ColumnImtiaz Ahmad Shad

اسلامی معاشی پالیسی

امتیاز احمد شاد
اسلام نہ صرف روحانیت ہے اور نہ صرف مادیت بلکہ دونوں کا حسین سنگم ہے۔ اسلام نے کسبِ حلال کو اہم ترین فریضہ قرار دیا ہے اور تجارت، زراعت، صنعت اور ملازمت وغیرہ کے ذریعہ اپنی روزی خود کمانے کی تاکید کی ہے۔ اسلامی معاشی پالیسی کا یہ بنیادی اصول بیان کیا گیا ہے کہ دولت کی گردش پورے معاشرے میں عام ہونی چاہیے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے کہ مال صرف مال داروں میں ہی گھومتا رہے، مال دار کا مال دن بدن بڑھتا رہے اور غریب روز بروز کنگال ہوتا جائے۔ معاش کے سلسلے میں جو چیز سب سے زیادہ اہمیت کی حامل ہے وہ سرمایہ کی گردش ہے۔ سرمایہ کی گردش اگر اس طرح ہو کہ وہ ہر طبقہ کے لوگوں تک پہنچتا رہے تو سب لوگ خوش حال ہوں گے اور اگر وہ صرف چند لوگوں کے درمیان گھومے تو خوش حالی بھی چند لوگوں کے حصے میں آئے گی اور بقیہ لوگ بدحالی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہوں گے۔ سرمایہ کی گردش معاشرہ کے جتنے زیادہ افراد کے درمیان ہوگی، اتنی ہی زیادہ اس کی قیمت بڑھتی چلی جائے گی۔ اسلام نے ایسا معاشی نظام برپا کیا کہ دولت پر بااثر لوگوں کی اجارہ داری قائم نہ رہے اور دولت کا بہا امیروں کے ساتھ ساتھ غریبوں کی طرف بھی رہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: بستیوں والوں کا جو ( مال) اللہ تعالیٰ تمہارے لڑے بھڑے بغیر اپنے رسول کے ہاتھ لگائے وہ اللہ کا ہے اور رسول کا اور قرابت والوں کا اور یتیموں مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے تاکہ تمہارے دولت مندوں کے ہاتھ میں ہی یہ مال گردش کرتا نہ رہ جائے اور تمہیں جو کچھ رسول دے لے لو، اور جس سے روکے رک جائو اللہ تعالیٰ سے ڈرتے رہا کرو، یقیناً اللہ تعالٰی سخت عذاب والا ہے۔ ( سورۃ الحشر، آیت 7)
اسلام افراد ، معاشرہ کے درمیان معاشی مساوات پیدا کرنا چاہتا ہے۔ معاشی مساوات کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ایک شخص کے پاس جتنی دولت ہو اتنی ہی دولت دوسرے کے پاس بھی ہو؛ کیوں کہ ایسی مساوات غیر فطری بھی ہے اور ناقابلِ عمل بھی۔ معاشرے کے ہر فرد کے پاس یکساں مال و دولت ہو ایسا ممکن نہیں ہے۔ ذہنی صلاحیت میں کمی بیشی کے لحاظ سے مختلف افراد کے درمیان فرق ضروری ہوتا ہے کیوں کہ اس کے بغیر حقیقی معنوں میں کوئی موثر تمدنی نظام قائم نہیں ہوسکتا ہے۔مگر دو انسانوں کے درمیان یہ فرق کا تناسب لامحدود نہیں ہونا چاہیے اور عہدہ کے اعتبار سے اعزازات، رعایتوں اور فضول رسمی تحفظات کے چونچلے ختم کر دینے چاہئیں۔ اسلام جس مساوات کو چاہتا ہے وہ یہ ہے کہ معاشرہ کے تمام افراد کو یکساں مواقع حاصل ہوں اور مال و دولت کی کمی بیشی کے ساتھ ساتھ افراد معاشرہ کے معیارِ زندگی اور مظاہرِ معیشت میں زیادہ فرق نہ ہو۔ اسلام نے وہ تمام فرق جو محض عہدہ اور حیثیت کی بنا پر قائم کیے جاتے ہیں، ان کو مٹا دیا اور صرف نام نہاد مساوات کی جگہ حقیقی تمدنی مساوات اور معاشی انصاف قائم کیا ہے۔ معاشرہ میں سرمایہ کی صحیح گردش کا دوسرا میدان کاروبار اور تجارتی لین دین ہے جو عام لوگوں کے درمیان قائم ہوتا ہے۔ معاصر دنیا میں اس سلسلے میں دو نظریے پائے جاتے ہیں: ایک قومی ملکیت کا نظریہ اور دوسرا سرمایہ داری کا نظریہ۔ قومی ملکیت کے نظریہ کے تحت اسٹیٹ کے تمام کاروبار کو قومی ملکیت بنا کر قومی ملکیت میں دے دیے جاتے ہیں اور لوگ اپنی اپنی وسعت کے لحاظ سے کام کرتے ہیں اور پھر اس قومی ملکیت سے اپنا حصہ پاتے ہیں۔ قومی ملکیت کا نظام سوویت روس میں بزور اور بہت جوش و جذبہ کے ساتھ نافذ کیا گیا لیکن غیر فطری ہونے کی وجہ سے ناکام ہو گیا ۔ دوسر ی طرف سرمایہ دارانہ نظام میں ہر شخص کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ بے روک ٹوک اپنی آمدنی مسلسل بڑھاتا چلا جائے۔ اس بے قید نظامِ معیشت کا خاصہ یہ ہے کہ جب یہ اپنی انتہا کو پہنچتا ہے تو دولت ہر طرف سے کھنچ کھنچ کر صرف چند مٹھیوں میں جمع ہوجاتی ہے اور کاروبار پر ان کی اجارہ داری قائم ہوجاتی ہے اور عوام کے لیے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں رہ جاتا کہ وہ ان مٹھی بھر سرمایہ داروں کی ملازمت کریں یا ان کے ایجنٹ بن کر ان کے کاروبار کو فروغ دیں۔ مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام نے دولت کا توازن ختم کر دیا ہے۔ آج اسی نظام کا نتیجہ ہے دولت چند ہاتھوں کی باندی بنی ہوئی ہے اور وہ جس طرف چاہتے ہیں دنیا کے مالی نظام کو گھما پھرا رہے ہیں۔ آج جو مال دار ہے وہ مزید مال دار ہورہا ہے اور غریب شخص غربت کے دلدل میں دھنستا چلا جارہا ہے۔ اسلام نے قومی ملکیت اور بے مہار ملکیت کی دو انتہائوں کے درمیان ایک راہِ اعتدال تجویز کیا ہے۔ وہ انفرادی ملکیت کو تسلیم کرتا ہے لیکن وہ کچھ ایسی پابندیاں بھی عائد کرتا ہے تاکہ دولت کی تقسیم کا توازن بگڑنے نہ پائے۔ اسلام نے دولت کے یک طرفہ بہائو کو روکنے کے لیے سب سے پہلے اس بات کی کوشش کی ہے کہ ایسے تمام کاروبار قانوناً ممنوع ہوں، جس میں ایک شخص کا فائدہ اور بہت سے لوگوں کا نقصان ہو۔ اسلام نے سود کی تمام شکلوں کو حرام و ناجائز قرار دیا ہے؛ کیوں کہ سود کا نظام ایک یا چند اشخاص کے نفع کو یقینی بنانے کی بنیاد پر قائم ہوتا ہے۔ سود کا مطلب یہ ہوتا ہے سرمایہ دار کے نام خوش حالی کا پٹہ لکھ دیا جائے اور اس کو ہر قسم کے خطرہ اور نقصان سے محفوظ کر دیا جائے۔ اگر قرض دار کنگال بھی ہوجائے تو قانون اس کے گھر کا اثاثہ بیچ کر اصل مع سود سرمایہ دار کو ادا کرتا ہے۔ اس طرح سودی معاملات کے نتیجہ میں دولت کے بہائو کا رخ عوام کے بجائے مٹھی بھر سرمایہ داروں کی طرف ہو جاتا ہے۔ دولت کی صحیح تقسیم قائم رکھنے اور معاشرہ میں مساوی گردش کو یقینی بنانے کے مقصد سے زکوٰۃ فرض کی گئی، جس کا اصول ہے کہ مال داروں سے وصول کی جائے اور غریبوں کو ادا کی جائے۔ اسلام غنی اور مال دار کو حکم دیتا ہے کہ وہ اپنا زائد اور اضافی مال راہِ خدا میں خرچ کرکے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرے اور اخلاقی عظمت حاصل کرے۔ اسلام نے ہر قسم کی ملکیت کا ایک معیار مقرر کر دیا ہے، جس کے پاس بھی اس معیار سے زیادہ دولت پائی جائے گی اس سے ہر سال زکوٰۃ کا لازمی حصہ وصول کیا جائے گا۔ اگر کوئی ملک صحیح معنوں میں اسلامی نظامِ زندگی کو قبول کرکے نافذ کر لے تو وہاں افلاس، گداگری اور دیگر معاشی جرائم کا خاتمہ ہوجائے گا۔ نظام زکوٰۃ دولت کے سمٹائو کو روک کر اس کا بہائو معاشرہ کے کمزور افراد کی طرف کر دیتا ہے۔ ہماری بدقستمی اور مفلوق الحالی کا بنیادی سبب یہی ہے کہ ہم نے اسلامی نظام حیات کو ترک کر کے اغیار کا نظام اپنا لیا جس نے ہمیں بطور قوم ناکارہ بنا دیا، یہی وجہ ہے کہ متعدد بار آئی ایم ایف سے قرض لینے کے باوجود پستی اور بربادی ہمارا مستقل مقدر بن چکے۔ ہماری بقا فقط اسلام کی دی ہوئی معاشی پالیسی کو اپنانے میں ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button