ColumnTajamul Hussain Hashmi

اس دفعہ کی نگران حکومت

تجمل حسین ہاشمی
نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ پاکستان کے آٹھویں نگران وزیر اعظم ہیں، ان کا تعلق بلوچستان کے ضلع قلعہ سیف اللہ کے علاقے کان مہترزئی سے ہے۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ نے ابتدائی تعلیم کوئٹہ میں مکمل کی، بعد ازاں قانون کی ڈگری لندن سے حاصل کی۔ سیاست میں حصہ 2008ء میں لیا، پاکستان مسلم لیگ ق کے ٹکٹ پر کوئٹہ سٹی کے حلقہ 259میں قومی نشست پر الیکشن لڑا اور شکست کا سامنا رہا۔ 2013ء میں دوبارہ الیکشن میں حصہ لیا اور ثنا اللہ زہری کی صوبائی حکومت کے دوران ترجمان بلوچستان حکومت رہے۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے سمندر پار پاکستانیز اور ہیومن ریسورس ڈیولپمنٹ کے چیئرمین کے طور پر بھی کام کیا، سینیٹ کی بزنس ایڈوائزری کمیٹی، فنانس اینڈ ریونیو، خارجہ امور اور سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے رکن بھی رہے۔ آزاد حیثیت سے 2018ء میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ انہوں نے بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے نئی جماعت قائم کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔ نگران وزیر اعظم انوار الحق کا تعلق پڑھے لکھے خاندان سے ہے، کتابوں سے رغبت ہے ، اس وقت ملک کو جن مسائل کا سامنا ہے ان میں وقت پر الیکشن کا کروانا ہے۔ تمام جماعتیں الیکشن کو لے کر نگران حکومت کی طرف دیکھ رہی ہیں۔ لیکن مسلم لیگ ن کے رہنما اور سابق وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اور سابق اپوزیشن لیڈر راجہ ریاض نے نجی ٹی وی چینلز کو انٹرویوز میں فروری 2024ء کو الیکشن ہونے کا دعویٰ کیا ہے۔ حلقہ بندیوں کو مکمل کرنے میں چند ماہ درکار ہیں۔ بروقت الیکشن نہ ہونے پر نگران حکومت کو دبائو کا سامنا رہے گا۔ اتحادی امریکہ کے وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ پاکستان آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کی تیاری کر رہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ نے نگراں وزیراعظم انوار الحق کاکڑ کو عہدہ سنبھالنے پر مبارکباد بھی دی، دوسری جانب انوار الحق کاکڑ نے اظہار تشکر کرتے ہوئے کہا ہے کہ نگراں حکومت صاف شفاف انتخابات کے لیے پوری تندہی سے کام کرتی رہے گی۔ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والی شخصیات کا کہنا تھا کہ نگران حکومت کو درپیش مشکلات کا درست اندازہ اس وقت لگایا جا سکے گا جب کابینہ تشکیل دی جائے گی۔ پاکستان کی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ نگار و صحافی حضرات کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف اور ڈالر کی قیمت کے حوالے سے نگران حکومت کو سخت فیصلے لینا پڑیں گے۔ کاروباری برادری اس وقت خوب ڈبل کر رہی ہے۔ سابق اتحادی حکومت کے آتے ہی چند بینکوں نے 30ارب کما لیے تھے اور اتحادی حکومت بے بس، خاموش بیٹھی رہی تھی، میاں شہباز لندن یاترا پر تھے۔ میرے خیال میں ماضی کی نگران حکومتوں سے زیادہ اس نگران کابینہ کو مشکلات کا سامنا رہے گا۔ منتخب حکومتوں کی طرح اس حکومت کو بھی معاشی انتظامی اور سماجی فیصلوں پر عوامی ردے عمل کا سامنا ہو گا، کیوں اس وقت ملک کو کمزور معاشی صورتحال کا سامنا ہے اور نگران حکومت کو فیصلے کرنے کا قانونی اختیار بھی مل چکا ہے۔ الیکشن کروانے کی اہم ذمہ داری کو پورا کرنے کے ساتھ فیصلوں کا اختیار بھی ہے، چند حلقے الیکشن کے حوالے سے بے بنیاد ، غیر یقینی صورتحال پیدا کر رہے ہیں۔ میری نظر میں ایسے حالات میں وقت سے پہلے بیانات ملک کی معاشی صورتحال پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ جس سے فائدہ سیاسی کاروباری برادری اٹھائے گی۔ بظاہر سیاسی جماعتوں میں تحفظات پیدا کرنے کی بھی کوشش لگتی ہے، ملکی معیشت کے حوالے سے بجٹ میں کئے گئے اقدامات پر عملداری بہت ضروری ہے کیوں کہ عوام اس وقت مہنگائی میں بری طرح پھنسے ہوئے ہیں، اس کے لیے بر وقت ریلیف بہت ضروری ہے، پٹرول بجلی اور گیس کی ادائیگیوں میں تنخواہ کا بڑا حصہ خرچ ہو جاتا ہے۔ اتحادی حکومت نے جاتے وقت کئی ایسے بل پاس کروائے ہیں جو نگران کابینہ کو معاشی فیصلے کرنے میں مدد گار ہوں گے، نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کا کیریئر بہتر فیصلوں کی کرن ہے، اداروں کی مکمل سپورٹ ہے، یہ کوئی انہونی بات نہیں کہ ملک کے اعلیٰ ادارے نگران حکومت کی ساتھ کھڑے ہیں، اعلیٰ ادارے ہر منتخب حکومت کے ساتھ کھڑے رہتے ہیں، ملکی سلامتی کے ذمہ دار ہیں، بلوچستان سے نگران وزیر اعظم کا انتخاب ان حالات میں انتہائی ضروری تھا، قوم اس وقت ایک اہم اور کٹھن دور سے گزر رہی ہے اور جغرافیائی، سیاسی تنازعات، طاقت کے حصول کی کشمکش، تسلط پسندی اور جنگی جنون جیسے چیلنجز کا سامنا ہے۔ پاکستان کو بارڈر چیلنجز کا سامنا ہے ، جہاں ہماری سیکیورٹی فورسز کو نشانہ بنایا جا رہا ہے، ملکی ترقی میں رکاوٹیں کھڑی کی جا رہی ہیں، حالات کا تقاضا تھا کہ ایسے ہی شخص کو نگران وزیر اعظم منتخب کیا جاتا۔ مشاورت اور بجٹ میں کئے گئے فیصلوں سے بہتری کی امید ہے، نگران وزیر اعظم ان فیصلوں کو یقینی بنائیں گے، نا امیدی کی فضا جلد ختم ہو جائے گی، کاروباری برادری کو اس وقت ملک استحکام کے لیے کام کرنا ہو گا، قیمتوں میں استحکام رکھنے کے لیے کاروباری برادری کو ساتھ دینا ہو گا، حکومتی کمزوریوں سے فائدہ مت اٹھائیں، عوام کو قیمتوں میں ریلیف دیں، منافع کو ڈبل کرنے کے چکر میں لوگوں کے استحصال کو روکنا ہو گا۔ سیاسی جماعتوں کو الیکشن کی پریشانی کھائے جا رہی ہے۔ لیکن عوام کی حالت تشویشناک ہے، اس وقت سیاسی جماعتوں کو مفادات نہیں ملک کا سوچنا ہو گا، جمہوریت کی بقا کے لیے ایک دوسرے کے حقوق کو سلب نا کیا جائے، ملک کے قانون کے مطابق چلیں۔ ذاتی مفادات کو پس پشت ڈال کر آگے بڑھا جائے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button