Columnمحمد مبشر انوار

نگران حکومت

تحریر : محمد مبشر انوار
جمہوریت اور جمہوری تقاضوں کے حوالے سے بے یقینی کی دھند چھٹتی نظر آتی ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف نے اسمبلیوں کی مدت پوری ہوتے ہی عام انتخابات کا عندیہ دے دیا ہے لیکن اس کے باوجود سیاسی جماعتیں خصوصا پی ڈی ایم اتحاد اور حکومت کی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی ہنوز شش و پنج میں ہیں اور ان کے اکابرین کی جانب سے ایسے بیانات ایک تسلسل کیساتھ آ رہے ہیں کہ جمہوری عمل کو بغیر رکاوٹ کے جاری و ساری رہنا چاہئے۔ انتہائی حیرت انگیز بات ہے کہ حکمران اتحاد کی جانب سے ایسے بیانات کی تکرار کیونکر ہو رہی ہے اور اس کے علاوہ اگر انتخابی عمل میں اتنا سنجیدہ ہیں تو انتخابات کی حتمی تاریخ دینے کا دائرہ اختیار الیکشن کمیشن کو کیوں دیا گیا ہے؟ ایک پتلی تماشہ کہہ لیں یا ڈنگ ٹپائو پالیسی کا انجام سمجھ لیں یا سیاسی غیر بلوغت کہہ لیں کہ اپنے حریف کو میدان سے فارغ کرنے کے لئے وقتی طور پر جو اقدامات مناسب لگ رہے ہیں، اندھا دھند لئے جار ہے ہیں۔ حکومت اور اتحادیوں کے درمیان شدید عدم اعتماد دیکھنے کو مل رہا ہے کہ ایک طرف پیپلز پارٹی کے رہنما آئینی تقدس کا تقاضہ کرتے نظر آتے ہیں اور دوسری طرف بھول جاتے ہیں کہ چند ماہ قبل ہی دو صوبوں میں آئین کی پامالی پر گنگ رہے ہیں،اس وقت آئین کا تقدس نجانے کہاں تھا؟ جمہوریت اور جمہوری تقاضے کہاں دفن ہو رہے تھے، کسی کو ہوش نہیں تھی لیکن آج جب مرکز میں حکومتی مدت ختم ہو رہی ہے تو پیپلز پارٹی کو آئینی و جمہوری تقدس اور جمہوریت یاد آ رہی ہے؟ اس دوران ملکی پارلیمانی سیاست میں ایک نیا کھیل متعارف ہو چکا ہے کہ حکومت تبدیل کرنے کے لئے پارلیمانی روایات کی پاسداری یوں کی جار ہی ہے کہ جمہوری و نظریاتی روایات ‘‘ ضمیر کی آواز اور چمک سے چکا چوند‘‘ ہوئی جاتی ہیں لیکن اس عمل میں پیپلز پارٹی کو جمہوریت برباد ہوتی نظر نہیں آتی۔ دکھ اس بات کا ہے کہ پیپلز پارٹی، قائد اعظمؒ کی مسلم لیگ اور شیخ مجیب الرحمان کی عوامی لیگ کے بعد واحد نظریاتی سیاسی جماعت تھی، جس کے قائد اور اس کی بیٹی نے بہرکیف جمہوریت کے لئے نہ صرف کوششیں کی بلکہ کسی حد تک یہ دو شخصیات جمہوریت کی قائل بھی تھی، تاہم قائد عوام کی شخصیت کا دوسرا پہلو جمہوری حوالوں سے عملا بہت زیادہ قابل ستائش نہیں رہا۔ تقریبا یہی صورتحال ہمارے ہر سیاسی رہنما کی رہی ہے کہ عوامی سطح پر جمہوریت کی باتیں تو بہت کی جاتی ہیں لیکن انفرادی طور پر ان شخصیات کا ایک پرتو بہرطور آمرانہ بھی رہا ہے جو ممکنہ طور پر اس خطے کے خمیر کی وجہ سے کہا جا سکتا ہے، یا زمینی حقائق کی وجہ سے کہ یہاں عوام کو بالعموم دبا کر ہی رکھا گیا ہے اور اسی طرح ساتھیوں کو بھی یا خوشامد پرستوں کے جلو میں عموما مخلص ساتھی قابل قبول نہیں رہتے۔ آخری وار کیلئے پاکستان میں طاقتوروں کا ہتھیار ہمیشہ کارگر رہا ہے اور بالخصوص 1985ء کے بعد طاقتوروں کے پروردہ کئی ایک شخصیات ایسی ہیں کہ جو فقط ’’ اقتدار پارٹی ‘‘ کا حصہ رہتی ہیں، آشیانے بدلنے میں انہیں ملکہ حاصل سمجھیں یا طاقتوروں قبل از وقت کا اشارہ ابرو، کہ یہ شخصیات ہمیشہ اقتدار میں ہی نظر آتی ہیں اور دکھ کی بات یہ ہے کہ جمہوریت کے برعکس طاقتوروں کے مفادات کا نگہبانی کرتی دکھائی دیتی ہیں۔
خیر بات کہیں سے کہیں نکل گئی، بات ہو رہی تھی کہ موجودہ حکومت نے اعلان تو کر دیا ہے کہ وہ اپنی مدت مکمل کرتے ہیں حکومت سی الگ ہو جائیں گے اور انتخابات کا انعقاد نگر ان حکومت کروائے گی۔ یہاں یہ امر انتہائی قابل افسوس ہے کہ دنیا بھر میں اکثریت ایسے ممالک کی نظر آتی ہے کہ جہاں صدیوں سے جمہوریت نافذ ہے اور ان ممالک میں برسراقتدار حکومت کی مدت پوری ہونے کے بعد کسی نگران حکومت کی چنداں ضرورت نہیں ہوتی جو صاف، منصفانہ و شفاف انتخابات کی ضامن ہو۔ ان ممالک میں سیاسی جماعتوں کے ساتھ ساتھ عوام کو بھی حکومت کے ساتھ ساتھ اپنے اداروں پر یقین اور اعتماد ہوتا ہے کہ وہ ان کے ووٹ کے ساتھ کوئی کھلواڑ نہیں کریں گے اور ووٹ کا تقدس بحال رکھا جائے گا۔ تاہم اس کے باوجود برصغیر میں بالخصوص آج بھی انفرادی سطح پر امیدواران جیتنے کے لئے ہر طرح کے حربے استعمال کرنے سے نہیں چوکتے، خواہ انہیں پیسہ خرچ کرنا پڑے، دھونس سے کام لینا پڑے، جبر کا راستہ اختیار کرنا پڑے یا دھاندلی کرنا پڑے، وہ ہر صورت جیتنے کے لئے ہی میدان میں اترتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج بھی یہاں کے انتخابی نتائج کے حوالے سے ہمیشہ شکوک و شبہات قائم رہتے ہیں اور شکست خوردہ سیاسی جماعت کسی بھی صورت انتخابی نتائج کو تسلیم نہیں کرتی اور سڑکوں پر نظر آتی ہیں۔
پاکستان میں سول اداروں کی اہلیت و قابلیت ایک سوالیہ نشان بن چکی ہے اور حکومتی مداخلت نے سول اداروں کو تقریبا عضو معطل یا حکمرانوں کے گھر کی لونڈی بنا رکھا ہے، عام شہری کے لئے ان اداروں سے داد رسی حاصل کرنا کاروارد ہے ۔ اس پس منظر میں کسی بھی نگران حکومت کے لئے صاف شفاف اور منصفانہ انتخابات کا ڈول ڈالنا انتہائی مشکل دکھائی دیتا ہے کہ الیکشن کمیشن گزشتہ انتخابات کے حوالے سے بروقت تیار نہ ہونے کا عملی مظاہرہ کر چکا ہے جبکہ پس پردہ حقائق کیا ہیں، وہ سب بھی آشکار ہیں اور نئے انتخابات انہی حقائق کی روشنی اور مد نظر رکھتے ہوئے کروائے جانے کا قوی امکان ہے۔ حکمرانوں کے لئے درد سر عمران خان تو ہے ہی لیکن اس درد سر سے نجات کے لئے حکمران اپنی بھرپور کوششوں میں نظر بھی آتے ہیں لیکن بدقسمتی سے ابھی تک حکمران نہ تو عمران خان کو جیل میں ڈال سکے ہیں اور نہ ہی تمام تر حربوں /ہتھکنڈوں کے باوجود اسے نااہل کروا سکے ہیں۔ لہذا اس صورتحال میں انتخابات کا انعقاد حکمران جماعت اور اس کے اتحادیوں کو عبرت ناک شکست سے دوچار کر سکتا ہے، جس کے لئے حکمران اتحاد کسی بھی طور تیار نہیں اور دوسری طرف حکومت کی آئینی مدت پوری ہوتے ہی حکومت سے علیحدگی بھی ایک لازمی امر ہے۔ حکومت سے علیحدگی کے بعد، معاملات لازمی طور پر نگرانوں کے ہاتھ جائیں گے اور اقتدار ملنے کے بعد یہ کہاں لکھا ہے کہ جن کے اقتدار کی راہ آپ ہموار کر رہے ہیں، طشت میں رکھ کی اقتدار پیش کر رہے ہیں، کل کو وہ آپ کو بقول راجہ ریاض ’’ پشان‘‘ لیں گے؟ یا واقعتا ریاستی مشینری اسی طرح آپ کا دم بھرتی نظر آئے گی، ممکنہ طور پر آپ کی پروردہ، ایک معتد بہ تعداد آپ کے لئے بروئے کار آ سکتی ہے لیکن ’’ طاقتور‘‘ نگرانوں کے ہوتے، ان کے لئے یہ مشکل ہو گا کہ وہ آپ کی ہر ممکن مدد کر سکیں۔ دوسری اہم ترین بات نگرانوں کے حوالے سے، جو زیر گردش ہے، کہ کسی ٹیکنوکریٹ کو نگران حکومت تفویض کی جا سکتی ہے، جس کا کام صرف انتخابات کا انعقاد نہیں ہو گا بلکہ ملکی ڈوبتی معیشت کو سنبھالنا اور اس کی سمت درست کرنا ہوگا۔ درحقیقت یہ وہ پس پردہ حقائق ہیں جن کے باعث پیپلز پارٹی قبل از وقت واویلا کرتی دکھائی دیتی ہے، اور اس کے سامنے پنجاب و کے پی کی نگران حکومتیں ہیں کہ جن کو نوے روز کے لئے حکومت تفویض کی گئی تھی لیکن وہ ہنوز اقتدار کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ اس مثال کو سامنے رکھتے ہوئے عین ممکن ہے کہ ملکی معاشی صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے نگرانوں کو آئین سے ماورا مدت فراہم کی جائے اور سیاستدانوں سے فی الوقت معذرت کی جائے کہ چونکہ وہ باہم معاملات کو سمیٹنے میں ناکام رہے ہیں لہذا ’’ وسیع تر ملکی مفادات ‘‘ کا تقاضہ ہے کہ نگران حکومت کو مقررہ مدت سے زیادہ وقت دیا جائے۔ اس دوران یہ بھرپور کوشش ہو گی کہ کسی طرح بھی عمران خان کو سیاسی افق سے ہٹا دیا جائے تا کہ سیاسی میدان میں طاقتوروں کے زیر تابع سیاستدان آسانی کے ساتھ حکمرانی کر سکیں۔ دوسری صورت یہ بھی ممکن ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے ملکی معاملات عموما اور معاشی معاملات کو سدھارنے کے لئے خصوصا ،بنگلہ دیشی ماڈل اختیار کرنے کے بازگشت سنائی دے رہی ہے، ممکنہ نگران حکومت بنگلہ دیشی طرز پر بنائی جائے، جو بعد ازاں لمبے عرصہ کے لئے ایک ہی سیاسی جماعت کے اقتدار کی راہ ہموار کر دے!!!

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button