ColumnImtiaz Ahmad Shad

نیا عمرانی معاہدہ

تحریر : امتیاز احمد شاد
ہمارے ہاں سیاست اور سماج کا سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت کا ہے۔ ہم اخلاقی طور پر اتنے بونے ہیں کہ اپنی غلطی کو خوبی اور مخالفین کی خوبیوں کو بھی خامیاں منوانے کے لیے ہمہ وقت مصروف عمل رہتے ہیں۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں ایک منظم طریقے سے سیاسی ورکروں کی تربیت ہی ایسے کی جاتی ہے کہ وہ صحیح اور غلط کا معیار فقط اتنا جانتے ہیں کہ یہ ہماری پارٹی نے کیا ہے اس لیے درست ہے اور یہ فریق مخالف نے کیا ہے اس لیے غلط ہے۔ اپنی ذاتی پسند نا پسند کی بناء پر ہم ہر کسی کے فعل کو جانچتے ہیں اور اتنا حوصلہ نہیں رکھتے کہ اپنی صفوں میں غلطی پر بھی ویسے آواز بلند کر سکیں جیسے سامنے والوں کی خوبی پر بھی کر دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ہاں سیاسی ورکرز عاشقوں والا کردار ادا کرتے ہیں کہ جنہیں اپنے محبوب کی ہر خامی بھی زمانے کی سب سے بڑی خوبی نظر آتی ہے۔ انسان غلطیوں کا پتلا ہے۔ بہترین معاشرہ وہ ہوتا ہے جہاں ایک دوسرے کی تعمیری تنقید کے ذریعے اصلاح کی جائے۔ مگر جہاں کسی کو اس کے غلط کام پر بھی لاکھوں چاہنے والوں کی مفت کی وکالت مل جائے جو اس کی غلطی پر دلائل کے انبار لگا دیں کہ فلاں فلاں نے بھی تو یہ کیا تھا وہ کیا تھا تو وہاں کیا ضرورت ہے کہ کوئی خود کو سدھارنے کی کوشش کرے۔ ہمارا المیہ یہ ہے کہ یہاں حکومت و اپوزیشن کے دو مختلف رول ہیں جن کو ادا کرنے والے بدلتے رہتے ہیں مگر کہانی وہی رہتی ہے۔ جو حکومت میں آ جائے وہ وہی سب دہراتا ہے کہ جس پر وہ اپوزیشن میں ہوتے ہوئے روزانہ تنقید کے نشتر برسانا فرض سمجھتا تھا، جن افعال کو سارے ملک کے مسائل کی جڑ سمجھتا تھا اور یوں لگتا تھا کہ اس حکیم وطن نے نبض پکڑ کر اس وطن عزیز کے تمام مسائل کی تشخیص کرلی ہے، بس وقت ملنے کی دیر ہے یہ کمزور، لاغر اور مسائل کے شکار ملک کو دنوں میں ٹھیک کر دے گا۔ ایسے حالات کا ہم کئی دہائیوں سے سامنا کر رہے ہیں، مگر آج کل جو ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہم اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ پاکستان سیاسی طور پر آغاز سے ہی عدم استحکام کا شکار رہا ہے۔ قیام پاکستان کے بعد پہلے 8سال میں سول عسکری بیورو کریسی کی مداخلت اور ڈرائنگ روم پالیٹکس کی وجہ سے سیاسی حکومتیں وقفے وقفے کے ساتھ تبدیل ہوتی رہیں، اس دوران 7وزیراعظم منتخب ہوئے۔ بھارت کے وزیراعظم نہرو نے تاریخی جملہ کہا،’ میں اتنے پاجامے نہیں بدلتا جتنے پاکستان میں وزیراعظم تبدیل ہو جاتے ہیں‘۔ جنرل ایوب خان نے 1958ء میں
پاکستان پر مارشل لاء مسلط کر کے سیاست اور جمہوریت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچایا۔ جمہوریت کا پودا جڑ نہ پکڑ سکا۔ جنرل ایوب خا ں اپنے دس سالہ دور اقتدار میں پاکستان کو مستحکم سیاسی نظام نہ دے سکے۔ وہ اپنے آئین 1962ء کے مطابق اقتدار سپیکر قومی اسمبلی کے سپرد کرنے کی بجائے جنرل یحییٰ خان کے حوالے کر کے رخصت ہو گئے۔ جنرل یحییٰ نے ملک گیر عوامی احتجاج کے نتیجے میں 1970ء میں بالغ رائے دہی کی بنیاد پر عام انتخابات کرائے مگر ان کے نتائج کو تسلیم نہ کیا اور اقتدار اکثریتی لیڈر شیخ مجیب الرحمان کے حوالے نہ کیا۔ سیاسی مسئلے کو فوجی آپریشن سے حل کرنے کی کوشش کی گئی جس کے نتیجے میں پاکستان دو لخت ہو گیا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1973ء کے متفقہ آئین کے ذریعے سیاست اور جمہوریت کو مستحکم کرنے کی کوشش کی۔ جنرل ضیاء الحق نے 1977ء میں مارشل لاء نافذ کر کے سیاسی جمہوری نظام کو لپیٹ دیا۔ جنرل ضیاء کے گیارہ سالہ آمرانہ دور کے بعد 1988ء کے انتخابات میں محترمہ بے نظیر بھٹو پاکستان کی پہلی خاتون وزیراعظم منتخب ہوئیں۔ انھوں نے ماضی کو نظر انداز کرتے ہوئے مفاہمت کے جذبے کے ساتھ سیاست اور جمہوریت کو پروان چڑھانے کی کوشش کی مگر اڑھائی سال کے بعد ہی ان کی حکومت کو بھی ختم کر دیا گیا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو
اور میاں نواز شریف کے درمیان سیاسی محاذ آرائی کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام جاری رہا اور طاقت ور حلقے میوزیکل چیئر کا کھیل کھیلتے رہے۔ 1999ء میں جنرل پرویز مشرف نے میاں نواز شریف کی حکومت ختم کر کے اقتدار پر قبضہ کر لیا اور دس سال تک کنٹرولڈ جمہوریت کے ساتھ آمرانہ دور چلتا رہا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی المناک شہادت کے بعد 2008ء کے انتخابات میں پی پی پی وفاق اور سندھ میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئی اور آصف علی زرداری پاکستان کے صدر منتخب ہوگئے۔ 2010ء میں اتفاق رائے سے آئین میں وسیع پیمانے پر اٹھارویں ترمیم کی گئی۔ یہ ترمیم سیاست میں عسکری مداخلت کو ختم نہ کر سکی اور نہ ہی شفاف انتخابات کا نظام دے سکی۔ زرداری حکومت کو پانچ سال کا موقع ملا جس کے دوران خاندان مضبوط ہوئے مگر سیاست اور جمہوریت مستحکم نہ ہو سکی۔2013ء کے انتخابات میں میاں نواز شریف وفاق اور پنجاب میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوئے۔ ان کے دور حکومت میں عمران خان کے طویل دھرنے اور پانامہ کیس کی طویل سماعت کی بنا پر سیاسی عدم استحکام جاری رہا۔ 2018ء میں عمران خان وفاق پنجاب اور خیبر پختونخوا میں حکومت بنانے میں کامیاب ہوگئے۔ اپوزیشن جماعتوں نے ان کو ایلیکٹڈ وزیراعظم تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انھیں سلیکٹڈ وزیراعظم کہا جانے لگا۔ عمران خان کی حکومت کو ساڑھے تین سال کے بعد عدم اعتماد کی تحریک کے ذریعے فارغ کر دیا گیا۔ سیاستدان 2008ء سے 2023ء تک پندرہ سال تسلسل کے ساتھ اقتدار میں رہنے کے باوجود سیاسی استحکام پیدا نہ کر سکے جس کے نتیجے میں شدید سیاسی اور معاشی بحران پیدا ہو چکا ہے۔ پاکستان تاریخ کے سنگین اور تشویشناک سیاسی اور معاشی بحران کی وجہ سے غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہے۔ بیورو کریسی اور چند سیاسی خاندانوں کے گٹھ جوڑ نے ریاست اور سیاست کو مفلوق الحالی کا شکار کر دیا ہے۔ جس پارلیمنٹ کے ایک دن کے اجلاس کی قیمت اس غریب، لاچار، مقروض اور آئی ایم ایف کے رحم و کرم پر پڑی قوم کو 4کروڑ روپے ادا کرنی پڑتی ہے، آج تک اس پارلیمنٹ میں ایک بھی بل ایسا پاس نہیں ہوا جو غریب کی غربت ختم کر سکے ۔ بیوروکریسی کی ٹھاٹھ باٹھ آج تک قائم و دائم ہے۔ مجال ہے کہ کوئی آئے اور آ کر پوچھ سکے کہ یہ بادشاہوں والی مراعات، یہ شاہانہ پروٹوکول اور مغلیہ شہنشاہوں کے طرز کی زندگی گزارنے والوں کی عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے کیا خدمات ہیں؟ اس نظام کا رونا سب روئیں گے لیکن تب تک کہ جب اقتدار سے باہر ہونگے، جب اقتدار میں آجائیں پھر اسی کے مزے لوٹ کر واپسی اقتدار سے باہر پہنچ جائیں گے۔ پھر سے تبدیلی اور انقلاب کی بڑی بڑی باتیں کریں گے۔ اگر اس ملک کو بہتری کی طرف لے جانا ہے تو تمام سیاسی جماعتوں اور مقتدر اداروں کو چاہئے کہ ایک نیا عمرانی معاہدہ کریں۔ کچھ تو ایسے اصول مقرر کر لیں کہ جن کے اندر رہ کر سیاست کرنے اور نظام چلانے کی اجازت ہو۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button