Column

قائد اعظم محمد علی جناحؒ اور پاک بحریہ

زبیر اعظم
دنیا میں بہت کم رہنما اور قائد ایسے گزرے ہیں جن میں مستقبل کے حالات کو اچھے طریقے سے جانچنے اور اس کے حوالے سے تیاری رکھنے کی صلاحیت موجود ہو۔ بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح ؒ میں یہ دونوں ہی خوبیاں موجود تھیں۔ انہوں نے نہ صرف انگریزوں اور کانگریس سے آزادی حاصل کی بلکہ وہ اس بات سے بھی بخوبی واقف تھے کہ ایک نئے ملک کو کیا مسائل در پیش آسکتے ہیں۔ یورپ میں رہتے ہوئے بھی قائداعظم محمد علی جناحؒ نے پہلی جنگِ عظیم اور اس کو روکنے کے لئے دوسرے ملکوں کی ناکامی کی وجوہات کا بغور جائزہ لیا۔
23 جنوری1948ء کو نو تشکیل کردہ پاک بحریہ کے افسران سے پی این ایس دلاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظم ؒنے خبردار کر دیا کہ پاکستان مشکل حالات میں دوسرے ممالک سے مدد اور تعاون کی توقع نہ رکھے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ پاکستان کو تمام واقعات اور خطرات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ اس دنیا میں ہم کمزور اور دفاعی صلاحیت سے محروم ہوگئے تو دوسرے ممالک کو جارحیت کی دعوت دیں گے۔ امن قائم رکھنے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ جو ہمیں کمزور سمجھتے ہیں اور اس بنا پر ہمیں دبا سکتے ہیں، ان کے دلوں سے یہ گمان نکال دیا جائے‘‘۔
نو آموز پاکستان کی جغرافیائی اہمیت اور پاکستان کے دشمنوں کو مدِنظر رکھتے ہوئے قائدؒ نے جان لیا تھا کہ پاکستان کو مضبوط مسلح افواج کی اشد ضرورت ہے۔ انہوںنے ملکی بحری سرحدوں کی حفاظت اور مستقبل میں اس نئے ملک کی معیشت کی نگہبانی کے لیے پاکستان بحریہ کو سب سے اہم سمجھا۔ 23جنوری1948 ء کو قائداعظم ؒنے پاکستان کی بحری افواج کے افسران سے خطاب کیا اور صحت کمزور ہونے کے باوجود اپنے تاریخی خطاب سے ماحول میں جوش و خروش بڑھا دیا۔ پاک بحریہ کے حوالے سے ان کے خطاب کے کچھ اہم نکات درج ذیل ہیں۔
’’ پاکستان ایک نو آموز مملکت ِخداداد ہے۔ اس کی بحریہ اور مسلح افواج بھی نئی ہیں۔ پاکستان کے نئے ہونے کا مطلب ہے ’’ ترقی کرنا ‘‘ اور خدا کی رحمت اور مدد سے ہم جلد ہی لوگوں کی توقعات سے کہیں زیادہ ترقی کر لیں گے۔ تعداد میں کم ہونے کے باوجود ہماری افواج کمزور نہیں۔ ان کے حوصلے، جذبے اور عزائم بہت بلند ہیں ۔ پوری دنیا کی نظریں آپ پر ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ اپنے رویے اور طرز ِعمل سے آپ پاکستان کو کبھی جھکنے نہیں دیں گے اور دیگر عظیم قوموں کی طرح بہترین روایات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ملک کی عزت و وقار بلند کریں گے۔‘‘
قائد اعظم ؒ کے یہ الفاظ پاک بحریہ کے لیے ہر مشکل وقت میں حوصلہ افزائی اور رہنمائی کا باعث بنے ہیں ۔ پاک بحریہ کے افسران اور جوان قائداعظم کی تلقین پر عمل پیرا ہیں۔ قیامِ پاکستان کے ابتدائی دور میں قائد اعظم ؒ کے کردار اور ان کے خطاب نے پاک بحریہ کے افسران کو احساس دلایا کہ قیامِ پاکستان کے ابتدائی سالوں میں وہ جو کریں گے وہ پاکستان کی بقا کے لئے ضروری ہوگا۔ وہ اس بات سے بخوبی واقف تھے کہ پاکستان کے دشمن بھارت سے پاکستان کی بحری سرحدوں کو محفوظ رکھنے کے لئے پاک بحریہ ہی ملک کے تحفظ اور خوشحالی کی ضمانت ہے۔
پاک بحریہ کے پاس ابتداء میں محدود وسائل تھے ، 1947ء سے اب تک پاک بحریہ نے بہت ترقی کی ہے۔ مقابلہ بہت سخت تھا مگر قائداعظمؒ کی امیدوں کی عکاس ایک چھوٹی فورس میں جذبے، ہمت، عزم اور جیتنے کی خواہش نے پاک بحریہ کو اتنا مضبوط بنایا کہ اس کا شمار دنیا کی بہترین بحری افواج میں ہونے لگا ہے۔
ابتدائی سالوں میں بحری فوج کے ہر فرد نے انتھک محنت، جذبے اور کوشش سے پاک بحریہ کی ترقی میں اہم کردار ادا کر کے قائد کے خواب کی عملی تعبیر حاصل کر لی۔ اس وقت سمندری حدود میں اضافہ، دہشتگردی، سمگلنگ، قزاقی، سمندری اور زمینی سکیورٹی اور شپنگ لینز کی سیکورٹی جیسے تمام فرائض و چیلنجز کو پاک بحریہ بہ طریقِ احسن سر انجام دے رہی ہے۔ اور عہد حاضر کی ضروریات کے مطابق پاک بحریہ کو جدید دفاعی اور حربی صلاحیتوں سے لیس کرنے میں مصروفِ عمل ہے کیونکہ ہم جانتے ہیں کہ وسائل محدود ہیں اور دشمن کی عددی طاقت بہت زیادہ ہے مگر ہمارا جذبہ ایمانی اور قائد کا ہم پر یقین ہمارے حوصلے پست نہیں ہونے دیتا اور پاک بحریہ ہر مشکل گھڑی میں دفاعِ وطن کیلئے تیار ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button