Aqeel Anjam AwanColumn

وہ صبح کبھی تو آئے گی

عقیل انجم اعوان
پچھلے75برس کی طرح حالیہ یوم آزادی کا سورج بھی یہی سوال لے کر طلوع ہوا کہ وہ کونسی صبح تھی، جس کی امید میں چلتے ہمارے بوڑھے ہمارے بچے تیرہ و تار شب میں کھو گئے۔ وہ کونسی سرزمین تھی جس کیلئے لاکھوں لاشے گمنام قبروں، اندھے کنوئوں، ظالم نہروں اور بیاس و راوی کی لہروں کے سپرد ہو گئے۔ وہ کونسی روشنی تھی جسے پانے کیلئے ہزاروں عصمتیں کالی دیوی کے چرنوں کی تاریکی میں گم ہو گئیں، وہ کونسا محسن چمن تھا جس میں لہلہانے کی تمنا لئے ہزاروں شگوفے بن کھلے مرجھا گئے۔ وہ کونسی خوشبو تھی جسے دامن میں بسانے کیلئے ہزاروں کڑیل جوان کرپانوں کی نذر ہو گئے، وہ کون کونسی عمارتیں تھیں جس کی بنیادوں میں بیس لاکھ مسلمانوں کا خون بہا دیا گیا اور وہ کونسی مجبوری تھی جس کیلئے دوشیزگان اسلام کے بطن سکھ نسل کی پرورش گاہ بن گئے۔ 75برس سے مسلسل ہر 14اگست کو سورج یہی صدا لگاتا ہے، مگر اسے جواب میں قبرستان کی سی خاموشی ملتی ہے۔ کسے اتنی فرصت کہ سورج کی ان بے کار باتوں کا جواب دے۔ ان باتوں کا جواب پہلے کسی نے نہ دیا نہ آئندہ اس کی توقع ہے البتہ کچھ دیوانے پہلے بھی اس شہر غفلت میں اذان فجر کہتے رہتے تھے اور اب بھی کہتے رہتے ہیں۔ مناسب معلوم ہوتا ہے کہ سورج کو بھی یہ اذان سنا دی جائے تاکہ اس کی کچھ تسلی ہو جائے اور یہ اذان وہ اذان ہے جو 26اپریل 1946ء کو اردو پارک دہلی میں کہی گئی تھی۔ اس اذان میں سید نے کہا تھا کہ ’’ لوگو! مجھے پاکستان بن جانے کا اتنا ہی یقین ہے جتنا کہ صبح سورج مشرق سے ہی طلوع ہو گا لیکن یہ پاکستان وہ پاکستان نہیں ہوگا جو دس کروڑ مسلمانوں کے ذہنوں میں موجود ہے اور جس کیلئے آپ بڑے خلوص کے ساتھ کوشاں ہیں۔ ان مخلص نوجوانوں کو کیا معلوم کل ہندوستان میں ان کے ساتھ کیا ہونے والا ہے۔ اگر مجھے کوئی اس بات کا یقین دلا دے کہ ہندوستان کے کسی قصبہ کی کسی گلی میں کسی شہر کے کسی گوشے میں حکومت الٰہیہ کا قیام اور شریعت کا نفاذ ہونے والا ہے تو رب کعبہ کی قسم، آج ہی میں اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر آپ کا ساتھ دینے کیلئے تیار ہوں لیکن یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ جو لوگ اپنے جسم پر اسلامی قوانین نافذ نہیں کر سکتے، وہ دس کروڑ افراد کے وطن میں کس طرح اسلامی قوانین نافذ کر سکتے ہیں؟، پاکستان میں صرف چند خاندانوں کی حکومت ہو گی اور یہ خاندان زمیندار، جاگیردار، صنعتکار اور سرمایہ داروں کے خاندان ہوں گے، جو اپنی من مانی سے ہر محب وطن اور غریب عوام کو پریشان کر کے رکھ دیں گے۔ غریب کی زندگی اجیرن ہو جائے گی، ان کی لوٹ کھسوٹ سے پاکستان کا متوسط اور غریب طبقہ نان شبینہ کو ترس جائے گا۔ امیر روز بروز امیر تر اور غریب روز بروز غریب تر ہوتے چلے جائیں گے‘‘۔ اس سے پہلے بھی 1942ء میں ایک سر پھرے نے کہا تھا:
پاکستان میں کیا کیا ہوگا؟
زر داروں کی عزت ہو گی
ہر مفلس کی درگت ہو گی
پیکرِ عصمت زینتِ خانہ بازاروں کی زینت ہوگی
سیاست کے نام پر عیاشی ہوگی
سیاست کے نام پر بدمعاشی ہوگی
سیاست یہاں رسوا ہو گی
پاکستان میں کیا کیا ہوگا؟
ان لوگوں کی آوازیں ماضی میں قبرستان کی آوازیں بن کر رہ گئیں اور آج بھی ان کا مقدر یہی ہے کیونکہ وہ لوگ جو سوئے پاکستان، ہر دم جواں، رواں دواں قافلے کے دست و بازو تھے ان کے بال و پر کاٹ دیئے گئے، لبوں پر تالے اور پائوں میں بیڑیاں ڈال دی گئیں۔ قلم کاروں کے ہاتھ اور قلم اور سر اونچا رکھنے والوں کے سر دار کی زینت بنا دیئے گئے۔ ایسے میں وطن عزیز میں وہ صبح کہاں سے طلوع ہو گی، وہ روشنی کیسے پھیلے گی اور وہ خوشبو کب مہکے گی، جس کی امید لگائے ہم سب بیٹھے ہیں۔ ہمیں اس نظام میں رہتے ہوئے اپنی آس پوری ہونے کی امید تو نہیں ہے لیکن اس کے باوجود بھی 14اگست کی شام رخصت ہوتا سورج ہمیشہ کی طرح اس بار بھی یہ کہہ کر گیا کہ لوگو! دیکھ لو میرا کام روشنی پھیلانا ہے، جس کیلئے میں ازل سے رواں دواں ہوں تاکہ تاریک راہوں کا روشن اور مردہ دلوں کو حرارت مل جائے۔ میں نے کبھی اس فرض میں کوتاہی کی؟ تمہاری منزل تو مجھ سے بھی اونچی اور تمہارا مقصد تو مجھ سے بھی بلند ہے، تمہارے ارادے تو پہاڑوں سے مضبوط اور سمندروں سے فراخ تھے، پھر تم کس لئے بیٹھ گئے؟ کیا بیٹھنے والے بھی منزل پر پہنچا کرتے ہیں؟ کیا سونے والوں کو راہیں ملا کرتی ہیں؟ اور کیا صرف سیاستدانوں کے کھوکھلے سیاسی نعروں سے ہمیں نیا پاکستان مل جائے گا؟ اور کیا ہمیں ان سیاستدانوں کے فریب سے نکلنے کیلئے 75برس کی مہلت کم ہے۔ آج ہمیں اپنا اور ان کا محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے، جن پر ہم اعتبار کر کے اپنا ووٹ دیتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button