ColumnQaisar Abbas

کارگُل روڈ برزل پاس

قیصر عباس صابر
پہاڑوں میں موجود بلند درے دراصل مختلف وادیوں اور آبادیوں کو آپس میں ملاتے وہ راستے ہیں جو زمانہ قدیم سے گزر گاہ کے طور پر استعمال ہو رہے ہیں ۔ بلند ترین یہ راستے سال بھر میں صرف دو سے تین ماہ کیلئے کھلتے ہیں اور باقی عرصہ ان پر پڑی برف انسان کو بے بس کئے رکھتی ہے ۔ بڑے شہروں کو آپس میں ملانے والے کئی درے اب زیر پہاڑ تعمیر ٹنل کی وجہ سے برف کی رکاوٹ سے آزاد ہو چکے ہیں ۔ پاک چین دوستی کے نام سے شاہراہ قراقرم پر تعمیر کئے گئے ٹنلز اب سال بھر زمینی رابطوں کو بحال رکھتے ہیں اور مسافروں کو لینڈ سلائیڈنگ کا خوف بھی نہیں رہتا ۔ چترال اور پشاور کے درمیان درہ لواری ہمیشہ حائل رہتا تھا۔ ساڑھے دس کلومیٹر طویل ٹنل نے دنوں کے سفر کو گھنٹوں پر محیط کر دیا ہے اور اب چترال بھی پاکستان کا آباد شہر محسوس ہونے لگا ہے۔ تیرہ ہزار سات سو فٹ بلند بابو سر پاس پشاور ، اسلام آباد اور گلگت بلتستان کے درمیان اب بھی سال بھر میں آٹھ ماہ بند رہتا ہے۔ پاکستان میں بلند ترین دروں کی اپنی اپنی تاریخ اور جغرافیائی حیثیت ہے ۔ بلند ترین دروں میں بابو سر ، بولان ، بروغل ، چاپروٹ ، دورہ ، گوندو گورو ، گومل ، حایل ، ہسپار ، کڑاکڑ ، خنجراب ، خیبر ، کلک ، کوہاٹ ، لواری ، مالاکنڈ ، منٹکا ، نلتر ، شیندور اور ٹوچی کے درے شامل ہیں ۔ ان دروں میں بلند ترین گوندو گورو پاس ہے جس کی بلندی 5940میٹر ہے۔ یہ درہ گلگت کی حوشی وادی کو کنکورڈیا سے ملاتا ہے اور یہاں سے دنیا کی دوسری بلند ترین چوٹی کے ٹو کو دیکھا جا سکتا ہے۔ 4700میٹر بلند منٹکا پاس درہ خنجراب کے مغرب میں ایستادہ ہے اور شاہراہ ریشم کے مسافر اسے گزر گاہ کے طور پر پاس کرتے ہیں ۔ دورہ پاس کی 5030میٹر بلندی گلگت کی غذر ویلی کو بالائی سوات سے ملاتی ہے۔ درہ چلنجی 5300میٹر بلند ہے اور بالائی ہنزہ کی چپرسن وادی کو اشکومن اور کرومبر سے جوڑتا ہے ۔ برزل پاس 4200میٹر بلندی کیساتھ کشمیر اور گلگت کی واحد قدیم گزرگاہ تھی اور آج کل استور سے کارگل کو ملاتا ہے۔ شمشال پاس 4735میٹر بلندی کیساتھ کوہ پیمائوں کو کے ٹو کے شمالی چہرے کی طرف لے جاتا ہے اور شمشال سے برالدو کا سفر ممکن بناتا ہے ۔ کرومبر کی بلندی بھی 4300میٹر کے ساتھ گلگت کے ضلع غذر اور چترال کی سرحد کو اشکومن پر باہم ملاتی ہے ۔ بروغل پاس کا درہ بلندی میں کچھ کم ہے مگر افسانوی واخان کوریڈور میں افغانستان کے بدخشاں صوبے کو پاکستان کے ضلع چترال سے جوڑتا ہے ۔ کاچی کانی پاس کی 4700میٹر بلندی چترال کی وادی سرمی کو سوات ویلی کے قریب کرتی ہے ۔ درہ برزل گلگت کے ضلع استور میں واقع کشمیر اور گلگت کی قدیم گزر گاہ رہی ہے جسے شاہراہ قراقرم کی تعمیر سے قبل کاروباری قافلے نقل و حمل کے لئے استعمال کرتے تھے۔ ماضی میں درہ برزل کی دونوں سمتوں میں موجود بستیاں تجارتی
لوگوں کے لئے قیام گاہوں کے طور پر محفوظ آبادیاں تھیں۔ کشمیر سے آنے والے منی مرگ میں رات گزارتے اور پھر برزل پاس کے مشقت بھرے سفر کے بعد استور میں رکتے تھے۔ آج کل درہ برزل لائن آف کنٹرول تک فوجی سامان کی نقل و حمل کے لئے استعمال ہوتا ہے اور چلم چوکی سے لے کر کارگل تک یہ علاقہ پاک افواج کی کڑی نگرانی میں ہے۔ درہ برزل کی چوٹی پر بھی شہدائے کارگل کی یادگاریں بنائی گئی ہیں اور برف کے انباروں میں جوان چوکس کھڑے ہیں ۔ برزل کی مغربی ڈھلوان سے دریائے استور کا آغاز ہوتا ہے اور بعد میں یہ دریا اپنے شفاف پانی کے ساتھ سندھ میں جا گرتا ہے ۔ 13808فٹ بلند یہ درہ گلگت سے 178کلومیٹر دور ہے جس کے اطراف میں 61دیہاتوں پر مشتمل 17000افراد گنتی میں آئے ہیں۔ سیاحت کے ایک سیزن میں ساٹھ ہزار گاڑیاں اس درے کو عبور کرکے منی مرگ اور ڈومیل پہنچتی ہیں ۔ سردیوں میں منفی تیس درجہ حرارت یہاں پر زندگی کو مشکل بنا دیتا ہے مگر پھر بھی ملک کی حفاظت کے لئے مامور جوان یہاں پر چوکس کھڑے نظر آتے ہیں ۔ وطن عزیز کے دوسرے تمام دروں کی طرح یہاں پر بھی جب برف پگھلتی ہے تو پھر ان ڈھلوانوں پر بے شمار رنگوں کے انگنت پھول کھلتے ہیں، جن پر انہی پھولوں کے رنگوں جیسی تتلیاں آتی ہیں ۔ برزل کی دوسری جانب منی مرگ اور ڈومیل کی وادیاں ہیں جنہیں زمین پر جنت کا نام دیا جاتا ہے ۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button