ColumnTajamul Hussain Hashmi

سیاست الجھ گئی

تجمل حسین ہاشمی
سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو دیکھی، جس میں ایک عالم دین، ایک عالمہ صاحبہ کا دوسری شادی کے فضائل سے متعلق واقعہ بیان کر رہا تھا۔ عالمہ صاحبہ نے اپنا بیان ختم کیا تو ایک عورت کھڑی ہوئی اور بات کرنے کی اجازت چاہی۔ عالمہ صاحبہ نے کہا کہ آپ بات کریں، عورت نے پوچھا کہ کیا آپ واقعی دوسری شادی کے حق میں ہیں، جواب ملا’’ جی بالکل دوسری شادی کے حق میں ہوں‘‘۔ عورت نے کہا کہ میں آپ کے شوہر کی دوسری بیوی ہوں۔ عالمہ صاحبہ فورا دھرم سے نیچے گری اور بے ہوش ہو گئی۔ ہمارے ہاں سیاسی جماعت کا منشور ملک و قوم کی خدمات اور ترقی ہے، کیا ان 76سال میں اس قوم کی حالت بدل گئی ؟ وہی منصوبے جو ایوب خان کے دور میں قائم ہوئے، آج تک سہارا بنے ہوئے ہیں ، زرعی انقلاب سے لے کر صنعتی انقلاب تک کا دور تھا۔ پھر ایک جمہوری دور آیا جس میں حکومتوں کو وقت سے پہلے گھر بھیجنے کا سلسلہ شروع ہوا اور ابھی تک جاری ہے۔ سابق حکومت کو گھر بھیجا گیا، سلیکٹڈ، مہنگائی اور لا قانونیت کی وجہ سے تحریک عدم اعتماد سے حکومت ختم کر دی گئی، 16ماہ گزارنے کے بعد اتحادی حکومت اپنے اختتام کو پہنچی، لیکن اب پی ڈی ایم کے اتحادیوں کو وقت پر الیکشن نہ ہونے کی تشویش کھائے جا رہی ہے، جن بنیادوں، نعروں پر سابق حکومت کو چلاتا کیا تھا، عوام ماضی سے زیادہ مشکلات میں گھیر چکی ہے۔ جنہوں نے 15سال صوبوں میں حکومتیں کیں اور وفاق میں بھی تین، تین دفعہ تخت کے مزہ لے چکے ہیں، آمریت والوں نے بھی عوامی مفاد میں 30سال سے ملک کی کمان اپنے پاس رکھی لیکن چلو ایک بات تو مثبت رہی کہ آمریت والے موروثی سیاست سے دور رہے۔ چند روز پہلے پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے اپنے والد اور میاں نواز شریف سے درخواست کی کہ ایسے فیصلے لیں جس سے ان کو اور مریم نواز کو سیاست کرنے میں آسانی پیدا ہو، سوال یہ ہے کہ کیا صرف دو ہی لیڈروں کے بچے ہیں، حکمرانی جن کا حق ہے؟۔ ماضی پر بات نہیں کرنا چاہتا لیکن ماضی سے کسی نے نہیں سیکھا۔ میاں نواز شریف کی زندگی کے حوالے سے کتاب پڑھنے کا موقع ملا جس میں میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ پاکستان میں اسٹیبلشمنٹ کا ایک خاص کردار رہا ہے، نا چاہتے ہوئے بھی موجود رہا ہے، کوئی سیاست دان یہ نہیں کہ سکتا کہ اس کا اسٹیبلشمنٹ سے کوئی تعلق نہیں ہے، اسٹیبلشمنٹ کی پیدا وار کا لفظ کہا جائے تو شاید کوئی بھی پاکستان میں اس سے مبرا نہیں ہو سکتا۔ اس لیے دیکھنا یہ چاہئے کہ اس شخص کا وقت آنے پر انفرادی طور پر کردار کیا رہا ہے ؟ اس سے آپ اس انسان کا اندازہ لگائیں کہ اس کا کیا کردار ہے۔ 2018میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آئی، اپوزیشن کی طرف سے سلیکٹڈ کے نعرے لگائے جانے لگے، سابق وزیر اعظم نے بھی دونوں جماعتوں کی طرز پر وہی کیا جو وہ چاہتے تھے، پاکستان تحریک انصاف نے بھی اپوزیشن کو ہر موقع پر نشانے پر رکھا، عوامی مفاد کے فیصلوں پر کوئی پلاننگ نہیں کی، لیکن انجام لوگوں کو برداشت کرنا پڑا، سیاسی فیصلوں کو بنیاد بنا کر عوام کو اتنا گرم کر دیا گیا جس کا ملک متحمل نہیں تھا۔ ملک میں جس کردار کی میاں صاحب بات کر رہے ہیں وہ کسی سیاسی لیڈر کی طرف سے نظر نہیں آیا، اتحادی حکومت 16ماہ گزار کر گئی ہے، مہنگائی کا ایک طوفان اور لاقانونیت انتہا پر رہی، جو کہ ابھی تک جاری ہے، اس کے بعد اب لگے ہاتھ تمام سیاست دانوں کو تسلیم کر لینا چاہئے کہ وہ عوامی تحفظ اور عدل و انصاف فراہم کرنے میں ناکام ہو چکے ہیں، ایک عرصے سے یہ سنایا جاتا رہا کہ سیاسی مفاہمت کی ضرورت ہے۔ سب کو مل کر فیصلے کرنے ہوں گے ، 16ماہ تمام جماعتیں حکومت کا حصہ رہیں، مفاہمت زندہ رہی، طاقتور زندہ رہے، پامال وہ لوگ ہوئے جن کے پاس روٹی اور روزگار نہیں رہا، نگران وزیر اعظم کے انتخاب پر پیپلز پارٹی تھوڑی اداس نظر آتی ہے، چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کی طرف سے جاری بیان بھی اہمیت طلب تھا، سندھ میں نگران وزیر اعلیٰ کے انتخاب پر بھی اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھا رہا، اس وقت پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کو وقت پر الیکشن کی فکر پڑ گئی ہے، لیکن مولانا فضل الرحمان خاموش ہیں، پر امید معاشرہ کے لئے اس بجٹ میں اقدامات کئے گئے ہیں، اگر حقیقی معنوں میں ان اقدامات پر عمل کیا گیا تو یقینا معاشرہ میں مہنگائی، بے روزگاری سے نجات ممکن ہو گی، جس کردار کی میاں صاحب بات کر رہے ہیں، اسٹیبلشمنٹ نے سیاست دانوں کو کھڑا کیا لیکن سوال پھر وہی کھڑا ہے کہ جمہوری حکومتوں نے ملکی معیشت کے لیے کیا اقدامات کئے ہیں، جس سے معاشرہ امن کا گہوارہ بن جاتا، اداروں کو ساتھ ملا کر ملک کی بہتری کے فیصلے کرنا سیاسی جماعتوں کا کام ہے، جس میں وہ ناکام نظر آتی ہیں، ناکامی کے بعد میں اداروں پر تیر برسائے جاتے ہیں۔ یہ سلسلہ بھی بند ہو جانا چاہئے۔ توشہ خانہ کی رپورٹ پڑھیں تو سب کے کردار واضح ہیں، ایک ارب پتی، وقت کا وزیر اعظم جب ایک دو کروڑ کی چیزوں پر ہاتھ صاف کر لے جو کہ ریاست کی امانت ہے تو پھر با کردار کوئی نہیں بچتا، توشہ خانہ کا مال لینے والے کہتے ہیں کہ قانون کے مطابق عمل کیا، لیکن ان 75سال میں کسی نے با کردار بننے کی جسارت نہیں کی، مظلوم اور بے روزگار قوم کو جمہوریت کی کیا سمجھ، وہ تو صرف گلی پکی، پانی گیس، بچے کی نوکری اور بچوں کے لیے سکول کی تعمیر کے وعدے پر اپنا ووٹ ڈالے دیتے ہیں، ان کو کیا پتہ کہ توشہ خانہ، پانامہ جیسے سکینڈل کیا ہوتے ہیں، شعور کا تعلیم کیا تعلق ہے، شعور غلط اور درست کی سمجھ کا نام ہے، چاروں سمت جب کرپشن بے ایمانی، معاشی عدم مساوات ہو تو پھر شعور بھی کمزور پڑھ جاتا ہے، حکمران صبح شام جب جھوٹے وعدے کریں گے، طاقتور کے لیے قانون سازی کریں گے تو پھر نا امیدی ہی جنم لیتی ہے، اتحادی کیوں خوفزدہ ہیں ، ہر سو وقت پر الیکشن کروانے کی رٹ لگا رہے ہیں، لیکن جمعرات روزانہ نہیں ہوتی، جس نے جو بویا ہے اس کا کاٹنا ہو گا کیوں پاکستان کی بنیاد کلمہ ہے، یقین کے ساتھ کہ ملک سلامت اور زندہ باد رہے گا، لیکن اس وقت سیاسی لوگوں مشکل میں تو ہیں، ان کو تخت کی فکر ہے، لیکن اس سے زیادہ مشکل میں وہ لوگ ہیں جو لوگوں کو یہ بات سمجھنے کی کوشش میں ہیں کہ ملکی حالات بہتر ہو جائیں گے، تھوڑا وقت لگے گا، یا ہمیں خود کو بہتر کرنا ہو گا، میں سمجھتا ہوں کہ اس وقت سب سے زیادہ مشکل میں وہ افراد ہیں جو اس سوچ مالک ہیں۔ ہم نے تو خاموشی اختیار کر لی، کوئی کسی کو نہیں سمجھا سکتا، ہر کسی کے پاس درجن بھر سوالات اور جوابات موجود ہیں، بہتر یہی ہے کہ سب کی سن لو، اپنی کسی کو مت سنو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button