Ali HassanColumn

نگران وزیر اعظم کی تقرری

علی حسن
بلوچستان سے تعلق رکھنے والے سینیٹر انوار الحق کاکڑ کو پاکستان کا آٹھواں نگران اعظم تعینات کر دیا گیا ہے۔ انہوں نے جشن آزادی کے روز اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ انوار الحق کاکڑ کا تعلق بلوچستان کے پشتونوں کے کاکڑ قبیلے سے ہے۔ ان کے والد احتشام الحق کاکڑ نے اپنی کیریئر کا آغاز بطور تحصیلدار شروع کیا تھا جس کے بعد وہ مختلف سرکاری عہدوں پر فائز رہے۔ انوار قانون کی تعلیم حاصل کرنے لندن گئے تھے جہاں انہوں نے منی کیب چلا کر اپنے اخراجات پورے کئے تھے لیکن تعلیم مکمل کئے بغیر وہ پاکستان واپس آگئے تھے ۔ انہوں نے سیاست کا آغاز مسلم لیگ سے کیا۔ سنہ 1999میں نواز لیگ کی حکومت کے خاتمے کے بعد انہوں نے ق لیگ میں شمولیت اختیار کی اور انہوں نے ق لیگ کی ٹکٹ پر 2002 میں کوئٹہ سے قومی اسمبلی کی نشست سے انتخاب لڑا لیکن وہ کامیاب نہیں ہو سکے تھے۔ جب 2013 کے عام انتخابات میں بلوچستان میں نواز لیگ اور قوم پرست جماعتوں کی مخلوط حکومت قائم ہوئی تو انوار کاکڑ سابق وزیراعلیٰ سردارثناء اللہ زہری کی حکومت میں حکومت بلوچستان کے ترجمان رہے۔ نواز لیگ میں 2018میں توڑ پھوڑ کے بعد بلوچستان عوامی پارٹی کے نام سے جماعت بنائی گئی تو انوار الحق کاکڑ نہ صرف اس کا حصہ بنے بلکہ ان کا شمار بلوچستان عوامی پارٹی کے بانیوں میں ہوتا ہے۔ بلوچستان میں شورش اور عسکریت پسندی میں تیز رفتاری کے بعد جس صورتحال نے جنم لیا اس میں انوار کاکڑ ریاستی بیانیے کی بھرپور وکالت کرتے رہے ہیں ۔ وہ 2018ء میں بلوچستان عوامی پارٹی سے سینیٹر منتخب ہوئے۔
بلوچستان جہاں قبائل کے با اثر سرداروں کے ہاتھوں میں سیاست کی باگ ڈور سمجھی جاتی ہے، بلوچستان عوامی پارٹی کے قیام کے بعد وہ ڈور سرداروں کے ہاتھوں سے نکل رہی ہے۔ بلوچستان میں سالوں سے موجود سازش اور تیز رفتار عسکریت پسندی نے ملک کے مقتدر حلقوں کو تشویش میں مبتلا کیا ہوا ہے۔ عوامی پارٹی کے قیام کے بعد سینٹ کا سربراہ صادق سنجرانی بھی اچانک سامنے لائے گئے تھے اور سیاست دانوں کو اچنبھے کا شکار کر دیا گیا تھا اسی طرح جیسے نگران وزیر اعظم کی تقرری ہوئی۔ حال ہی میں ختم ہونے والی وفاقی حکومت کے قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف نگران وزیر اعظم کے ناموں پر ’’ بو جھو تو جانے ‘‘ کھیل رہے تھے کہ قائد احزاب اختلاف راجہ ریاض نے اپنی مٹھی کھول کر اس میں رکھی ہوئی پرچی قائد ایوان شہباز شریف کو دکھائی تو انہوں نے اسے من و عن تسلیم کر لیا۔ سب کچھ اتنی تیز رفتاری سے ہوا کہ سیاست دان ہاتھ ملتے ہی رہ گئے اور سوچتے رہے کہ ان کے ساتھ یہ کیا ہو گیا۔ سیاست داں تو درجنوں سابق اعلیٰ سرکاری ملازمین ، سابق ججوں، معروف ریٹائرڈ سیاست دانوں کے ناموں پر بحث ہی کرتے رہ گئے۔
بلوچستان کے سیاسی رہنما بلوچستان نیشنل پارٹی کے سر براہ اختر منگل نے جو پی ڈی ایم کی اتحادی حکومت کا حصہ تھے، شدید تنقیدی خط نواز شریف کو ارسال کیا ہے جس میں انہوں نے دیگر باتوں کے علاوہ کہا ’’ اہم فیصلوں میں اتحادیوں کو اعتماد میں نہ لینا بد اعتمادی کو دوام بخشے گا، نگراں وزیراعظم کے لیے ایسے شخص کی نامزدگی کی جس سے ہمارے لیے سیاست کے دروازے بند کر دئیے گئے، آپ کے اس طرح کے فیصلوں نے ہم اور آپ میں مزید دوریاں پیدا کر دیں۔ اس کا الزام کسی پر ڈالنے کے بجائے ہم اپنی شومی قسمت کو ہی ٹھہرائیں تو بہتر ہوگا، وہی بلوچستان وہی جبری گمشدگیاں، سیاسی حل کے بجائے بندوق سے مسئلے کے حل کی کوشش، سیاستدانوں کے بجائے اسٹیبلشمنٹ کی طرف آس لگانا یا ان کی مشاورت سے مسئلے کا حل تلاش کرنا ہے۔ میاں صاحب، ہم پر جو گزری یا گزر رہی ہے وہ ہماری قسمت لیکن حیرانگی اس بات سے ہے جو آپ لوگوں پر گزری اس سے ابھی تک سبق نہیں سیکھا‘‘۔
سابق وفاقی وزیر سید خورشید احمد شاہ نے کہا ہے کہ ’’ انوار الحق کاکڑ کا نام جہاں سے بھی نام آیا، ہمیں امید اچھے کی رکھنی چاہئے۔ پیپلز پارٹی نے کمیٹی کے ساتھ ملکر پانچ نام دیئے تھے، کمیٹی نے سلیم عباس، جلیل عباس، محمد مالک خیبرپختونخوا سے افضل خان کا نام دیا تھا۔ انتخابات میں تاخیر کے خدشات تو پہلے دن سے ہیں جب نگران حکومت کے اختیارات میں اضافے کا بل منظور ہوا تھا۔ انوار الحق کاکڑ کا نام سینیٹ سے لیا گیا ہے، ہماری توجہ اس طرح نہیں تھی، ہمیں علم نہیں تھا کہ انوار الحق کاکڑ کا نام آئیگا، بہتر ہوتا کہ ہم کسی اور شخص کا انتخاب کرتے‘‘۔ پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے بھی اس تقرری پر حیرانگی کا اظہار کیا تھا لیکن بعد میں انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ نگران وزیراعظم کے نام پر پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات کی خبر غلط ہے۔ پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت نے پارٹی رہنمائوں کو نگراں وزیر اعظم کی نامزدگی کے حوالے سے بیان بازی سے روک دیا جبکہ خورشید شاہ نے اپنے بیان کے حوالے سے پارٹی قیادت کو وضاحت پیش کردی ہے۔ قیادت نے نگران وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی نامزدگی پر پارٹی کے سینئر رہنما خورشید شاہ کے بیان پر برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اس پر وضاحت طلب کی تھی۔ تمام رہنمائوں کو ہدایت کی گئی ہے کہ نگراں وزیر اعظم کے تقرر کے حوالے سے کسی طرح کی بیان بازی نہ کریں۔ یہ کم و پیش وہ ہی صورت حال ہے جب سینیٹ کے چیئرمین کے عہدے کے لئے پیپلز پارٹی نے اپنے اراکین سینیٹ کو بلوچستان کے تجربہ کار سیاست داں حاصل بزنجو کے مقابلہ پر صادق سنجرانی کو ووٹ دینے کی ہدایت کی تھی جس پر میاں رضا ربانی نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ انہوں نے دل پر پتھر رکھ کر ہدایت پر عمل کیا ہے اور کہا کہ ان کے آنسو نکل آئے تھے۔
ایک اخبار میں ایک کالم میں لکھا گیا ہے کہ ’’ آخر کار سابق سیکریٹری خارجہ جلیل عباس جیلانی کو نگران وزیراعظم بنانے کا فیصلہ ہوا۔ جہاں بلا کر بات چیت کی جاتی ہے وہاں ان کا غیر رسمی انٹرویو ہوگیا، ان کی رہائش گاہ پر سکیورٹی کے انتظامات کر دیئے گئے، انہوں نے مبارکبادیں وصول کرنا شروع کر دیں لیکن شاید یہ سب کچھ بلف گیم کا حصہ تھا۔ موقع آنے پر جادوگر کی طرح ہیٹ سے بلوچستان کارڈ نکال لیا گیا اور یہ کہا جانے لگا کہ نگران وزیراعظم چھوٹے صوبے سے ہونا چاہئے۔ سینیٹر انوار الحق کاکڑ کے بارے میں یہ گفتگو ہورہی ہے کہ وہ محمد خان جونیجو اور ظفر اللہ جمالی بنیں گے یا پھر صادق سنجرانی ثابت ہوں گے۔ مجھے دوستی کا دعویٰ تو نہیں البتہ ان سے برسوں پرانی شناسائی تب سے ہے جب وہ بلوچستان حکومت کے ترجمان ہوا کرتے تھے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان بذات خود کہا کرتے تھے کہ کاکڑ صاحب ’’ کسی اور‘‘ کے ترجمان ہیں۔ انوار الحق کاکڑ کے ایک جملے نے مجھے بہت متاثر کیا کہ بلوچستان کو لاشیں تو رقبے کے حساب سے ملتی ہیں مگر وسائل آبادی کے تناسب سے۔ ان کی قابلیت اور صلاحیت پر ہرگز کوئی دو رائے نہیں مگر جنہوں نے انہیں سیاست میں متعارف کروایا اور اب نگران وزیراعظم بنوایا، وہ ان سے ایمان کی حد تک وفادار ہیں۔ لہٰذا میری دانست میں معاملات سیاستدانوں کے ہاتھ سے نکل چکے ہیں۔ اسے کاکڑ فارمولا 2سمجھا جائے کیونکہ یہ نگران وزیراعظم صرف 3ماہ کے لئے نہیں لائے گئے، منصوبہ بہت طویل اور خطرناک ہے‘‘۔
اگر کاکڑ صاحب کی تقرری حیران کن ہے تو ان کے نام کے اعلان کے فوری بعد ہی سوشل میڈیا پر خبر آگئی ۔ ’’ نگراں وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کے خلاف 2021ء میں نیب کی تحقیقات کا انکشاف ہوا ہے ۔ نیب نے 25 فروری 2021ء کو سیکریٹری محکمہ سوشل ویلفیئر بلوچستان کو ایک مراسلہ ارسال کیا تھا جس میں کہا تھا کہ نیب مالی بے قاعدگیوں اور کرپٹ سرگرمیوں کے خلاف برسرپیکار ہے اس ضمن میں انہیں گزارش کی جاتی ہے کہ سینیٹر انوارالحق کاکڑ کی جانب سے رجسٹر کرائی گئی این جی او وائس آف بلوچستان کی تفصیلات فراہم کی جائیں ۔ مراسلہ میں کہا گیا تھا کہ سعدیہ رحمت اللہ بنت رحمت اللہ اور محمد نورالحق ولد انوارالحق کے خلاف بھی تفصیلات فراہم کی جائیں کہ ان دونوں کا اس این جی او سے کیا تعلق ہے اور انہوں نے اس این جی او سے کیا فوائد حاصل کئے ۔ بتایا جاتا ہے کہ انوار الحق کاکڑ کی این جی او وائس آف بلوچستان نے بھاری امداد حاصل کی مگر اس امداد کا قانون کے مطابق استعمال نہیں کیا اور اس امداد میں مالی بے قاعدگیوں کی اطلاع پر نیب نے تحقیقات شروع کی تاہم ابھی تک نیب نے انکوائری ختم نہیں کی اور نہ ہی انوار الحق کاکڑ کے خلاف کوئی نیب ریفرنس دائر کیا گیا ہے ان کے خلاف تحقیقات جاری ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button