ColumnJabaar Ch

اللہ۔۔۔۔ پاکستان

جبار چودھری
جنگ اچھائی اور برائی میں ہوتی تو میرے جیسا برے سے برے حالات میں بھی پرامید رہنے والایہ گمان رکھنے میں حق بجانب تھا کہ کبھی نہ کبھی اچھائی کی جیت ہو ہی جائے گی۔ جنگ اگر نیکی اور بدی میں ہوتی تو نیکی کے غالب آنے کی توقع بدرجہ اتم موجود تھی۔ جنگ اگر امن اور بد امنی میں ہوتی تو امن کی جیت کی توقع کی جاسکتی تھی۔ جنگ اگر محبت اور نفرت میں ہوتی تو محبت کے میدان مارنے کے امکانات ہر حال میں روشن دیکھے جاسکتے تھے لیکن کیا کریں یہاں تو جنگ ہی نفرتوں کے درمیان ہے۔ اچھی سے اچھا نتیجہ بھی نکلے گا تو نتیجہ نفرت ہی ہوگا یا کم یا زیادہ نفرت ہوسکتی ہے۔ نفرت تو بہرحال نفرت ہی ہے اچھی تو ہو نہیں سکتی۔ یہاں صرف نفرتوں کے بیج بوئے اور نفرتوں کا پھل کاٹ کر اسے جیت کا نام دے لیا جاتاہے، مختلف تاولیں کرکے خود کو اور اس نفرت کی جنگ میں ساتھ دینے والوں کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن اگر وہی جنگ دوسرا جیت لے تو اس سے بڑا معرکہ بپا کرنے کی تدبیریں کی جاتی ہیں۔ آڈیوز کے دھندے کے بعد اب بشریٰ بیگم کی کوئی ڈائری نکال لی گئی ہے کہ دیکھیں وہ کیسے عمران خان کو کنٹرول کرتی تھیں۔ کمال ہے بھئی اب بیوی اپنے شوہر کو مشورہ دے تو اس کو کنٹرول کرنا کہا جاسکتا ہے؟ اگر ایسا ہے تو دنیا کا ہر مرد اپنی اہلیہ سے کنٹرول ہوتا ہے اور اس میں کوئی بھی کسی کو بھی استثنیٰ نہیں ۔
پاکستان میں اسلامی معاشرہ قائم ہے، یہ ملک اسلام کے نام پر بنا ہے، اسلام کے لیے بنا ہے اسلام کا قلعہ ہے یہ۔ ایسے نعرے صبح شام گونجتے ہیں۔ قائد اعظمؒ اس ملک کو اسلامی فلاحی ریاست بنانا چاہتے تھے۔ ہاں قائد اعظمؒ اس ملک کو فلاحی ریاست بنانا چاہتے ہوں گے اسی لیے ان کو ایسے اس دنیا سے رخصت کیا گیا کہ ان کی ایمبولیس پٹرول نہ ہونے پر بروقت ہسپتال ہی نہ پہنچ سکی۔ اور یہاں انہوں نے آخری دنوں میں قیام کیا اس کو ایسے جلایا گیا کہ اس راکھ میں نفرتوں کے الاو جلتے دیکھے جاسکتے تھے۔ جس قائد نے یہ معاشرہ بنانے کا جرم کیا اس کی ایک ایک نشانی کو مٹانے کیلئے پوری رات محنت کی گئی، اور تو اور ان مناظر کو پوری طرح فلمایا اور ریلیز کیا گیا کہ سب لوگ دیکھ لیں اسلامی معاشرے کا خواب ایسے شرمندہ تعبیر کیا جاتاہے۔
اسلام آفاقی دین ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ بھی، لیکن مسلمانوں کی تاریخ تو ایسی ہی ہے، نفرتوں سے بھرپور، محلاتی سازشوں سے اٹی ہوئی، قدم قدم پر دھوکہ دہی اور نفرتوں کی عمارتیں بنی پڑی ہیں۔ سلطنت بنو امیہ کا ذکر ہو یا برصغیر کے مغلوں کی بادشاہت، شہنشاہوں کے سر شہنشاہوں اور شہزادے شہزادوں کے ہاتھوں قتل ہوتے رہے۔ عدم برداشت اور سب کچھ بڑھ کر چھین لینے کی روش نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا۔ ہماری پستی کا یہ عروج کہ جب بھی کسی اچھائی کی مثال دینا ہوتو 14 سو سال کی تاریخ چھوٹی پر جاتی ہے اور مغربی معاشرے ہمارے لیے مشعل راہ بنے نظر آتے ہیں۔
عدم برداشت نے اس ملک پاکستان کی بنیادیں اس قدر ہلاکر رکھ دی ہیں کہ ہمیں دوسرے مسلک، نظریات اور سیاسی رائے سے اختلاف کرنے والا شخص زہر لگتاہے۔ ہم عجب مخلوق بن گئے ہیں کہ جو زبان اللہ نے بات کرنے کے لیے عطا کی ہے اس کا استعمال کرنے کے ہی روادار نہیں ہوتے ہم زبان کے بجائے ہاتھ سے بات کرنے میں یدطولیٰ حاصل کر چکے اور ہاتھ سے بھی آگے بندوق کا دھانا بولتا ہے۔ کوئی اس بات کا عزم لے کر سوتا ہے کہ کل جو شیعہ ملے گا اس کو قتل کر کے صحابہ کرامؓ کے دفاع کا حق ادا کردوں گا اور کوئی اس تاک میں رہتا ہے کہ معاذاللہ حضرت علیؓ کو پہلا خلیفہ نہ قبول کرنے والے کو زندہ چھوڑ دیا تو یوم محشر کہیں کافروں سے نہ اٹھایا جائوں۔ کل شمس الرحمان معاویہ قتل ہوتا ہے تو آج ناصر عباس پر زندگی تنگ ہونا ضروری ہے۔ صبح مولانا علی اکبر کمیلی کا جنازہ اٹھتا ہے تو شام کو مولانا مسعود کی زندگی کا چراغ گل کرنا فرض بن جاتا ہے۔ کیا یہ سب کچھ عدم برداشت کے علاوہ بھی کچھ ہے؟۔
جس قائدؒ کو اس کی قوم نے مطلب نکل جانے پر چلتا کیا معلوم ہے وہ کیسا پاکستان چاہتے تھے؟ جب آپ زیارت ریزیڈنسی میں قیام پذیر تھے تو صحت اتنی خراب ہوئی کہ آپ نے کھانا پینا انتہائی کم کر دیا، ڈاکٹر نے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو مشورہ دیا کہ قائدؒ کو کھانے کی طرف راغب کرنے کے لیے ان کا پسندیدہ کھانا بنایا جائے، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے بتایا کہ بمبئی میں ایک باورچی تھا جس کے ہاتھ کا کھانا قائدؒ بہت شوق سے کھاتے تھے، وہ باورچی اب لائلپور ( موجودہ فیصل آباد) میں ہے۔ وہ اگر آجائے تو مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔ انتظامیہ کو حکم ہوا اوپر سے نیچے تک مشینری حرکت میں آئی اور باورچی زیارت پہنچا دیا گیا، باورچی نے کھانا پکایا، جو قائدؒ کو پسند آیا، پوچھا کس نے پکایا؟، محترمہ فاطمہ جناحؒ نے فرمایا آپ کے بمبئی والے خانساماں نے، پوچھا وہ یہاں کیسے پہنچا؟، تو انہیں سارا قصہ سنایا گیا۔ یہ سب سن کر قائدؒ سخت ناراض ہوئے اور فرمایا کہ میری ذات کے لیے سرکاری ذرائع اور مشینری کیوں استعمال کی گئی، اس باورچی کا یہاں آنے تک کا سارا خرچہ میری جیب سے ادا کیا جائے اور میری ناراضی ان تک پہنچا دی جائے، جنہوں نے سرکاری خرچ سے یہ کام کیا۔ سوچیں جس جناحؒ نے ہمیں یہ ملک دیا اس کا کردار کیسا بڑا، سُچا اور کھرا تھا کہ اپنی ذات کے لیے ایک سرکاری خانساماں بھی برداشت نہیں اور یہاں ہر سرکاری دفتر میں کئی کئی خانسامے؟۔ وزیراعظم ہائوس، ایوان صدر اور گورنر ہائوس میں کیا سماں ہے؟ کتنے کتنے رنگوں کے پکوان بنتے ہیں؟ کس کس ملک کو کوزین یہاں بناکر ہڑپ نہیں کرلیا جاتا؟ ہمارے حکمران یہ سب اسی قائد کی تصویر کے نیچے یہ کام کرتے ہیں جنہوں نے اپنی زندگی کی پروا نہ کی اور سرکار کے خرچے پر آیا خانساماں واپس بھیج دیا؟۔
ویسے تو بھائی کی دیکھ بھال عظیم بہن محترمہ فاطمہ جناحؒ ہی کرتی تھیں لیکن آخری ایام میں آپ کی تیمارداری کے لیے محترمہ فاطمہ جناحؒ کے ساتھ ایک نرس کو متعین کر دیا گیا۔ ایک دن نرس نے آپ کا بخار چیک کیا تو قائدؒ نے نرس سے پوچھا کہ کتنا بخار ہے۔ نرس نے کہا کہ ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر وہ نہیں بتا سکتی۔ قائد اعظمؒ دل ہی دل میں خوش ہوئے کہ اس نرس نے گورنر جنرل پاکستان کے سامنے میں بھی قانون کی پیروی کی ہے۔ کیا ہمارا کردار کہیں سے بھی اس سے میچ کھاتا ہے؟، آج ہم 14 اگست کو یوم آزادی منا رہے ہیں لیکن ہمیں اس آزادی کی قیمت کا اندازہ ہے؟ جس نے ہمیں یہ آزادی کی نعمت دی کیا اس کے کردار کی یہاں کوئی جگہ بچی ہے؟۔
11ستمبر کو جب ماری پور کے ہوائی اڈے سے آپ کو ایمبولینس کے ذریعے گورنر جنرل ہائوس لایا جا رہا تھا تو صرف چار پانچ کلومیٹر بعد ایمبولینس بند ہوگئی اور فاطمہ جناح کو بتایاگیا کہ پٹرول ختم ہوگیا ہے دوسری ایمبولینس آئے گی تو پہنچا جاسکے گا۔ دوسری ایمبولینس ڈیڑھ گھنٹے بعد آئی اور قائدؒ کو ان کی رہائشگاہ پہنچایا گیا۔ جب آپ وہاں پہنچے تو ساتھ آئے ڈاکٹر آرام کرنے ہوٹل چلے گئے۔9بجے شب محترمہ فاطمہ جناحؒ نے ڈاکٹروں کو فون پر اطلاع دی کہ کمزوری بہت ہوگئی ہے بے قراری میں اضافہ ہوگیا آپ فوری چلے آئیں۔ قائد اعظمؒ کے یہ آخری لمحات تھے ڈاکٹر آگئے کئی ٹیکے لگائے گئے لیکن آپ جانبر نہ ہوئے۔ چند منٹ بعد دل ڈوبنے لگا اور سانس رکنے لگی بے ہوشی کے عالم میں آپ کے منہ سے نکلا۔۔ اللہ۔۔۔۔۔ پاکستان۔۔!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button