ColumnRoshan Lal

رضوانہ کی کہانی

روشن لعل
جب کسی پر ناقابل برداشت ظلم، جبر، جفا، ستم ، بداخلاقی، سختی، ناانصافی اور بہیمانہ تشدد کی انتہا کردی جائے تو اس کی حالت کیا ہوسکتی ہے ، اس کی کمسن رضوانہ سے بڑھ کر کوئی مثال پیش نہیں کی جا سکتی جو کئی دنوں سے جنرل ہسپتال لاہور کے ایک بیڈ پر موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا پڑی ہوئی ہے۔ یہاں یہ بتانے کی ضرورت نہیں ہے کہ ہسپتال میں پڑی رضوانہ کی تشویشناک حالت کا ذمہ دار کس کو قرار دیا جارہا ہے۔ رضوانہ کی اس حالت سے متعلق ایک سے زیادہ کہانیاں منظر عام پر آچکی ہیں۔ ان کہانیوں میں بیان کی گئی متضاد جزئیات سے چاہے کوئی جو بھی اخذ کرے مگر وہ رضوانہ کے ان گنت زخموں سے چور جسم کی گواہی کی موجودگی میں اس بات کو نہیں جھٹلا سکتا کہ اس پر اس حد تک ظالمانہ تشدد کیا گیا جو اس عمر کے بچوں کے لیے کسی صورت قابل برداشت نہیں ہوتا۔ رضوانہ کے زخموں سے چور جسم کی ناقابل تردید حقیقت صرف اس پر ہونے والے بہیمانہ ظلم کی کہانی ہی نہیں بلکہ اس پر مبینہ تشدد کرنے والی خاتون کے سفاکانہ مزاج، رویے اور سوچ کی بھی کہانی ہے۔ گو کہ یہاں رضوانہ کی کہانی کے ایک سے زیادہ ورژن سامنے آچکے ہیں مگر ان میں سے کسی ورژن کا آغاز وہاں سے نہیں کیا گیا جہاں سے یہ کہانی شروع ہوتی ہے۔
رضوانہ کی کہانی کا تعلق بچوں کی جبری مشقت سے ہے جو پاکستان میں قانونی طور پر ممنوع ہے۔ جو کام یہاں قانونی طور پر ممنوع ہے وہ ان ججوں کے گھروں میں بھی دھڑلے سے ہوتا ہے جن کا بنیادی فرض اپنے فیصلوں کے ذریعے ملک میں قانون کا نفاذ کرنا ہے۔ یہ بات صاف ظاہر ہے کہ جج کے گھر میں نہ صرف رضوانہ پر تشدد کر کے بلکہ قبل ازیں اسے کام پر رکھ کر بھی قانون کی خلاف ورزی اور جرم کا ارتکاب کیا گیا۔ اس جرم میں رضوانہ کے ماں باپ بھی شریک ملزم ہیں۔ رضوانہ کی کہانی یہاں سے شروع نہیں ہوتی کہ اس کے ساتھ جو کچھ ہوا اس میں اس کے ماں باپ بھی شریک ملزم ہیں بلکہ اس کہانی کا ایک اہم حصہ یہ ہے کہ جس گھر میں یہ پیدا ہوئی وہاں نہ اس کی پیدائش کی خواہش تھی، نہ ضرورت اور نہ ہی وہاں اولاد کے لیے رغبت، محبت اور ایثار جیسا کوئی احساس موجود تھا۔ اگر رضوانہ کے گھر میں اولاد کے لیے رغبت، محبت اور ایثار جیسے جذبات اور احساسات موجود ہوتے تو اس کے ماں باپ اس معصوم کو کبھی بھی بھیڑیوں جیسے انسانوں کے رحم و کرم پر نہ چھوڑتے۔
رضوانہ کے ماں باپ جیسے لوگ اپنی اولاد کو کیا
سمجھتے ہیں اس کی ایک چھوٹی سے مثال یہ ہے کہ کچھ سال پہلے ہمارے گھر میں کام کرنے والی ایک خاتون جب کچھ اداس نظر آئی تو خاتون خانہ کے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اداسی کی وجہ اس کے ہاں صرف دو عدد بچوں کا پیدا ہونا ہے۔ جب حیران ہوتے ہوئے اس سے تفصیل پوچھی گئی تو اس کا جواب یہ تھا کہ اس کے خاوند کے تین بھائی نہ صرف ان سے نسبتاً آسودہ بلکہ اس وجہ سے اپنے ذاتی گھروں کے مالک بھی ہیں کیونکہ ان میں سے کسی کے بھی سات سے کم بچے نہیں ہیں۔ عام خیال یہ ہے کہ کثیر العیال گھروں میں زیادہ اخراجات کی وجہ سے کم بچت بھی ممکن نہیں ہوتی لہذا مزید حیران کن سوال یہ پیدا ہوا کہ زیادہ بچوں کے باوجود اس خاتون کے دیوروں نے ذاتی مکان کیسے بنا لیے۔ کام والی ماسی نے اس حیرانگی کو نظر انداز کرتے ہوئے بڑی تسلی سے جواب دیا کہ اس کے دیوروں میں سے کسی نے بھی اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ نہیں دی، جونہی بچے سات آٹھ سال ہوئے انہیں کہیں نہ کہیں کام پر لگا دیا گیا ۔ جب ان کے گھروں میں ایک ساتھ سات آٹھ کمانے والے ہو گئے تو پھر انہوں نے آسانی سے گھر بنا لیا۔ یہ سب کچھ بیان کرنے کے بعد گھر میں کام کرنے والی خاتون نے قلق کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر دو بچوں کے بعد اس کے ہاں مزید بچوں کی پیدائش کا سلسلہ قدرتی طور پر رک نہ گیا ہوتا تو وہ بھی مزید سات آٹھ بچے پیدا کر کے آج اپنے گھر کی مالکن بن چکی ہوتی۔
اسی ضمن میں ذاتی تجربے پر مبنی ایک مختلف کہانی یہ بھی ہے کہ کوئی پندرہ سال قبل ایک دن جب میں ا پنے بچوں کو سکول سے چھٹی کے بعد گھر لے کر آیا تو وہاں میرے بچوں کے عمر کی ایک معصوم سی ا ور گھبرائی ہوئی لڑکی بیٹھی تھی۔ پوچھنے پر خاتون خانہ نے بتایا کہ یہ گھر میں صفائی کا کام کرنے والی ماسی کی بیٹی ہے اور وہ ماسی مجھ سے کوئی خاص بات کرنا چاہتی ہے۔ کچھ دیر بعد اس لڑکی کی ماں بھی آگئی اور ہاتھ باندھ کر کہا کہ اس کی جگہ اس کی بچی کو صفائی کے کام پر رکھ لیا جائے۔ جب میں نے غصی میں بچوں سے مشقت کرانے کے خلاف سخت باتیں کرتے ہوئے انکار کیا تو اس نے روتے ہوئے کہا کہ خاوند کے نشہ کرنے کی وجہ سے وہ زندگی گزارنے کے لیے خود گھروں میں کام کرنے اور بچوں سے کروانے پر مجبور ہے ۔ اس کا کہنا تھا کہ میرے انکار کے باوجود وہ مجبوریوں کے باعث ا پنی بیٹی سے کہیں نہ کہیں کام ضرور کروائے گی، میرے گھر میں وہ بیٹی سے صرف اس وجہ سے کام کروانا چاہتی ہے کہ یہاں وہ اس معصوم پر جنسی حملے کا خطرہ محسوس نہیں کرتی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کی بیٹی جس گھر میں پہلے کام کرتی تھی وہاں ایک مرد اس پر جنسی حملہ کرنے کی کوشش کر چکا ہے۔ یہ بات سننے کے بعد نہ مجھ میں انکار اور نہ ہی اقرار کی ہمت تھی۔ آخر کار میں نے اپنی بیوی سے یہ کہا کہ وہ جو مناسب سمجھتی ہے کر لے اور اس لڑکی کو کام پر رکھنے کی صورت میں صرف یہ احتیاط ہو کہ جب میں گھر آئوں تو وہ مجھے یہاں کام کرتی ہوئی نظر نہ آئے۔ صاف ظاہر ہے کہ میں نے گھما پھرا کر اپنے بچوں کی عمر کی معصوم لڑکی سے مشقت کروانے کے لیے آمادگی کا اظہار کر دیا تھا ۔ ایسا کرنے پر میں خود کو اندر سے کھوکھلا محسوس کرتے ہوئے یہ سوچ رہا تھا کہ اگر میں انکار کر دیتا تو پھر بھی اپنے لیے میرا یہی احساس ہوتا۔
پاکستان میں بچوں سے مشقت ، ایک بہت پیچیدہ مسئلہ ہے ۔ اس مسئلے کی بنیاد ملک کے پیچیدہ معاشی اور سماجی مسائل میں پنہاں ہے۔ ان مسائل کی وجہ سے ہی یہاں آئے روز رضوانہ کے ساتھ پیش آنے والے واقعہ جیسی کہانیاں سننے کو ملتی رہتی ہیں۔ یہ کہانیاں اتنی الجھی ہوئی ہیں کہ ان کا سرا سامنے نظر آنے کے باوجود بھی ہاتھ میں نہیں آتا۔ یہ بات طے ہے کہ یہاں ان پیچیدہ اور الجھی ہوئی کہانیوں کے مزید رونما ہونے کا امکان رد نہیں کیا جاسکتا مگر اس کے باوجود یہ کہے بغیر بھی نہیں رہا جاسکتا کہ چاہے ریاست اور سماج کے لیے چائلڈ لیبر کو کما حقہ روکنا ممکن نہ ہو لیکن بچوں سے جبری مشقت لینے کے دوران، ان پر بہیمانہ تشدد کرنے والوں کو سزا دینا ناممکن نہیں ہونا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button