CM RizwanColumn

وعدہ معاف گواہوں کی ضرورت نہیں

وعدہ معاف گواہوں کی ضرورت نہیں
تحریر : سی ایم رضوان
آج کل چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف زیر بحث اور زیر تفتیش اکثر مقدمات خاص طور پر سانحہ نو مئی کو فیصلہ کن مرحلوں پر لانے کے لئے جہاں فیصل واوڈا سمیت متعدد حکومتی زعماء وعدہ معاف گواہوں کی بات کر رہے ہیں وہاں سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی چیئرمین نے خود بھی پچھلے دنوں میں متعدد بار کہا ہے کہ ان کے خلاف وعدہ معاف گواہ بنائے جا رہے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ وہ جیل جانے کے لئے تیار ہیں۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے کمرہ عدالت نمبر تین میں گزشتہ پیر کو صحافیوں سے بات کرتے ہوئے عمران خان کا کہنا تھا کہ میں جانتا ہوں میرے خلاف وعدہ معاف گواہ تیار کئے جا رہے ہیں جبکہ اپنے اعتماد کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہر کرائسز میں مواقع ہوتے ہیں، میرے لئے یہ کوئی بڑا کرائسز نہیں ہے، ساتھ ہی یہ بھی کہہ دیا کہ جس طرح کا ظلم ان پر کیا جا رہا ہے اس کا مقبوضہ کشمیر میں بھی تصور نہیں کیا جا سکتا۔ تاہم اپنی ہی بات کو اپنے ہی الفاظ میں رد کر دینے کا موصوف کا انداز اپنا ہی ہے۔
ہمارے فوجداری قانون میں وعدہ معاف گواہ کی ضرورت اور گنجائش اس بنا پر اکثر نکل آتی ہے کہ یہاں بااثر طبقات کے خلاف گواہی دینے کے لئے گواہوں کو اپنے جانی تحفظ کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب کسی فوجداری مقدمہ میں آزاد، واضح اور قابل اعتماد شہادت موجود نہ ہو تو شریک ملزموں میں سے کسی ایک کو مقدمہ کے اختتام پر رہائی دینے کے وعدے پر اقبالی بیان پر تیار کیا جاتا ہے جس میں وہ وقوعہ یا واردات میں ان افراد یا فرد کا نام اور رول بیان کرتا ہے جس کے ایما یا دبا پر اس نے یہ سب کچھ کیا ہوتا ہے۔ رہائی کے بدلے اقبالی بیان دینے والا یہ ملزم وعدہ معاف گواہ کہلاتا ہے۔ پاکستان میں وعدہ معاف گواہوں کو لے کر سیاسی قائدین کے خلاف مقدمات بنانے کا آغاز جنرل ضیا الحق کے مارشل لاء دور میں ہوا تھا۔ جب جولائی 1977ء میں مارشل لا نافذ ہوا تو قومی اتحاد اور ذوالفقار علی بھٹو کے چند ساتھیوں کو مارشل لاء حکام نے حفاظتی تحویل میں لے لیا تھا۔ پھر جب بھٹو رہا ہو کر کراچی گئے تو عوام نے ان کا پر جوش استقبال کیا تھا۔ اس وقت کی فوجی حکومت کو یہ گوارا نہیں تھا کہ ایک وزیر اعظم جسے انہوں نے بر طرف کر کے مارشل لاء نافذ کیا تھا عوام اس کا نہ صرف پرجوش استقبال کریں بلکہ بھٹو جیسے سیاستدان کے برتے پر مارشل لاء کے نفاذ کی مخالفت بھی کریں۔ فوجی حکام نے اسی وقت سے ہی بھٹو سے چھٹکارا پانے کا سوچنا شروع کر دیا تھا۔ اس مقصد کے لئے ان کی معاونت جسٹس مولوی مشتاق حسین جو ماضی میں بھٹو سے اس بناء پر ناراض ہو گئے تھے کہ بھٹو کے دور اقتدار میں انہیں لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس نہیں بنایا گیا تھا حالانکہ وہ اس وقت تمام ججز میں سینئر تھے اور بیرسٹر ایم انور جو پیپلز پارٹی کی اس وقت کی کارکن اور بعد ازاں رکن قومی اسمبلی اور وفاقی وزیر ریحانہ سرور مرحومہ کے دیور تھے، نے کی تھی۔ بیرسٹر ایم انور خاندانی تنازعات کی بنیاد پر اپنی بھابی سے سخت ناراض تھے اور اسی بنا پر مولوی مشتاق پیپلز پارٹی کے بھی مخالف تھے اور اب انہیں موقع مل گیا تھا کہ وہ پیپلز پارٹی سے اپنا بدلہ چکائیں۔ پس انہوں نے اپنی خدمات فوجی حکام کو مارشل لاء کے نفاذ کے فوری بعد پیش کر دیں۔ بیرون ملک مقیم مولوی مشتاق کو فوجی حکام نے فوری ملک بلوا کر نہ صرف لاہور کورٹ کا چیف جسٹس بنا دیا بلکہ ساتھ ہی قائم مقام چیف الیکشن کمشنر بھی بنا دیا۔ ان کو ٹارگٹ دیا گیا کہ وہ بھٹو سے جان چھڑوانے کے لئے مارشل لاء حکومت کی مدد کریں۔ پس انہوں نے احمد رضا قصوری کے والد کے قتل کی ایف آئی آر برآمد کی جس پر بیرسٹر ایم انور اور ایف آئی اے کے ایک ڈائریکٹر عبدالخالق نے کام شروع کر دیا۔ پہلے جب بھٹو کو گرفتار کیا گیا تو جسٹس صمدانی نے ان کی ضمانت منظور کر لی تھی۔ اس نے مارشل لاء حکومت کو سراسیمہ کر دیا تھا چنانچہ بعد ازاں انہوں نے بھٹو کو مارشل لاء ضابطوں کے تحت گرفتار کر لیا تاکہ کوئی عدالت ان کی ضمانت منظور نہ کر سکے۔ فوجی حکومت نے مارشل لاء نفاذ کے کچھ دنوں بعد فیڈرل سکیورٹی فورس کے ڈائریکٹر جنرل مسعود محمود جس کا تعلق پولیس سروس سے تھا کو ایبٹ آباد سے گرفتار کرلیا۔ مسعود محمود کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ انہوں نے ایس پی ڈھاکہ کے طور پر بنگالی زبان کے حق میں مظاہرہ کرنے والے طلبا پر گولی بھی چلائی تھی جس سے کئی طلبا شہید بھی ہوگئے تھے۔ گرفتاری کے کچھ دنوں بعد مسعود محمود کو راولپنڈی کے مجسٹریٹ غضنفر ضیا کی عدالت میں پیش کیا گیا جہاں اس نے اٹھارہ صفحات پر مشتمل اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا تھا لیکن اپنے اس بیان میں اس نے کہیں بھی بھٹو کو کسی قتل میں ملوث بیان نہیں کیا تھا۔ اس نے اپنے گناہ تو تسلیم کئے تھے لیکن اپنے اس بیان میں اس نے کہیں یہ نہیں کہا تھا کہ ان گناہوں کا ارتکاب اس نے بھٹو کے ایما پر کیا تھا۔ مسعود محمود کے اس بیان میں حکومتی وکلا کو ایسا مواد نہیں ملا تھا جس کی بنیاد پر بھٹو کو مقدمہ قتل میں ملوث کیا جاسکتا چنانچہ چند ہفتے بعد مسعود محمود کو دوبارہ لاہور کے ایک مجسٹریٹ کے سامنے پیش کیا گیا جہاں اس نے اپنے نئے اقبالی بیان میں احمد رضا قصوری کے والد محمود قصوری کے قتل کا اعتراف کیا اور کہا کہ یہ قتل اس نے بھٹو کے ایما پر کیا تھا۔ مسعود محمود کا یہ وہ بیان تھا جس کی بنیاد پر بھٹو کو مقدمہ قتل میں ملوث کر کے پھانسی دی گئی۔ یاد رہے کہ مسعود محمود نے اپنا دوسرا اقبالی بیان اپنے برادر نسبتی کے دبا اور آمادہ کرنے پر دیا تھا جو بھٹو سے بہت ناراض تھا کیونکہ بھٹو نے اپنی حکومت میں اسے سونے کی سمگلنگ کے الزام میں نہ صرف گرفتار کروا دیا تھا بلکہ اس کا سونا بھی ضبط کر لیا گیا تھا۔ مقدمے کے فیصلے کے بعد مسعود محمود کو رہا کر دیا گیا تھا۔ بعد ازاں وہ امریکہ چلا گیا اور وہیں چند سال قبل طبعی موت سے وفات پا گیا ہے۔ تاہم اس کی سلطانی گواہی نے پاکستان کی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب کئے۔
اسی طرح اکتوبر 1999ء میں جب اس وقت کے چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کا طیارہ فضا میں اغوا کرنے کا الزام وزیراعظم نواز شریف پر لگایا گیا۔ اس وقوعہ میں چونکہ ایسی گواہی موجود نہیں تھی جو نواز شریف کو اس طیارہ اغوا میں ملوث ثابت کر سکتی چنانچہ یہاں بھی ایک وعدہ معاف گواہ پیدا کیا گیا اور یہ تھا امین اللہ چودھری جو اس وقت ڈی جی سول ایوی ایشن اتھارٹی تھا۔ اس نے اس شرط پر کہ مذکورہ اقبالی بیان دینے اور نواز شریف کو ملوث کرنے پر اسے بری کر دیا جائے گا۔ اپنا اقبالی بیان ریکارڈ کرایا تھا۔ امین اللہ کے بیان پر کراچی کی دہشتگردی عدالت نے نواز شریف کو دو دفعہ عمر قید کی سزا سنائی تھی جسے سندھ ہائیکورٹ کے فل بنچ نے بحال رکھا تھا تاہم یہ سزا نو سال بعد سپریم کورٹ بنچ نے ختم کر دی تھی۔ جسٹس ناصر الملک نے اپنے فیصلے میں لکھا تھا کہ وعدہ معاف گواہ کے بیان پر انحصار کر کے کسی ملزم کو سزا نہیں دی جاسکتی۔ امین اللہ چودھری نیاب چند سال قبل اپنی خود نوشت میں اپنے اس بیان پر اظہار تاسف کیا ہے اور وضاحت یہ دی ہے کہ وہ احکام ماننے پر مجبور تھے۔ وعدہ معاف گواہ کا واویلا ایک مرتبہ پھر دو سال قبل بلند ہوا جب نیب نے آشیانہ اقبال کیس میں موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کی گرفتاری کے لئے بیورو کریٹ فواد حسن فواد کے اقبالی بیان کا سہارا لیا۔ سماعتوں کا سلسلہ جاری رہا تاہم موجودہ سال 2023ء کے ماہ فروری میں احتساب عدالت نمبر 5کے جج ساجد علی اعوان نے اس آشیانہ اقبال ریفرنس کی سماعت کی۔ جرح کے دوران نیب کے وعدہ معاف گواہ کرنل ( ر) عارف مجید نے شہباز شریف کو کلین چٹ دے دی جبکہ دوسرے وعدہ معاف گواہ اسرار سعید نے کہا کہ شہباز شریف کا اس مقدمے میں کوئی کردار نہیں۔ دونوں وعدہ معاف گواہوں نے کہا کہ اس وقت کے چیئرمین نیب، ڈی جی نیب اور دیگر نے زبردستی ان سے یہ بیان لئے۔ نیب کے ان افسران نے تحریری صورت میں انہیں چند صفحات دیئے کہ وہ یہ بیان عدالت میں دیں۔ دونوں وعدہ معاف گواہان اسرار سعید اور کرنل ( ر) عارف مجید کے بیانات پر وکیل امجد پرویز، وکیل قاضی مصباح الحسن سمیت دیگر نے جرح مکمل کی۔ وعدہ معاف گواہوں نے عدالت میں کہا کہ نیب افسران کے دبائو کی وجہ سے وعدہ معاف بن کر بیان دیئے تھے۔
سابق وزرائے اعظم ذوالفقار علی بھٹو، محمد نواز شریف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف کے خلاف وعدہ معاف گواہوں کی اصل حقیقت اور حالات و واقعات کے مطابق ان شخصیات کے خلاف سازشوں سے وقت کی ہوائوں نے گرد ہٹائی ہے تو پتہ چلا ہے کہ یہاں سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ کا لباس کا طرح پہنایا جاتا ہے اور جھوٹ کو بے نقاب کرتے کرتے کس طرح یہاں لوگ موت تک کو گلے لگا لیتے ہیں۔ لیکن اس بار تو کمال ہو گیا ہے کہ ایک اعلانیہ عیار، مکار اور ثابت شدہ جھوٹا خود کو سچا اور بے گناہ قرار دے کر ڈھٹائی کے ساتھ اپنے ہی ملک کی فوج پر حملہ آور ہو چکا ہے۔ گالم گلوج اور الزام لگانے میں اس کا اور اس کی ٹیم کا کوئی ثانی نہیں۔ اب تو اخیر ہو گئی ہے کہ یہ ملک کے دشمنوں کی حمایت حاصل کرنے کی بھی مکمل کوشش کر رہا ہے۔ اس کے خلاف مقدمات کی نوعیت ایسی ہے کہ اگر ان میں سے چند ایک پر بھی انصاف کے تقاضوں کے مطابق چند سماعتیں بھی ہو جائیں تو یہ مجرم، غدار اور گناہ گار ثابت ہو جائے مگر یہ کمال ہوشیاری اور باعث شرم ڈھٹائی کے ساتھ مختلف بیانات کے ذریعے اپنی بچی کھچی پارٹی کو انگلیوں پر نچا رہا ہے۔ اب یہ اپنے خلاف وعدہ معاف گواہوں کی تیاری کی بات کر کے خود کو مظلوم ظاہر کرنے کی ناکام کوشش کر رہا ہے حالانکہ اس کے خلاف درج توشہ خانہ ریفرنس، ناجائز بیٹی کیس، عدت میں نکاح کیس، فارن فنڈنگ کیس اور القادر ٹرسٹ کیس کے حقائق چیخ چیخ کر خود گواہی دے رہے ہیں کہ یہ کاذب، مجرم اور خائن ہے۔ اس کے خلاف وعدہ معاف گواہوں کی نہیں مبنی بر عدل چند سماعتوں کی ضرورت ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button