ColumnNasir Naqvi

میرا ’’بل‘‘ گواچہ

ناصر نقوی
کیسی بدقسمتی ہے کہ مشکلات کے شکار پاکستانیوں کو سکون دور دور دکھائی نہیں دے رہا۔ پھر بھی وہ مطمئن ہیں کہ بحران جانے کے لیے آئے ہیں، چلے ہی جائیں گے۔ ہمارے لئے یہ حوصلہ ہی کافی ہے کہ ہم آزاد، خودمختار اور امن کے متلاشی پاکستان میں رہتے ہیں کچھ لوگوں کو یہ اعتراض ہو سکتا ہے کہ خودمختاری والی بات درست نہیں، کچھ کا خیال ہے کہ ابھی حقیقی آزادی درکار ہے اس کے لئے جدوجہد کر کے پارلیمانی نظام کے استحکام سے قومی اداروں کو مستحکم اور خودمختار کرنا ہو گا۔ بات ’’ ففٹی ففٹی‘‘ درست کہی جا سکتی ہے۔ آئین پاکستان سب کو اپنی حدود میں رہتے ہوئے آزادی دیتا ہے لیکن حالات کار ایسے ہیں کہ قومی ادارے 1947ء سے 2023ء تک ایسے دبائو میں ہیں کہ کوئی ان کی خودمختاری پر اعتماد نہیں کرتا۔ آمریت ہو کہ جمہوریت یہی بے ڈھنگی چال ہمارا نصیب بنی ہوئی ہے مثال مشہور ہے کہ’’ جیسی قوم ویسے حکمران ‘‘ لیکن 75سالہ بحرانوں، مشکلات اور مفاد پرستی نے معاملہ الٹا کر دیا ہے ’’ جیسے حکمران اسی طرح کے عوام‘‘ سیاسی رہنما اور حکمران قوم کو’’ سبز باغ‘‘ دکھاتے نہیں تھکے۔ عوم سمجھ گئی ہے کہ ہاتھی کے دانت دکھانے کے اور کھانے کے اور ہیں اس لیے انہوں نے بھی وقت گزاری کا نسخہ اپناتے ہوئے صرف ذاتی مفادات تک سیاسی وابستگی رکھی ہے۔ نواز شریف جو ریکارڈ ہولڈر وزیراعظم تھے انہیں ’’ پانامہ‘‘ میں پھنسا کر اقامہ میں چھٹی کرا دی گئی اور کوئی سیاسی افراتفری نہ جب پیدا ہوئی اور نہ اب پیدا ہوئی کہ راز فاش ہو گیا کہ ایمپائرز کے فیصلے پر ان کا اقتدار چھینا گیا، پہلی مرتبہ پرویز مشرف نے معاہدے کے مطابق ملک سے باہر بھیج دیا، دوسری بار ’’ ناں ناں‘‘ کرتے ہوئے بھی مضبوط اور مقبول وزیراعظم عمران خان نے اجازت دے دی، کون چور ہے کون ڈاکو؟ کون درست ہے کون غلط؟ اس بات کا حقیقی فیصلہ اس لیے نہیں ہو سکا کہ حکمرانوں نے بھی صرف الزامات لگائے اور مقدمات بنائے کسی کو منطقی انجام تک نہیں پہنچایا۔ ’’ احتساب ‘‘ کا نعرہ بھی محض جھانسہ نکلا، تبدیلی بھی کسی سطح پر نہیں آسکی، پکڑے اور جکڑے جانے والے بھی چھوٹ گئے۔ اس لیے کہ جمہوری حکومت میں مصلحت پسندی کارفرما ہوتی ہے اور آمرانہ دور ہم پسند نہیں کرتے اس لیے کہ ایسے حکمران آئین اور انسانی حقوق پامال کر دیتے ہیں حالانکہ یہ کام جمہوری ادوار میں بھی ہوتا ہے لیکن جمہوریت کی ’’ عینک‘‘ ہمیں کچھ دیکھنے نہیں دیتی۔ لمحہ موجود میں تیسرے جمہوری دور کا اختتام ہوا ہے لیکن سیاسی توڑ جوڑ نے ایسا بحران پیدا کر دیا ہے کہ کسی کو مستقبل کی سمجھ نہیں آ رہی۔ ماضی کی طرح اتحادی حکومت نے 16ماہ میں اپنا اُلو سیدھا کیا۔ مقدمات نمٹائے گئے ۔ جائیدادیں واگزار کرائیں گئیں ، منجمد اکائونٹس بحال ہو گئے، عمرانی حکومت اور عمران خاں کو تنقید کا نشانہ اسی طرح بنایا گیا ہے جیسے عمران خان سابق حکمرانوں آصف علی زرداری اور نواز شریف کو بناتے تھے۔ فرق صرف اتنا رہا کہ عمران خان کو لاڈلہ قرار دیتے ہوئے جائز ناجائز انداز میں ریلف ضرور ملا لیکن فائدہ کیا ہوا، تمام تر سہولتوں اور 9مئی کے تاریخی سانحے کے بعد اٹک جیل کے مہمان بن گئے ، بحث جاری ہے کہ انصاف نہیں ملا، ریاست میں ناانصافی کا دور دورہ ہے ایسا ہو بھی کیوں نا؟ انصاف دینے والے خود اخلاقی، قانونی، آئینی اور منصبی ذمہ داری سمجھتے ہوئے بھی اپنے آپ کو آئین سے بالا بن گئے اور پھر انتشار میں دھڑے بندی ہو گئی۔ حقیقت خود یہی ہے کہ ہر محکمے، ادارے اور سطح پر ’’ اختلاف رائے‘‘ ہونا کوئی نئی بات نہیں، لیکن ایسی صور تحال میں افہام و تفہیم سے مشترکہ حل نکال لیا جاتا ہے ہم اس سلسلے میں بدقسمت ٹھہرے ۔ عزت مآب عمر عطا بندیال نے ’’ سینئر ججز‘‘ کو نظرانداز کر کے من پسندوں سے من مرضی شروع کر دی ایسے میں پارلیمنٹ جاگ گئی تو فرمان جاری ہوا کہ پارلیمنٹ قانون سازی کا حق رکھتی ہے پھر بھی اس کی تشریح، چھان پھٹک سپریم کورٹ کا کام ہے۔ اس اعلامیے کا ردعمل یہ ہوا کہ پارلیمنٹ اور عدلیہ آمنے سامنے آ گئی، اور معاملات بگڑ گئے۔ پارلیمنٹ کی پانچ سالہ مدت میں 281بل بنے، سب کے سب حکومتی معاون ہیں۔ عوامی خواہش کوئی پورا نہیں کرتے۔ ’’ پمرا‘‘ ترامیم بڑی شان و شوکت سے کی گئی لیکن پھر ورکرز کی نشاندہی پر تبدیلی کی بجائے ذمہ داروں کے اشارے پر واپس لے لی گئی۔ ’’ ریویو اینڈ ججمنٹ ایکٹ‘‘ بننے اور منظور ہونے سے پہلے ہی حکم امتناعی کا شکار ہوا اور اس پر فیصلہ محفوظ کر لیا گیا۔ پھر بھی ’’ شہباز سپیڈ‘‘ سے پارلیمنٹ کے آخری روز تک بلوں کی بھرمار رہی، پرتشدد اور انتہاپسندی کے حوالے سے بل آیا اور سینیٹ کے چیئرمین نے واپس لے لیا۔ پتہ چلا وزیر مملکت کی جانب سے پیش کیا جانے والا یہ بل پی ٹی آئی کی حکومت کا تجویز کردہ تھا جس میں سیاسی جماعتوں، رہنمائوں اور کارکنوں کی مشقیں باندھنا مقصود تھا لہٰذا سب سے پہلے تحریک انصاف نے مخالفت کی لیکن حکومتی آنکھ بھی کھل گئی اور بل داخل دفتر ہو گیا لیکن ابھی ایک متنازعہ بل ایسا ہے جس پر ملک بھر میں احتجاج جاری ہے جبکہ پارلیمنٹ کی تحلیل ہوتے ہی چیف جسٹس نے 53دنوں کا محفوظ فیصلہ سنا کر پیغام دے دیا ہے کہ ابھی میں موجود ہوں اور آنے والے دنوں میں کچھ بھی نیا ہو سکتا ہے۔ تاہم شہباز اتحادی حکومت اس بات کا کریڈٹ لیتی ہے کہ اس نے اداروں کی آزادی اور انہیں آئینی حدد د میں لانے کے لیے قانون سازی انتہائی ذمہ داری سے کی ہے۔
تصویر کا دوسرا رخ بھی ملاحظہ فرمائیں۔ سابق وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے ایوان میں اس بات کا اقرار کیا کہ حکومت نے ’’ ریاست‘‘ بچانے کے لیے سر توڑ کوشش کی، خارجہ تعلقات میں بہتری بھی لائی گئی اور ملک دیوالیہ بھی نہیں ہوا، لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہم اداروں کو آئینی حدود میں نہیں لا سکے، ناکام رہے اس کی وجوہات یقینا کچھ ظاہر ہیں کچھ پوشیدہ، پھر بھی بلاول بھٹو کا حقیقت کو تسلیم کرنا ایک اچھی روایت ہے جبکہ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی نے رخصت ہونے والے ایوان کے رکن کی حیثیت سے شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے قوم سے معافی مانگی کہ ایوان اپنے ووٹرز کی بجائے صرف اور صرف اپنے مفادات کے بل منظور کرتا رہا۔ اس تقریر دلپذیر پر انہیں شدید تنقید کا سامنا ہے اور مسلم لیگ ن کے متوالے انہیں احسان فراموش قرار دے رہے ہیں لیکن یہ بے حسی اور غیر ذمہ دارانہ روئیے کی داستان ’’ پارلیمنٹ‘‘ کی تحلیل کے بعد بھی ختم نہیں ہوئی۔ حکومتی سینیٹر عرفان صدیقی ان سے بھی آگے نکل گئے، حضرت بنیادی طور پر صحافی ہیں لہٰذا ان کی صحافیانہ صلاحیتوں نے انہیں سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف کو خط لکھنے پر مجبور کر دیا کہ انہوں نے لکھا کہ 2019ء میں انہیں گرفتار کر کے ہتھکڑی لگائی گئی، پھر خاتون اسسٹنٹ کمشنر کے سامنے پیش کر کے چودہ روز ہ ریمانڈ پر اڈیالہ جیل بھیج دیا گیا۔ میں نے آئینی تقاضوں کے مطابق عدلیہ اور انتظامیہ کو الگ کرنے کے ساتھ عدالتی اختیارات کے خاتمے کے حوالے سے سوا سو سالہ پرانے ضابطہ فوجداری میں ترمیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا جو مئی 2022ء میں متفقہ طور پر منظور بھی کر لیا گیا اور اسے 8جون 2022کو قومی اسمبلی نے بھی اسے منظور کر کے ضابطے کی کارروائی کے بعد صدر پاکستان سے رسمی توثیق کے لیے بذریعہ وزیراعظم ہائوس ایوان صدر بھیجا گیا لیکن اس دن سے آج تک یہ بل گمشدہ ہے میرے اصرار پر ایوان صدر سے ترجمان نے بتایا کہ ’’ بل‘‘ صدر مملکت تک پہنچا ہی نہیں۔ میرا مطالبہ ہے کہ پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کر کے تحلیل ہو چکی لیکن آپ اور صدر مملکت موجود ہیں لہٰذا آپ ذمہ داری پوری کرتے ہوئے سراغ لگائیں کہ ’’ بل‘‘ کہاں گیا، کس نے لاپرواہی کی؟ کم از کم کوئی کمیٹی تشکیل دے کر ذمہ داری کا تعین تو کر دیں۔ توقع کی جا رہی ہے کہ راجہ پرویز اشرف اپنی ساکھ برقرار رکھنے کے لیے اس گمشدہ بل کا سراغ ضرور لگائیں گے کیونکہ ریاست اور عوام کی امانت ہے۔ اس سے بڑی توہین پارلیمنٹ کی اور کیا ہو سکتی ہے کہ ’’ قومی اسمبلی اور سینیٹ‘‘ سے منظور شدہ ’’ بل ‘‘ غائب ہو گیا اور کسی کو اس کی فکر نہیں۔ یہ بھی عرفان صدیقی کی اپنی حکومت کا کارنامہ ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عرفان صدیقی کے خط پر سپیکر صاحب فوری ردعمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے ’’ بل‘‘ کی برآمدگی کرائیں اور اسے پارلیمنٹ کی بالا دستی اور اجتماعی مفاد میں ایک مرتبہ پھر صدر عارف علوی کی منظوری کے لیے بھجوائیں، کیسی دلچسپ صورت حال ہے کہ پارلیمنٹ قانون بنائی اور عدلیہ اس کی جو چاہے تشریح کرے بلکہ چشم زدن میں کروڑوں لوگوں کے منتخب نمائندوں کی کوششوں کو کالعدم قرار دے، سڑکوں پر جاتے لوگوں کی اچانک گمشدگی کے حالات میں بھرے ایوان سے منظور ’’ بل‘‘ بھی گم ہو جائے اور کسی کو خبر نہ ہوا کہ یہ کیسے ہوا؟ عوامی سہولت کے ’’ بل‘‘ یوں اچانک غائب ہو جائیں اور عوام الناس کے ہاتھوں میں بھاری بھرکم بجلی اور گیس کے بل تھما دئیے جائیں کیا قسمت ہے عام آدمی کی جس ’’ بل‘‘ سے انہیں سہولت ملنے کے امکانات ہوں وہ گمشدہ قرار پا جائے اور جو ’’ بل‘‘ ان کی زندگی کے لیے مصیبت ہوں وہ ہر ماہ ان کی روح قبض کرنے سامنے آ جائیں۔ ’’ آپ اور میں‘‘ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ اگر ایوان بالا کے معزز رکن، سینئر صحافی، دانشور عرفان صدقی کا ’’ بل‘‘ پارلیمنٹ سے ایوان صدر جاتے ہوئے گمشدہ ہو سکتا ہے تو پھر ’’ بندہ ناچیز‘‘ گمشدہ افراد کی فہرست میں آ جائے تو کون سی انوکھی بات ہے، اب پتہ چلا کہ گمشدہ افراد کی بازیابی کس قدر مشکل کام ہے؟؟؟

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button