ColumnRoshan Lal

تماشا اور تماشائی

روشن لعل
تماشا، کسی مقام کو خاص مناسبت سے ایسے آراستہ کرنے کا نام ہے جس سے لوگوں کی بڑی تعداد اس کی طرف متوجہ ہو جائے۔ اس طرح کی آراستگی کو تماشا کے علاوہ ناٹک، کھیل، سوانگ، تفریح اور مجمع جیسے نام بھی دیئے جاتے ہیں۔ جو لوگ کسی تماشا کی طرف متوجہ ہو کر اس کا نظارہ کرتے ہیں انہیں تماشائی، نظر باز، ناظر، کھیل دیکھنے والے اور صاحب نظر کہا جاتا ہے۔ برصغیر میں تماشے لگنے کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے۔ قدیم تماشوں نے ارتقائی مراحل طے کرتے ہوئے جب اپنی شکلیں تبدیل کرنا شروع کیں تو انہیں ان کی تبدیل شدہ خاص ہیئت اور صفات کی وجہ سے خاص نام دیئے گئے ۔ وقت گزرنے کے ساتھ مختلف تماشوں کی تماشائیوں کے ساتھ نسبت کیونکہ جوں کی توں رہی اس لیے ان کا کوئی اور خاص نام ہونے کے باوجود انہیں تماشا بھی کہا گیا۔ ہر مقبول تماشے کی یہ خاصیت ہوتی ہے کہ اس کے خاص تماشائی اس کے ساتھ خاص بندھن میں بندھ جاتے ہیں۔ تماشے اور تماشائیوں میں یہ جڑت قائم کرنے کے لیے تماشا دکھانے والے کا کردار بہت اہم ہوتا ہے۔ تماشے اور تماشائیوں میں جڑت قائم کرنے کے لیے بعض اوقات تماشا دکھانے والا کچھ ایسا کر گزرتا ہے کہ وہ خود بھی تماشا بن جاتا ہے۔ تماشا دکھانے والے اکثر اپنی اوور ایکٹنگ کی وجہ سے تماشا بنتے ہیں مگر بعض اوقات پست درجہ کی کارکردگی بھی انہیں تماشا بنا دیتی ہے۔ ضرورت سے زیادہ یا کم کارکردگی کا مظاہرہ کرنے پر کسی تماشا دکھانے والے کا تماشا بننے کا امکان تو ہر وقت موجود ہوتا مگر بعض اوقات کچھ ایسے تماشائی بھی تماشا بن جاتے ہیں جو تماشے اور تماشا دکھانے والے کے ساتھ جذباتی وابستگی قائم کر لیتے ہیں۔
تماشا دکھانے والوں اور تماشائیوں کے تماشا بننے کے واقعات تو اکثر رونما ہوتے رہتے ہیں مگر تماشے آراستہ کرنے والے ظاہری اور پس پردہ لوگ بہت کم تماشا بنتے ہیں۔ جس طرح تماشا دکھانے والے یا تماشائی اس وقت تماشا بنتے ہیں جب وہ اپنی حدود سے تجاوز کرتے ہیں، ویسے ہی تماشے آراستہ کرنے والوں کے تماشا بننے کی نوبت بھی حد سے زیادہ کچھ کرنے کی صورت میں آتی ہے۔ تماشا بننے والوں کا ذکر کرنے کے بعد ضروری ہو گیا ہے کہ ایسا ہونے کی کوئی مثال بھی پیش کردی جائے۔ ایسا ہونے کی ایک فرضی مثال یہ ہے کہ اگر ہاکی کا کھیل روایتی ہاکیوں اور گیند کے ساتھ کھیلا جارہا ہو تو کھلاڑیوں ، انہیں کھلانے والوں اور دیکھنے والوں میں سے کسی کے بھی تماشا بننے کا کوئی امکان نہیں ہوگا۔ ایسا ہونے کی بجائے اگر ہاکی کا کوئی کھلاڑی ہاکی سٹک کی بجائے کرکٹ بیٹ سے ہاکی کھیلنا شروع کر دے تو اس کا تماشا بننا یقینی ہوجائے گا۔ اس ہاکی کے کھلاڑی کو خاص رعایتیں دیتے ہوئے اگر نہ صرف کھیل کی انتظامیہ اور میچ ریفری اس کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے کرکٹ بیٹ کو نظر انداز کر دیں بلکہ تماشائی بھی ناچتے ہوئے یہ نعرے لگائیں کہ ہمارا پسندیدہ کھلاڑی کیونکہ ہمارے لیے شیر ببر ہے اس لیے یہ اس کی مرضی ہے کہ وہ ہاکی سٹک کے ساتھ کھیلے یا پھر بیٹ سے ، تو ایسا ہونے پر اس کھلاڑی سمیت، انتظامیہ، میچ ریفری اور تماشائیوں کو تاریخ میں تماشا بننے سے کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ بیان کی گئی فرضی مثال کس کھلاڑی، کس انتظامیہ، کن ریفریوں اور کن تماشائیوں کی طرف اشارہ ہے۔ جو کوئی بھی یہاں ان دنوں تماشا بنا ہوا ہے وہ کسی پوشیدہ نہیں ہے۔ تماشا بننے والے اگر سب کے سامنے ہیں تو ان سے وابستہ یہ حقیقت بھی عیاں ہے کہ کہاں کہاں انہوں نے اپنی حدود سے تجاوز کیا۔ یہ بات کوئی راز نہیں کہ حدود سے تجاوز کرنے والوں نے خود کو کس حد تک الگ، منفرد اور ماورا قسم کی مخلوق سمجھنا شروع کر دیا تھا۔ ایسا سمجھتے ہوئے ہی انہوں نے اپنے لیے یہ بھی طے کر لیا تھا کہ ان کی رسی لامتناہی حد تک اتنی دراز ہے کہ کوئی بھی انہیں گرفت میں نہیں لے سکے گا۔ ان کا اپنی رسی دراز ہونے کا تصور کس قدر ناپائیدار ثابت ہوا یہ بات سب کے سامنے ہے۔ افسوس اس بات پر ہے کہ خود کو ناقابل گرفت سمجھنے والوں نے نہ تو خود تماشا بننے پر کچھ سیکھا ہے نہ ہی ان کی اس حالت سے کسی دوسرے نے کوئی سبق حاصل کیا۔
دوسروں کے تماشا بننے سے کوئی سبق حاصل نہ کرنے والوں میں اب پاکستان کرکٹ بورڈ کی موجودہ انتظامیہ نے بھی خود کو شامل کر لیا ہے۔ تاریخ میں درج کسی کا نام حذف کرنا تاریخ میں گند ڈالنے کے مترادف ہے۔ تاریخ میں گند ڈالنے والا چاہے جو کوئی بھی اس کا تاریخ میں تماشا بننا پھر طے ہوجاتا ہے ۔ موجودہ کرکٹ بورڈ نے ایشیا کرکٹ کپ اور ورلڈ کرکٹ کپ کے انعقاد سے قبل پاکستان کی ون ڈے کرکٹ میں کارکردگی پر مشتمل جو مختصر سی ویڈیو جاری کی اس میں 1992کا ورلڈ کپ جیتنے والی ٹیم کو عمران خان کی جھلک کے بغیر دکھاکر خود کو تماشا بنا لیا ہے ۔ جس کسی کے بھی مشورے سے یہ ہوا ، صاف ظاہر ہے کہ اسے میڈیا مینجمنٹ کی الف ب کا بھی علم نہیں ہے۔ ایسے لوگوں سے کوئی بھی کام کروانا بذات خود کسی تماشے سے کم نہیں ہے۔ اگر کہیں سے کوئی ہدایات جاری بھی ہوئی تھیں تو پھر خاص حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے بہتر ہوتا کہ صرف موجودہ پاکستانی ٹیم کی کارکردگی کو ہی ویڈیو کا حصہ بنایا جاتا اور اگر ون ڈے کرکٹ کی تاریخ دکھانا ضروری تھا تو پھر اس میں سے عمران خان کا نام حذف کر کے وہی نتیجہ برآمد ہونا تھا جو پی سی بی اور اس کی انتظامیہ کے تماشا بننے کی صورت میں ظاہر ہو ا۔
کچھ دوستوں کی اطلاع کے مطابق کرکٹ بورڈ نے خود کو تماشا بنانے والی حرکت عمران خان کے ساتھ کسی ذاتی پرخاش کی وجہ سے نہیں بلکہ ریاستی ادارہ ہونے کے ناطے ریاست کی اس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے کی ہے جس کے تحت 9مئی کے واقعات کے ضمن میں عمران خان کا میڈیا بلیک آئوٹ کیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ پی سی بی نے جس پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عمران خان کو اپنی تازہ ویڈیو میں دکھانے سے گریز کیا اسی پالیسی پر عمل کرتے ہوئے عمران حکومت کے دوران میاں نواز شریف کا بھی میڈیا بلیک آئوٹ کیا گیا تھا۔ جس طرح عمران خان کے ورکروں کا عسکری اداروں پر حملہ ان کے لیڈر کے ریاست کی طرف سے میڈیا بلیک آئوٹ کا باعث بنا اسی طرح میاں نوازشریف کی طرف سے پی ڈی ایم کے گوجرانوالہ جلسہ کے دوران کچھ عسکری شخصیات کا نام لیا جانا ان پر لگائی گئی میڈیا پابندیوں کی وجہ بنا تھا۔ نہ تو عمران خان کے دور حکومت میں میاں نوازشریف پر میڈیا پابندیاں عائد کرنے کی پالیسی درست تھی اور نہ ہی اس پالیسی کے تسلسل میں عمران خان کا نام پاکستان کی ون ڈے ہسٹری سے حذف کرنا صحیح ہے۔ آج جو لوگ عمران خان کا نام حذف ہونے پر سراپا احتجاج ہیں انہیں چاہیے کہ پہلے اپنی اس خاموشی پر معذرت کریں جو انہوں نے نوازشریف پر میڈیا پابندیاں عائد ہونے پر اختیار کئے رکھی۔ ایسا نہ کرنے پر انہیں اور ان کے حالیہ احتجاج کو صرف تماشا ہی سمجھا جائے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button