ColumnImtiaz Ahmad Shad

طنز و مزاح

امتیاز احمد شاد
16 اگست پوری دنیا میں بلخصوص یورپی ممالک میں طنز و مزاح کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے، جیسے یکم اپریل کو اپریل فول کے طور پر اہل یورپ مناتے ہیں۔ اس دن ہر وہ عمل کیا جاتا ہے جس سے دوسرے کی تذلیل کر کے خود کو تسکین یا خوشی ملتی ہو۔ بد قسمتی سے یہ لت ہمارے معاشرے کو بھی پڑ چکی ہے۔ جس کی ایک جھلک ہمارے سیاستدانوں کے رویوں میں بخوبی دیکھی جاسکتی ہے۔ ہر شخص اپنے سیاسی مخالف کو کمتر ظاہر کرنے کے لئے طنز و مزاح کے زہر آلود تیر مارتا ہے تاکہ معاشرے میں اس کا مقام کم کر سکے اور خود کو معتبر ثابت کر سکے، اور یہی حال ہمیں معاشرے میں عزیز و اقارب اور دوست احباب کے رویوں میں نظر آتا ہے۔ افسوس بطور قوم ہم ہر روز کسی نہ کسی پیارے کی دل آزاری کا سبب بنتے ہیں۔ بقول مولانا روم’’ تلوار کا زخم مٹ جاتا ہے مگر الفاظ کا زخم کبھی نہیں مٹتا‘‘۔ طنز و مزاح انسانی زندگی کا ایک حصہ ہے اور انسانی زندگی میں اس کی بڑی اہمیت بھی ہے، عام طور پر اسی کو ہم مذاق بھی کہتے ہیں۔ انسان کچھ خوش گوار لمحات گزارنا چاہتا ہے تاکہ اس کے ذہن کا بوجھ کم ہو، ہنسی خوشی میں وہ اپنے ذہنی کرب و غم اور دماغی بوجھ کو کم کر لیتا ہے، اس سے بڑھ کر طنز و مزاح کا اور کوئی فائدہ نہیں ہے، بسا اوقات مذاق مذاق ہی میں بہت سے مسائل حل ہوجاتے ہیں اور بسا اوقات یہی مذاق بھاری پڑ جاتا ہے، ہر چیز کے حدود ہوتے ہیں جب تک بات حد میں رہے تو بہتر ہے اور جب بات حد سے باہر نکل جائے تو انسان اور قوم کے لئے باعث مصیبت بن جاتی ہے ۔ اہل علم نے طنز و مزاح کے کچھ اصول بیان کئے ہیں ان اصولوں کا پاس و لحاظ رکھنا ہر ایک مسلمان کے لئے ضروری ہے، مزاح اگر تھوڑی مقدار میں ہو تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، دین کے حدود میں رہتے ہوئے، حق اور اعتدال سے کام لیتے ہوئے دوسروں کو خوش کیا جا سکتا ہے، زیادہ مزاح یقینا مذاق میں تبدیل ہو جاتا ہے جو دلوں پر گراں گزرتا ہے اور دل آزاری کا باعث بنتا ہے مزاح میں مسخرہ پن، فحش کلامی، گستاخی یا استہزاء کا عنصر نہیں ہونا چاہئے، اسی طرح کسی کی نقل اتارنا، اس پر ہنسنا یا شرمندہ کرنا بھی مقصود نہ ہو، ایسا مزاح جو سچ پر مبنی ہو لیکن اس میں ایذاء رسانی کا خطرہ ہو تو وہ بھی جائز نہ ہوگا۔ جیسا کہ حدیث شریف میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’ کسی مسلمان کے برے ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کی تحقیر کر ے ہر مسلمان پر دوسرے مسلمان کی جان و مال اور عزت و آبرو کو حرام کر دیا گیا ہے‘‘ ( مسلم:2564) ۔ ہنسی مذاق سے متعلق علامہ یوسف القرضاوی کہتے ہیں: ’’ ہنسنا ایک انسانی خصلت ہے اور عین فطری عمل ہے یہی وجہ ہے کہ انسان ہنستے ہیں اور جانور نہیں ہنستے، کیونکہ ہنسی اس وقت آتی ہے جب ہنسی کی بات سمجھ میں آتی ہے اور ظاہر ہے کہ یہ سمجھداری جانور میں نہیں ہوتی۔ چونکہ اسلام دین فطرت ہے اس لئے اسلام کے سلسلے میں یہ تصور محال ہے کہ وہ ہنسنے ہنسانے کے فطری عمل پر روک لگائے گا، بلکہ اس کے بر عکس اسلام ہر اس عمل کو خوش آمدید کہتا ہے جو زندگی ہشاش بشاش بنا نے میں مدد گار ثابت ہو اسلام یہ پسند کرتا ہے کہ اس کے پیروکار کی شخصیت بارونق، ہشاش بشاش اور تروتازہ ہو، مرجھائی ہوئی، بے رونق نہ ہو کیونکہ پرمردہ شخصیت اسلام کی نظر میں ناپسندیدہ ہے۔ اسلامی شخصیت کا نمونہ دیکھنا ہوتو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بہتر نمونہ اور کیا ہوسکتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کامطالعہ کرنے والا بخوبی جانتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گوں ناگوں دعوتی مسائل اور اس راہ میں پیش آنے والی مشکلات کے باوجود ہمیشہ مسکراتے اور خوش رہتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹوں پر مسکراہٹ رہتی تھی، اپنے ساتھیوں کے ساتھ بالکل فطری انداز میں زندگی گزارتے تھے اور ان کے ساتھ ان کی خوشی، کھیل اور ہنسی مزاح کی باتوں میں شرکت فرماتے تھے، ٹھیک اسی طرح جس طرح ان کے غموں اور پریشانیوں میں شریک رہتے تھے‘‘۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام کے ساتھ کبھی کبھی مزاح کیا کرتے تھے لیکن آپ نے کبھی کسی کا استہزا نہیں کیا۔ دین اسلام میں کسی بھی سبب مذاق و استہزا کی ممانعت بیان کی گئی ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ اے ایمان والو! مرد دوسرے مرد کا مذاق نہ اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں، اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگائو، اور نہ کسی کو برے لقب دو ایمان کے بعد فسق برا نام ہے، اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں‘‘ ( الحجرات:11)۔ مذاق و استہزا در اصل یہود و مشرکین و نصاری کی عادات میں سے ہیں جو اہل ایمان اور اسلامی احکام کا مذاق و استہزا کیا کرتے تھے، جیسا کہ ابو جہل نے واقعہ معراج کا مذاق اڑایا تھا، جن لوگوں نے مسخرے پن کا پیشہ بنا لیا ہے وہ لوگ بھی کہیں نہ کہیں غیر محسوس انداز میں مذاہب اور ان کے احکام و عمل کا استہزا کرتے رہتے ہیں چاہے یہ مسخرے مسلمان ہوں کہ غیر مسلم؟۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ بہت سے مسلمان مسخرے ہیں جو علما کی شخصیت اور ان کے لباس کرتہ پائجامہ، ٹوپی، داڑھی، نمازیوں، جنت کی حوروں وغیرہ کا مذاق اڑاتے ہیں اسی طرح بعض اسلامی احکام جیسے نکاح، طلاق، اذان وغیرہ کا بھی مذاق اڑاتے ہیں، در اصل یہ یہودیت و کفر ہے۔ ہنسی مذاق و مسخرہ پن میں بہت جھوٹ بولا جاتا ہے جھوٹ اسلام میں سختی کے ساتھ ممنوع ہے، مسخرے قسم کے لوگ جھوٹ بہت بولتے ہیں اس ضمن میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ جو شخص مذاق میں بھی جھوٹ بولنا چھوڑ دے میں اس کے لئے جنت کے وسط میں ایک گھر کی ضمانت لیتا ہوں‘‘ ( ابوداود) اسی طرح کی ایک حدیث مبارکہ میں جھوٹ بول کر ہنسانے والوں کے حق میں وعید سنائی گئی ہے کہ رسول اللہ صلی علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’ جو شخص لوگوں کو ہنسانے کے لئے جھوٹ بولتا ہے اس کا برا ہو‘‘ ( ابوداود) گویا اس حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسخروں کے حق میں بد دعا دی ہے۔ جس کسی مسلمان نے ازراہ مذاق کسی کی دل آزاری کی ہو یا کسی انسان کا استہزا کیا یا مسخرہ پن کا پیشہ اختیار کیا ہو ایسے مسلمان کو چاہئے کہ وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ سے مغفرت کی دعا کرتا رہے، حضرت ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے: ’’ اے اللہ میرے لئے میرے گناہ بخش دے، جو میں نے جہالت کی وجہ سے کئے، جو میں نے حد سے تجاوز کیا اور جن گناہوں کو تو مجھ سے زیادہ جانتا ہے، اے اللہ! جو میں نے سنجیدگی میں کئے جو مذاق میں کئے، جو نادانستہ طور پر کئے اور جو جہالت کی وجہ سے کئے میرے سارے گناہ بخش دے‘‘ ( مسند احمد:5639)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button