ColumnTajamul Hussain Hashmi

کتنی اور سیاسی پارٹیاں چاہئیں

تجمل حسین ہاشمی

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ویب سائٹ پر اس وقت دی گئی سیاسی جماعتوں کی تفصیل کے مطابق رجسٹرڈ جماعتوں کی تعداد 168ہے۔ سیاسی ماہرین کے مطابق جمہوری معاشروں میں تعداد پر کوئی قدغن نہیں ہوتی لیکن زیادہ جماعتیں زیادہ سیاسی و معاشرتی تقسیم کی عکاسی کرتی ہیں۔ اردو انڈیپنڈنٹ میڈیا کے سینئر صحافی و رائٹر سجاد اظہر کا نئی پارٹیوں کے قیام کے حوالہ سے کہنا تھا ’’ نئی پارٹیوں کی رجسٹریشن پر کوئی بندش نہیں، جمہوریت ان ممالک میں سود مند ہے جہاں دو پارٹی سسٹم ہے جیسے امریکہ، کینیڈا ، فرانس اور خاص کر انڈیا میں دو پارٹی کا وجود ہے لیکن انڈیا میں اب تیسری پارٹی قوت کے طور پر وجود میں آ رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی نچلی سطح سے ظہور پذیر ہوئی ہے۔ دہلی شہر کو سب سے بہتر شہر بنا دیا، جہاں بجلی فری، جہاں عورتوں کو فری ٹرانسپورٹ ، یکساں تعلیم نظام، دہلی کے شہریوں کو وہ سہولیات میسر ہیں جو کسی ترقی یافتہ ممالک کے شہریوں کو بھی میسر نہیں ہیں۔ عام آدمی پارٹی پنجاب اور انڈیا کے دوسرے علاقوں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان میں جتنی بڑی پارٹیوں ہیں یہ سب لسانی بنیاد پر قائم ہیں۔ ان کے پاس کوئی منشور نہیں ہوتا کوئی ایجنڈا نہیں ہوتا۔ یہ سب انسانی جذبات سے کھیل کر کے اقتدار تک پہچاتے ہیں اور پھر لسانیات کو ہوا دیتے ہیں، پاکستان میں دو پارٹی سسٹم کیوں طاقتور نہیں بن سکا، اس کی سب سے بڑی وجہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت ہے۔ اس مداخلت کا مقصد بڑی پارٹیوں کے ووٹ کو تقسیم کرنا ہے ‘‘۔ پاکستان میں نئی سیاسی پارٹی کو رجسٹر کرنا انتہائی آسان کام ہے۔ کسی کو پارٹی کے آئین کی پرنٹ شدہ کاپی، کسی بھی بینک سے پارٹی کے نام پر اکائونٹ کی تفصیل اور اس پارٹی کے کچھ عہدیداروں کے ناموں کی فہرست الیکشن کمیشن کو فراہم کرنا ہوتی ہے جبکہ ان دستاویزات کی تصدیق یا رجسٹریشن کی کوئی بھی فیس نہیں ہے۔ پاکستان میں نئی پارٹیوں کا قیام آسانی سے ممکن ہو جاتا ہے، ان پارٹیوں کو چلانے کے لئے علاقائی سیاسی جاگیردار اور مالی طور پر اے ٹی ایمز بھی میسر ہوتے ہیں، انٹرنیشنل میڈیا کی طرف سی عام انتخابات سے نئی سیاسی جماعتوں کے قیام سے متعلق پوچھے گئے سوال پر سیاسی تجزیہ کار حسن عسکری رضوی نے کہا کہ یہ سب ’ سیاسی انجینئرنگ‘ کا نتیجہ ہے اور اس کا عوامی مسائل کے خاتمے یا جمہوریت کی مضبوطی سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ پارٹیوں کے قیام کا طریقہ کار نیا نہیں، قیام پاکستان کے کچھ عرصہ بعد ہی چل پڑا تھا اور دوسرا بغاوت کے الزام میں مقدمے درج ہونے کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ کثیر جماعتی نظام یا دو جماعتی نظام کی ہر ملک میں الگ حیثیت ہوتی ہے۔ لیکن کثیر سیاسی پارٹیوں کا قیام نظریات کی تقسیم کو جنم دیتا ہی، سیاسی نظام کمزور ہو جاتا ہے، معاشرہ میں مختلف سوچیں اور نظریات کی پیدائش ہوتی ہے جس سے معیشت دبائو کا شکار رہتی ہے۔ ملک کی تقدیر کا فیصلہ کرنے والے سیاسی افراد کی تعلیمی قابلیت پر کوئی قدغن نہیں اور ان کے تعلیم کاغذات کی کوئی پڑتال نہیں، اپوزیشن لیڈر اور عثمان بزدار اس نظام کی مہربانی ہے۔ ہمارے ہاں نوٹ کے کمال کو جمہوریت کا حسن سمجھا جاتا رہا ہے۔ جس کا مظاہرہ ہر آنے والے الیکشن میں نظر آتا ہے۔ سینیٹ کے الیکشن میں جمہوریت کا حسن واضح نظر آتا ہے، صدر ایوب خان کا کہنا تھا کہ سیاست کرنے کے لیے پیسے ہونا چاہئے۔ لیکن اگر آپ نیا کاروبار کرنا چاہتے ہیں، جمہوری اداروں کا ایسا نا مناسب رویہ ملے گا ، آپ کو کام کروانے کے لیے نیا جوتا خریدنا پڑھ جائے گا، رشوت کے بھی مختلف نام تجویز ہیں، ان ناموں کی جان پہچان والوں کی مارکیٹ ویلیو ہے۔ نام سے ناواقفیت کام کو اتنا پیچیدہ بنا دیتی ہے، جس سے آپ تنگ ہو جائیں گے، اس وقت قوم تنگ آ چکی ہے۔ سابقہ وزیر اعظم نے شکایتی پورٹل بنایا جس پر آپ گھر بیٹھے اپنی شکایات رجسٹر کروا سکتے ہیں لیکن ایسے جگادیہ قوم ہیں کہ شکایت کنندہ سے جوڑ توڑ حل کر لیتے ہیں ۔ اب ساری قوم تو پورٹل استعمال نہیں کر سکتی، آپ ایک دفعہ نیشنل بینک چلے جائیں ایسے ملازمین ملیں گے جو ابھی بھی نئی ٹیکنالوجی سے نا واقف ہیں، روزانہ کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ، بجلی، گیس کی قیمتوں میں اضافہ نے قوم کو ذہنی مریض بنا دیا ہے، حکومت کی طرف سے ڈیفالٹ سے بچانے کے اعلانات اور دوسری طرف اربوں روپے کی قیمتی گاڑیوں کی خریداری پر قوم ہیجانی کیفیت میں مبتلا ہو گی ہے، نئی بائیں، دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے آگے بے شمار سوالات ہیں، جن کا جواب کسی بھی سیاسی جماعت کے پاس موجود نہیں، کیوں کہ عوامی مسائل میں اضافہ کا حل کثیر سیاسی جماعتوں سے ممکن نہیں ہے۔ جمہوری نظام کی مضبوطی اب ان کے ہاتھ میں ہے، سیاسی جماعتوں کو بھی ایسی ہی جمہوریت چاہئے جو لولی لنگڑی رہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button