Column

جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا 35واں یوم شہادت

محمد اعجاز الحق
صدر جنرل محمد ضیاء الحق اور شہدائے بہاولپور کا آج35 واں یوم شہادت ہے، یہ ساڑھے تین عشروں کا وقت کیسے گزرا اور کس کرب سے ہم دوچار رہے ہیں، یہ المیہ سانحہ سے بڑھ کر ہے کہ آج بھی ہم اور شہید صدر کے لاکھوں چاہنے والے ان حقائق کی تلاش میں ہے جو صدر جنرل محمد ضیاء الحق کے طیارے C۔130کے حادثے کا سبب بنے، اس حادثے کو اگر پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کے قتل سے تشبیہ دی جائے تو غلط نہیں ہوگا، ہر سال 17اگست کو جب بھی شہید صدر کے چاہنے والوں سے ملاقات ہوتی ہے کہ تو مجھے ان کے یہی الفاظ سننے کو ملتے ہیں کہ یہ حادثہ دراصل پاکستان کے حقیقی ریاستی مفادات کے محافظ کا قتل نہیں بلکہ ریاستی مفادات کو گہری منصوبہ بندی کے ذریعے ایک مکروہ سازش کو کامیاب بنایا گیا تھا، پاکستان کی پاکیزہ سرزمین ایک روز ضرور یہ راز اگلے گی اور حقائق آشکار ہوجائیں گے ابھی شہید صدر کے چاہنے والوں کے ضبط کا امتحان ختم نہیں ہوا، صدر جنرل محمد ضیاء الحق، پاک فوج کے سربراہ رہے ہیں، جنہیں ملک کے دگرگوں ہوتے ہوئے غیر معمولی حالات میں ملک کا نظم و نسق سنبھالنا پڑا تھا، جب وہ اقتدار میں آئے تو اس وقت سانحہ ڈھاکہ کو ہوئے بمشکل چھ سال ہی ہوئے تھے اور دنیائے اسلام کی سب سے بڑی سلطنت دو لخت ہوئی تھی اور پاکستان کو نقصان پہنچانے کی مکروہ منصوبہ بندی بس یہی پر ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہمارے پڑوس میں افغانستان کے بگڑتے ہوئے حالات اس بات کی نشان دیہی کر رہے تھے کہ مکروہ سازش کے ڈانڈے پاک سرزمین کی دہلیز پر آن پہنچے ہیں اور حکومت وقت کو اس بات کی کوئی پرواہ ہی نہیں تھی بلکہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بات چیت کا عمل بے مقصد انداز میں طول دیتی چلی جارہی تھی ان حالات میں انہیں اپنے رفقاء کار کے مشورے پر اپنی بیرک سے نکل پر اسلام آباد آنا پڑا۔ پاکستان کے کونے کونے سے بھٹو حکومت کے ستائے ہوئے عوام نے انہیں ایک نجات دہندہ کے طور پر قبول کیا ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے دور میں جب ایک جانب پاکستان پر بھارت کا دبائو تھا، افغانستان میں روس موجود تھا، ملک میں افغان مہاجرین کی لاکھوں کی تعداد میں آمد تھی اور بھٹو حکومت کے خلاف پاکستان قومی اتحاد کی احتجاجی تحریک کے باعث آئینی اور حکومتی مشینری کے کل پرزے ڈھیلے ہوچکے تھے، اس کے باوجود انہوں نے جب نظم و نسق سنبھالا تو ملک میں امن و امان کی صورت حال اور مہنگائی، حکومتی مشینری کے کام کرنے کی وجہ سے درست ہونا شروع ہوگئی، چند ماہ کے بعد ملک میں عوام نے سکھ کا سانس لینا شروع کر دیا تھا ، ایسا امن قائم ہوا ملک بھر میں پر امن بلدیاتی انتخابات کرائے گئے اور کسی بھی امیدوار کو اس کے سیاسی نظریات اور وابستگی کے باعث نااہل نہیں کیا، ان کے دور میں نظام صلوۃ اور نظام زکوٰۃ نافذ کیا گیا، ان کی خوبی یہ تھی کہ وہ ہر روز راولپنڈی، اسلام آباد سمیت ملک کے تمام اہم بڑے شہروں، قصبوں تک کے حالات سے براہ راست واقفیت رکھنے اور معلومات لینے کے لیے انتظامی مشینری کے علاوہ عام آدمی تک کی سطح پر رابطے کیا کرتے تھے، اسی لیے ان کا دور لاقانونیت اور افراتفری سے پاک رہا، جنہوں نے بھٹو صاحب کا دور نہیں دیکھا، وہ جنرل ضیاء الحق کے ملک دوست اقدامات سے آشنائی کے لیے تاریخ کا مطالعہ ضرور کریں اور اس کے بعد اپنی رائے بنائیں، ان کا دور واقعی ایک مثالی دور تھ، یہ صورت حال پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچانے والوں کے لیے بھلا کہاں قابل قبول ہوسکتی تھی لہذا انہوں نے مسلسل کوشش کی انہیں راستے سے ہٹایا جائے، ان کے اقدار کے دوران بھی غالباً دو چار بار ان پر قاتلانہ حملے ہوئے اور اللہ کے فضل سے محفوظ رہے لیکن17اگست 1988کو یہ مکروہ سازش کامیاب ہوگئی اور صدر جنرل محمد ضیاء الحق اپنے انتیس ساتھیوں سمیت طیارے کے حادثے میں شہید ہوگئے، تاریخی حقائق یہ ہیں کہ 1979ء میں افغانستان پر روسی جارحیت نے پاکستان کی سلامتی اور اس کے مستقبل کے لیے ایک بڑا خطرہ پیدا کر دیا تھا، جنرل ضیاء الحق نے جولائی 1977ء میں چیف مارشل لا ایڈمنسٹریٹر کے طور پر اقتدار سنبھالا تو روسی جارحیت کے باعث پاکستان کے لیے انتہائی تشویش نا ک حالات تھے بھارت پاکستان میں سازش میں مصروف تھا کہ پاکستان کو کیسے نقصان پہنچایا جائے، روسی جارحیت کے خلاف افغانستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں افغانوں کا ساتھ دے کر جنرل ضیاء الحق نے بھارت کے سارے خواب چکنا چور کر دئیے پاکستان کے نظریاتی مفادات کے حقیقی دفاع کے لیے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی خدمات کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ شہید صدر نے بطور فوجی سپہ سالار، ایک منجھے ہوئے سیاست دان، مدبر اور انسان دوست مسلمان سربراہ کی حیثیت سے افغان جنگ کے مسلم دنیا پر اثرات کا مقدمہ نہایت کامیابی سے لڑا اور انمٹ نقوش چھوڑے ہیں جب کہ بھارت کی خواہش تھی کہ پاکستان مالی اور سیاسی طور پر غیر مستحکم ہوتا چلا جائے لیکن جنرل ضیاء الحق شہید نے مضبوط دفاع کے لیے پاکستان ایٹمی قوت کو معراج تک پہنچایا1979ء میں جب اشتراکی افواج نے افغانستان میں جارحیت کی اور افغان عوام پر چڑھ دوڑیں تو جنرل ضیاء الحق کی سربراہی میں پاکستان کی عسکری قیادت نے بہت سوچ سمجھ کر یہ تاریخ ساز فیصلہ کیا کہ پاکستان کو افغان عوام کی تحریک آزادی میں مدد کرنی چاہیے۔ جنرل ضیاء الحق مرحوم نے اپنے کمانڈروں کے ساتھ مل کر جو پالیسی مرتب کی اس میں ہر لحاظ سے ملک کا وطن عزیز کے حقیقی مفادات کا تحفظ یقینی بنایا گیا اور پوری مسلم دنیا کو اپنا ہمنوا بنایا، مسلم دنیا کی سفارتی اور اخلاقی، سیاسی طاقت کو بہترین توازن کے ساتھ استعمال کیا اور پاکستان نے اپنے معاملہ فہم زیرک اور حرب و ضرب کے ماہر سپہ سالار جنرل ضیاء الحق کی قیادت میں اپنے ایٹمی پروگرام کو رفتہ رفتہ آگے بڑھایا۔ یہ وہ وقت تھا جب عالمی اُفق پر جنرل محمد ضیائ الحق کی قیادت کا چرچا تھا اور امریکہ سمیت نہ صرف مغربی ممالک بلکہ اُمت مسلمہ کے تقریباً سبھی عرب حکمراں بھی پاکستان کے دم ساز اور ہم نوا تھے۔ ایسے میں کسی نے بھارت کی آہ و بکا، واویلے اور شور شرابے پر کان نہ دھرے۔ بھارت روتا پیٹتا اور شور مچاتا رہا جبکہ جنرل ضیاء الحق اپنے دھیمے لہجے اور پروقار انداز میں پاکستان کے جوہری پروگرام کو آگے بڑھاتے رہے، صدر ضیاء الحق نے جس ہمت، جواں مردی اور حکمت عملی سے کئی برسوں تک روسی جارحیت کا مقابلہ کیا یہ ایک طرح سے کابل کا نہیں اسلام آباد کا دفاع تھا۔ اگر خدانخواستہ روس ’’ کابل‘‘ کو فتح کر لیتا تو آج پاکستان کا نقشہ کچھ اور ہوتا۔ آزادی کیلئے قیامِ پاکستان کے وقت بھی قربانیاں دی گئی تھیں اور آج بھی محب وطن پاکستانی اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر رہے ہیں۔ انہی محب وطن سرفروشوں میں17اگست 1988ء کو سازش کا شکار ہونیوالے C۔130طیارے کے وہ سب سوار اور سالار بھی ہیں جنہوں نے اپنے دل رنگ لہو سے ارضِ پاکستان کی آب یاری کی۔
خدا رحمت کند این عاشقانِ پاک طینت را
ان کے قریبی رفقاء کار اور ہم خیال ساتھیوں کو جن میں جنرل اختر عبدالرحمن بھی شامل تھے، ایک گہری سازش کے ذریعے پہلے سے طے شدہ فضائی حادثے میں شہید کر دیا گیا۔ پاکستان کی تاریخ میں اتنی بڑی عسکری قیادت کو منظر سے ہٹا دینا بہت بڑا قومی سانحہ تھا جنرل اختر عبدالرحمان کو بھی اس طیارے میں ایک سازش کے تحت ہی سوار کرایا گیا تھا یہ سب کچھ ملٹری کے قواعد و ضوابط کے خلاف عمل تھا کیونکہ اتنی بڑی تعداد میں جرنیلوں کا ایک ساتھ ایک ہی جہاز میں سوار ہونا خلاف ضابطہ تھا۔ امریکی ترجمان ولسن صدر محمد ضیاء الحق کو اپنے قومی ہیرو اور عظیم شخصیات میں شمار کرتا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ جنرل محمد ضیاء الحق اب تک دنیا میں پیدا ہونے والے انسانوں میں بہادر ترین انسان تھے۔ جنرل محمد ضیاء الحق نے روس کے شدید اور بے انتہا دبائو کی مزاحمت کی جو روس نے افغان مجاہدین کا ساتھ چھوڑنے کے لیے اُن پر ڈالا گیا۔ اُنہوں نے روسی ریچھ کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اس حدتک مقابلہ کیا کہ اُس روسی ریچھ کو آنکھ جھپکنا پڑی۔ سی آئی اے کا مشہور تجزیہ کار بروس ریڈل (Bruce Reidell)لکھتا ہے کہ سوویت یونین کو شکست دینے کے لیے سی آئی اے کا ایک بھی افسر افغانستان میں نہیں گیا۔ سی آئی اے نے کسی کو بھی وہاں تربیت نہیں دی اور نہ ہی سی آئی اے کا کوئی اہلکار افغانستان میں زخمی ہوا یا اس جنگ میں مارا گیا تھا۔ نہ کوئی جانی نقصان ہوا تھا کیونکہ ہم نے خطرہ مول ہی نہیں لیا تھا۔ وہ لکھتا ہے کہ سویت یونین کے خلاف یہ جنگ صرف مجاہدین کی جنگ نہیں تھی۔ نہ یہ صرف مجاہدین کی جنگ تھی نہ یہ سی آئی اے کی جنگ تھی۔ یہ صرف ایک آدمی کی جنگ تھی اور اُس آدمی کا نام محمد ضیاء الحق تھا، بروس ریڈل (Bruce Reidell)لکھتا ہے کہ سوویت یونین نے ایک اور تباہ کن فیصلہ کیا اُس نے جنگ جیتنے کے لیے ایک لاکھ فوجیوں کو اس کے برعکس رکھا ۔ ضیاء الحق وہ رہنما جنہوں نے1980کی دہائی میں اس جنگ کے بارے میں جو بھی فیصلہ کیا وہ فیصلہ کن فیصلہ تھا اُس نے مجاہدین کو اسلحہ فراہم کرنے کا فیصلہ کیا۔ انہیں منظم کیا جنرل ضیاء الحق نے ہی فیصلہ کیا کہ کس وقت جنگ میںا سٹنگر مزائل کا استعمال کریں گے۔ آپ کے خیال میں کیا یہ جنگ چارلی ولسن کی جنگ تھی؟ ایسا نہیں تھا۔ بلکہ یہ صرف اور صرف ضیاء الحق کی جنگ تھی، مجاہدین اور افغان عوام جنرل ضیاء الحق کے اس قدر عقیدت مند اور احسان مند تھے کہ اُن میں اس سطح کی خوش اعتمادی تھی کہ وہ برملا کہتے تھے کہ ضیاء الحق اکثر و بیشتر ہمارے ساتھ میدانِ جنگ کے اگلے مورچوں میں بنفسِ نفیس موجود ہوتا تھا۔ جب جنیوا سمجھوتے کے بعد کسی اخبار نویس نے جنرل ضیاء الحق سے استفسار کیاکہ اب جبکہ روسی فوجیوں کی واپسی اور افغانستان کی آزادی چند ہی دنوں کی بات ہے تو آپ کی سب سے بڑی خواہش کیا ہے۔ جس کا جواب جنرل صاحب نے یہ دیا کہ میری اس وقت سب سے بڑی خواہش ہے کہ میں پل چرخی کی جامع مسجد میں دو رکعت نفل شکرانہ ادا کروں لیکن شہادت نی اُن کو کہ مہلت نہ دی، افغانوں کے ساتھ محبت کا جو رشتہ جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے بڑی محنت سے استوار کیا تھا اُسے بھارت اپنی ریشہ دوانیوں سے کبھی ختم نہیں کر سکتا۔ افغانستان میں بالادستی کا بھارتی خواب کبھی شرمندہ تعبیر نہیں ہوگا۔ افغان جہاد کو روس اور امریکہ کی جنگ قرار دینے والے حقائق آشنا نہیں۔ یہ دفاع پاکستان کی ایک ایسی جنگ تھی جس میں پاک فوج کا ایک جوان بھی شہید نہیں ہوا لیکن افغان جنگ کی فتح کا سہرا پاکستان کے سر سجا۔ جنرل ضیاء الحق کی شہادت پر انہیں مجاہدین نے ’’ شہید ِ جہادِ افغانستان‘‘ کا خطاب عطا کیا۔ افغان جہاد نے خالصتان کی تحریک کو بھی جلا بخشی۔ آج کشمیری عوام کی بے بسی دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے، حالانکہ جنرل محمد ضیاء الحق کی کشمیر پالیسی نے بھارت کو اندرونی خلفشار میں اتنا الجھا دیا تھا کہ تحریک آزادی کشمیر کا سورج طلوع ہوا ہی چاہتا تھا۔ جہاد افغانستان اور جہادِ کشمیر سے جنرل محمد ضیاء الحق شہید کی وابستگی کا یہ عالم تھا کہ کئی بار خود میدانِ جہاد میں پہنچ جاتے۔ ملک کو ایٹمی قوت بنانے میں جنرل محمد ضیاء الحق کا کردار بھی کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ وہ پاکستان کو ناقابلِ تسخیر بنانے کیلئے بے چین رہتے تھے۔ انہی کی کاوشوں کے باعث 3مارچ 1983میں کیران، سرگودھا کے پہاڑی سلسلے میں ایٹمی صلاحیت کے کولڈ ٹیسٹ کا کامیاب تجربہ ہوا۔ پھر انہی خطوط پر چلتے ہوئے1998ء میں ایٹمی تجربات کئے گئے۔ بہت کم لوگوں کو علم ہوگا کہ چاغی بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں بڑی جان فشانی سے تعمیر کی گئی سرنگ 1983ء میں مکمل کر لی گئی تھی، تاہم بوجوہ فیصلہ موخر کر دیا گیا۔ یہ ایٹمی میدان میں ہماری بتدریج کامیابیوں کا ہی ثمر تھا کہ صدر جنرل ضیاء الحق شہید نے بھارتی سرزمین پر کھڑے ہوکر راجیو گاندھی کو وہ تاریخی کلمات کہے تھے جسے سن کر راجیو گاندھی سمیت بھارتی سورمائوں کے پسینے چھوٹ گئے اور بھارتی افواج دوسرے ہی دن ہماری سرحدوں سے دور بھاگتی نظر آئیں۔جنرل محمد ضیاء الحق شہید نے مسئلہ کشمیر کو ہر عالمی فورم اور ہر سطح پر پوری جرات اور شدت کے ساتھ اجاگر کیا۔ بھارت کے خلاف ان کی جارحانہ پالیسی کے نتیجہ میں کشمیری مجاہدین نے آزادی کا علم بلند کیا۔ آج جموں و کشمیر میں جرات و بہادری کی داستان رقم کرنے والے مجاہدین و غازیوں میں بیشتر جنرل محمد ضیاء الحق کو اپنا ہیرو مانتے ہیں۔ بزرگ حریت رہنما سید علی گیلانی نے بھارت کے بارے میں جن خدشات کا اظہار کیا تھا جنرل ضیاء الحق شہید نے اس وقت انہیں بہت اہمیت دی تھی، قائداعظمؒ نے جموں و کشمیر کو پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا۔ یہ ناممکن ہے کہ ہماری شہ رگ دشمن کے قبضہ میں رہے اور ہم زندہ رہ سکیں۔ یہ وقت کشمیر بارے میں صرف بیانات اور سفارتی حمایت کا اعادہ کرنے کا نہیں بلکہ ہمیں اپنے کشمیری بھائیوں کو باور کرانا ہو گا کہ ہم ان کے شانہ بشانہ ہیں اور ہمیشہ رہیں گے۔ ادغامِ کشمیر کی موجودہ بھارتی کوشش نے نہ صرف علاقائی بلکہ عالمی امن کو بھی شدید خطرات سے دو چار کر دیا ہے۔ بین الاقوامی قوتوں کو اس شدید خطرے کی سنگینی کا احساس کرتے ہوئے فوری اور موثر کارروائی سے صورتحال کو سنبھالا دیا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button