ColumnJabaar Ch

نگران وزیراعظم

جبار چودھری

ہوتا تو پہلے بھی یہی سب کچھ تھا لیکن آنکھ کی شرم ہوتی تھی۔ غلط کاموں کے لیے بھی کچھ صحیح ہونے کا جگاڑ کیا جاتا تھا۔ کچھ ایسی چیزوں کا خیال رکھا جاتا تھا کہ غلط سیدھا ہی غلط نہ لگے لیکن اب تو آنکھ کی شرم تک جاتی رہی ہے کہ جس کا جس وقت زور چل رہا ہوتا ہے وہ پورا زور لگاتا بھی ہے اور دکھاتا بھی ہے۔ میں ذاتی طورپر عمران خان صاحب کی طرف سے اس طرح پنجاب اور خیبر پختونخوا کی اسمبلیاں تحلیل کرنے اور پھر صرف دو صوبوں میں وقت سے پہلے الیکشن کروانے کو کئی اعتبار سے درست نہیں سمجھتا تھا اور اس پر لکھ بھی چکا ہوں کہ وجوہات کئی ہیں۔ اگر نوے دن والا تقاضا آئینی ہے تو پورے ملک میں ایک ساتھ الیکشن ہونا بھی کسی آئینی تقاضے سے کم نہیں۔ میں الیکشن نہ کروانے کی تبلیغ کا تو حامی تھا اور آج بھی ہوں لیکن صوبوں کو اس طرح چلانے کی حمایت نہیں کرتا۔ چیف جسٹس سپریم کورٹ مائی لارڈ عمر عطابندیا ل کے پاس اس کا حل موجود تھا لیکن پتہ نہیں کیوں وہ اپنا اثاثہ ایسے ہی متنازعہ اور بدذائقہ چھوڑنے پر بضد کیوں رہے اور آج تک ہیں۔ میری خواہش ہے کہ میں بندیال صاحب کے ساتھ نشست کروں ان سے ان کے من کی بات کا سراغ لگائوں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ ان کے دور میں انصاف کے سب سے بڑے ایوان کی ستر سال کی ناانصافیاں سمندر میں جھاگ کی طرح تیرتی دکھائی دینے لگی ہیں۔ میں ان سے ملنا اور پوچھنا چاہتا ہوں لیکن کیا کروں نہ میں کوئی مشہور یو ٹیوبر ہوں اور نہ ہی پی ٹی آئی کا کوئی حمایتی کہ وہ مجھے اپنے چیمبر میں بلوائیں اور سوال کا موقع عطا فرمائیں۔ کیوں مائی لارڈ؟۔ مائی لارڈ چاہتے تو جتنا زور انہوں نے سات رکنی بینچ سے مختصر ہوتے بینچ اور اس کے تین ارکان میں سمٹنے کے باوجود الیکشن کروانے پر لگایا تھا اگر اس کا صرف چوتھا حصہ وہ جسٹس اطہر من اللہ کی بات سن کر اسمبلیوں کی تحلیل پر صرف کر دیتے۔ بھلے فل کورٹ نہ بناتے اسی سات رکنی بینچ کے سامنے ہی اسمبلیاں تحلیل کرنے کا فیصلہ پرکھ لیتے اور اس تاریخی کیس کا تاریخی فیصلہ یہ سنا دیتے کہ اسمبلیوں کی تحلیل ہی غیر قانونی ہے تو دونوں صوبوں میں پی ٹی آئی کی حکومتیں واپس آجاتیں ۔ نگرانوں کی تہمت سے دونوں صوبے بچ جاتے۔ آج ملک میں انتشار کم ہوتا۔ سب سے بڑی بات کہ اس ملک میں سانحہ نو مئی نہ ہوتا۔ پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت ہوتی تو شاید خان صاحب اپنے صوبے کی اینٹ سے اینٹ بجانے سے باز ہی رہتے۔ یہ ایک امکان تھا یقین نہیں کہ خان صاحب کے لیے اپنی ذات ہی سب کچھ۔ بھلے سارے پاکستان پر ان کی حکومت ہوجائے لیکن اگر وہ وزیراعظم نہیں تو پھر کچھ نہیں، کوئی بھی نہیں۔ سپریم کورٹ نے یہ راستہ نہیں لیا۔ پتہ نہیں کیوں گمان تھا کہ ہم الیکشن کا حکم دیں گے اور اگلے دن لوگ قطاروں میں لگ کر پی ٹی آئی کی حکومت واپس لانے کا اعلان کر دیں گے اور پھر چند ماہ بعد وفاق میں الیکشن ہوں گے اور پنجاب جیسے بڑے صوبے میں پی ٹی آئی کی اپنی حکومت ہوتے ہوئے مرکز میں بھی پی ٹی آئی کی حکومت اور عمران خان کو وزیراعظم بنانے سے کون روک سکے گا؟ پلان انتہائی خوش کن تھا لیکن بن غلط ملک میں گیا تھا کہ یہ پاکستان ہے پیارے، یہاں صبح و شام ہی نہیں، بعض اوقات دن میں کئی کئی بار تقدیریں بدل جایا کرتی ہیں۔ اس ملک میں سب نے دیکھا۔ سب کی آنکھوں کے سامنے سپریم کورٹ کا تین رکن بینچ الیکشن کروانے کا حکم دے کر باربار خود ہی شرمندہ ہوتا رہا۔ عدل کے پاس اخلاقی طاقت باقی نہ رہے تو انصاف اور فیصلوں کی اہمیت صرف کاغذوں میں لکھی رہ جاتی ہے، سو یہ فیصلے بھی تاریخ میں موجود رہیں گے۔ ان پر عمل تو نہیں ہوا لیکن سیاست ہوتی رہے گی۔ جب بھی سپریم کورٹ کے احکامات نہ ماننے کی بات ہوگی وہاں ن لیگ کے خلاف یہ فیصلے کوٹ کئے جاتے رہیں گے۔ پرویز خٹک کہتے ہیں کہ عمران خان کو الیکشن ملتے تھے لیکن انہوں نے چار مرتبہ موقع ضائع کر دیا۔ سینئر اینکر پرسن پارس جہانزیب کو سنو ٹی وی پر انٹرویو میں پرویز خٹک نے کہا کہ خان صاحب ان سمیت سب کو ہی اندھیرے میں رکھتے۔ رات کو میٹنگ میں ہم سب مل کرایک فیصلہ کرتے لیکن صبح ان کی طرف سے نہ صرف فیصلہ بدل جاتا بلکہ بیان بھی اور آجاتا تھا۔ پارٹی میں کوئی بھی اسمبلیاں تحلیل کرنے کے حق میں نہیں تھا لیکن خان صاحب نہ کسی کی سنتے تھے نہ مانتے۔ خان صاحب کے اس بیوقوفانہ فیصلے کا خمیازہ پنجاب اور کے پی دونوں صوبے برابر بھگت رہے ہیں کہ دونوں صوبوں میں بننے والی حکومتیں نگران نہیں بلکہ نگران پلس ہیں۔ پنجاب میں تو وزیراعلیٰ منتخب وزیراعلیٰ سے بھی زیادہ رفتار اور اختیارات کے ساتھ حکومت کر رہے ہیں۔ تو خیبرپختونخوا میں جوتوں میں دال بٹ رہی ہے۔ نگرانوں کے پارٹیاں بھگتنانے کی انتہا یہ ہوئی کہ خیبرپختونخوا میں ایک نگران وزیر دو دن پہلے اے این پی کے انتخابی جلسے میں تقریر کرتا پایا گیا۔ اب یہ والا نگران ماڈل اس حکومتی سیٹ اپ کے منہ کو خون کی طرح نہیں لگے گا تو اور کیا ہوگا۔ اس لیے اب وفاق میں نگران وزیراعظم لگانے کا مرحلہ ہے تو جناب وزیراعظم اور جناب زرداری صاحب اور جناب لندن والے حال مقیم دبئی ، ایسے ہی ہیرے تلاش کرنے میں لگے ہیں جیسے انہوں نے پنجاب اور کے پی میں لگائے ہیں۔ وجہ یہ ہے کہ اس وقت ان کو ڈر کسی کا نہیں ہے۔ پورا میدان خالی ہے۔ عمران خان نُکرے لگ چکے ہیں۔ جو باقی بچے ہیں وہ مفروری کاٹ رہے ہیں۔ یہ سارے ٹیپو سلطان اب صرف ٹویٹو سلطان بنے ہوئے ہیں۔ ٹویٹس تو باقاعدگی سے کرتے ہیں لیکن ہیں مفرور اور روپوش۔ حکومت میں تھے تو وزارتوں کے لیے ایک دوسرے کے راستے کھوٹے کرتے تھے اب مشکل وقت ہے تو سب بھاگ چکے ہیں۔ اس لیے حکومت کے راستے میں اپوزیشن ہے ہی کوئی نہیں۔ عمران خان صاحب بھلے باہر اپنے گھر میں ہیں لیکن بس نام کے ہی رہ گئے ہیں۔ نہ ان کی کوئی بات سنتا ہے نہ مانتا ہے۔ سانحہ نو مئی ایسا جواز ہے جو انہوں نے اپنے اقتدار کی آگ میں پٹرول ڈالنے کے لیے خود حکومت کو مہیا کیا۔ اس سے پہلے بھلے ان پر مقدمات تھے۔ بھلے مسائل تھے لیکن حکومت میں ان کے ساتھ یہ والا سلوک کرنے کی ہمت نہیں تھی۔ کم از کم ان کی پوری پارٹی باہر موجود تھی۔ لوگ انکے ساتھ تھے۔ روزانہ کی بنیاد پر احتجاج میں نکلتے تھے لیکن سانحہ نو مئی نے ان سے یہ سب کچھ چھین لیا ہے۔ جیسے بقول پرویز خٹک انہوں نے الیکشن کے مواقع ضائع کئے اب اسی طرح تمام مواقع انہیں ضائع کر رہے ہیں۔ اس وقت ایک بار پھر نوازشریف دبئی میں واپس آچکے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی آصف علی زرداری اور بلاول بھٹو بھی دبئی پہنچ گئے اور مشاورت کا فائنل رائونڈ جاری ہے۔ اس رائونڈ میں نگران سیٹ اپ ہی نہیں بلکہ اگلے سیٹ اپ کی تقسیم بھی جاری ہے۔ مولانا نے اپنا بہتر حصہ وصول کرنے کے لیے پہلے مشاورت نہ کرنے کا شکوہ کرکے نوازشریف کی توجہ حاصل کی اور اپنی خواہشات کی پیٹی ان کے حوالے کی اور اب زرداری کی توجہ اور پیپلز پارٹی کو ڈرانے کے لیے سندھ میں پیپلز پارٹی مخالف پیر صاحب پگاڑا سے راہ و رسم بڑھا رہے ہیں۔ پیر صدر الدین راشدی سے ملاقات کی تصویریں اور میڈیا ٹاک سب دیکھ چکے ہیں اور یہ ایسے وقت میں کی گئی جب زرداری اور بلاول نوازشریف سے مشاورت کے لیے دبئی کی اڑان بھر رہے تھے۔ مولانا نے پیغام دیا ہے کہ اگر نوازشریف کی باتوں پر زیادہ دھیان نہ دیا گیا تو مولانا سندھ میں جی ڈی اے کے ساتھ مل کر الیکشن میں جائیں گے۔ اب نگران وزیراعظم کے لیے موجودہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کا نام سامنے رکھا گیا ہے۔ اسحاق ڈار کا نام اس لیے رکھا گیا ہے کہ تاکہ زرداری صاحب کو اندازہ ہوجائے کہ مشاورت اتنی بھی آسان نہیں۔ اب تک اگر ن لیگ زرداری صاحب کی باتیں تسلیم کرتی رہی ہے تو اس کا یہ مطلب نہیں کہ نگران سیٹ اپ میں بھی انہی کی چلے گی۔ اب اگر اسحاق ڈار پر اتفاق ہوجاتا ہے تو گھر کی بات گھر میں ہی رہ جائے گی اور اگر نہ بھی ہوا تو کسی ایسے پر اتفاق ہوجائے گا جو اسحاق ڈار سے بھی زیادہ گھر کا بندہ ہوگا۔ کیونکہ ہوتا تو پہلے بھی یہی سب کچھ تھا لیکن آنکھ کی شرم ہوتی تھی جو اب نہیں ہوتی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button