیہ کی خواتین ملازمین کو بھی میئر کی طرف سے کہا گیا کہ وہ بھی گھر پر رہیں گئیں اور صرف ان خواتین ملازمین کو کام کرنے کی اجازت ہو گی، جو مرد نہیں کر سکتے تھے۔ افغانستان میں اعلیٰ تعلیم کے وزیر مولوی ندا محمد ندیم کے مطابق طالبان حکومت کی جانب سے یونیورسٹیوں میں خواتین کے لیے تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ اس حکم کے تحت خواتین کے لیے تعلیم تک رسائی روک دی گئی ہے۔ یونیورسٹی کی ایک طالبہ نے میڈیا کو بتایا ہے کہ وہ یہ خبر سننے کے بعد سے رو رہی ہے۔
پابندی عائد ہونے سے دو سال قبل افغانستان بھر میں ہزاروں لڑکیوں اور خواتین نے یونیورسٹی میں داخلے کا امتحان دیا تھا۔ مگر طالبان نے مضامین کے انتخاب کے حوالے سے ان پر پابندیاں لگا دیں۔ خواتین پر عائد کردہ پابندی کے تحت وہ وٹنری سائنس، انجینئرنگ، اکنامکس اور زراعت میں تعلیم حاصل نہیں کر سکتیں جبکہ صحافت میں بھی ان کا جانا بھی مشکل ہے۔ دو سال قبل کابل پر طالبان کے قبضے کے بعد پابندی عائد ہونے سے افغانستان کی یونیورسٹوں میں مرد و خواتین کے لیے الگ الگ کلاس روم اور داخلی راستے متعارف کرائے گئے۔ طالبات کو صرف خواتین پروفیسر یا معمر مرد پڑھا سکتے ہیں۔ طالبان دور میں افغانستان کا تعلیمی شعبہ بُری طرح متاثر ہوا ہے۔ دو سال قبل امریکی و دیگر غیر ملکی افواج کے انخلا کے بعد سے تربیت یافتہ ادبی شخصیات ملک چھوڑنے پر مجبور ہوئی ہیں۔
ملک کی معیشت، جو کہ گزشتہ دہائیوں کے دوران غیر ملکی امداد پر منحصر تھی، بھی متاثر ہو رہی ہے۔ فلاحی تنظیموں نے جزوی اور کچھ نے پوری طرح اپنی امداد روک دی ہے۔ ان کی جانب سے یہ فیصلہ اس وقت کیا گیا جب طالبان نے لڑکیوں کو سیکنڈری سکولوں میں تعلیم حاصل کرنے سے روکا۔ افغانستان سکولوں اور یونیورسٹیوں کے اساتذہ کئی ماہ سے اپنی تنخواہوں کے منتظر ہیں۔ امریکہ، برطانیہ اور اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ امریکہ اور دیگر مغربی ممالک نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کرنے سے قبل ملک میں خواتین کی تعلیم میں بہتری کی شرط رکھی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے طالبان کے فیصلے کو ’ شرمناک‘ قرار دیا تھا۔ آج طالبان روز بروز یہ واضح کرتے جا رہے ہیں کہ وہ افغان شہریوں اور خاص کر خواتین کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ اب طالبان نے دارالحکومت کابل کے باغات میں خواتین کے داخلے پر بھی پابندی لگادی ہے اور دعویٰ کیا کہ ان کے آنے سے قبل وہاں اسلامی قوانین کی پیروی نہیں کی جا رہی تھی۔ اس پابندی پر ایک طالبہ کا ماننا ہے، کہ طالبان خواتین اور ان کی طاقت سے خوفزدہ ہیں۔ اس طالبہ کا کہنا ہے کہ طالبان نے ’ وہ واحد پُل‘ تباہ کر دیا جو مجھے میرے مستقبل سے جوڑ سکتا تھا۔ مجھے یقین تھا کہ میں پڑھ کر اپنا مستقبل بدل سکتی ہوں یا اپنی زندگی میں روشنی لا سکتی ہوں۔ لیکن انہوں نے اسے تباہ کر دیا۔
طالبان کے قبضے کے بعد تعلیم جاری رکھنے کی کوشش میں درپیش مشکلات کی وجہ سے افغانستان میں آج طالبات کو تعلیم جاری رکھنے کے لیے ایک مشکل صورتحال کا سامنا ہے۔ افغان یونیورسٹیوں میں خواتین پر پابندی کے فیصلے کے بعد سے اب تک سوشل میڈیا صارفین بھی طالبان حکومت پر مسلسل تنقید کر رہے ہیں مگر طالبان حکومت کوا س بات کی پروا نہیں۔ افغانستان کے مذہبی اسکالروں نے طالبان کی جانب سے خواتین کی تعلیم پر عائد کردہ پابندی پر تنقید کی تھی، مگر طالبان کے ایک اہم وزیر نے علماء کو خبردار کر دیا تھا کہ وہ اس متنازع معاملے پر حکومت کے خلاف بغاوت نہ کریں۔ جس پر مذہبی سکالر بھی خاموش ہو گئے۔ ان پابندیوں سے جہاں افغانستان پر بین الاقوامی سطح پر شدید تنقید کی گئی ہے، وہاں افغانستان دنیا بھر شدید تنہائی کا شکار بھی ہوا ہے۔ اس کی معیشت تباہ ہو چکی ہے اور انسانی بحران مزید ابتر ہو گیا ہے۔ طالبان اسلام سے سراسر ناواقف ہیں۔ اسلام میں مردوں اور عورتوں کے لیے تعلیم لازمی ہے اور اسلام خواتین کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت دیتا ہے۔ آج طالبان افغانستان کو تباہ کر نے پر تلے ہوئے ہیں۔
امریکہ، برطانیہ، فرانس، جرمنی، کینیڈا، جاپان، ہالینڈ، ناروے، سپین، سوئٹزر لینڈ اور یورپی یونین کی وزارت خارجہ سمیت کئی ممالک نے ایک مشترکہ بیان میں طالبان کو خبردار کیا کہ اس فیصلے سے ان کے تعلقات متاثر ہوں گے۔ ان ممالک کے وزرائے خارجہ نے طالبان سے مطالبہ کیا کہ وہ خواتین کی اعلیٰ تعلیم اور چھٹی جماعت سے اوپر کے لڑکیوں کے سکولوں پر پابندیاں فوری طور پر ہٹا دیں۔ سعودی عرب، پاکستان، ترکی اور قطر سمیت خطے کے کئی ممالک نے بھی طالبان کے اس قدم پر افسوس کا اظہار کیا ہے اور ان سے اس فیصلے کو تبدیل کرنے کا کہا ہے۔ بیان کے مطابق یہ فیصلہ افغان خواتین کو شرعی حقوق کی فراہمی سے متصادم ہے جس میں تعلیم کا حق بھی شامل ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے ایک تقریر میں دھمکی دی تھی کہ اس فیصلے کے طالبان کے لیے برے نتائج ہوں گے۔ امریکہ کے ساتھ ساتھ برطانیہ نے بھی طالبان کے فیصلے کو خواتین کے حقوق پر ایک اور حملہ اور اپنے وعدوں کی خلاف ورزی قرار دیا۔
ہیومن رائٹس واچ لڑکیوں کی یونیورسٹیوں کو بند کرنے کے فیصلے کو پہلے ہی شرمناک قرار دے چکی ہے۔ ہیومن رائٹس واچ کا کہنا ہے کہ طالبان افغانوں بالخصوص خواتین کے بنیادی حقوق کا احترام نہیں کرتے۔ دوسری جانب 7بڑے صنعتی ممالک کی ایسوسی ایشن کے G۔7وزرائے خارجہ نے ایک بیان میں طالبان کی جانب سے خواتین کے ساتھ ’ سلوک کو انسانیت کے خلاف جرم‘ قرار دیا تھا اور طالبان سے کہا تھا کہ وہ اپنا فیصلہ واپس لیں۔ عالمی تنقید کے بارے میں طالبان کا کہنا تھا کہ دنیا ان کے داخلی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔ ہم نے عوام کے تحفظ کے لیے بیس سال قربانیاں دی ہیں۔ ان کے حقوق پامال نہیں کریں گے۔ جبکہ سچ تو یہ ہے کہ طالبان اپنی پالیسی بدلنے کے لئے تیار نہیں۔ کیونکہ افغان خواتین نے جب جب پابندیوں کے خلاف شہروں کی سڑکوں پر مارچ کر کے کام کرنے اور تعلیم حاصل کرنے کے حق کا مطالبہ کیا۔ تب تب طالبان حکومت نے ان پر تشدد کیا۔ جنوری 2022میں، کم از کم چار خواتین کارکنوں کو حراست میں لیا گیا۔ انہیں ہفتوں تک قید میں رکھا گیا اور حراست میں مارا پیٹا گیا۔ یہ کیسا ملک ہے؟ آخر افغان بچیوں کا گناہ کیا ہے؟۔ طالبان کی حکومت کو اپنی سوچ اور پالیسی بدلنے کی ضرورت ہے۔ انتہائی قدامت پسندی ملکوں کو تباہ کر دیتی ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button