Ali HassanColumn

بلے بلے آئی ایم ایف کا قرضہ منظور ہو گیا

علی حسن
پاکستان میں حکمران اور ڈالر کے متلاشی حضرات خوشی میں بغلیں بجا رہے ہیں کہ آئی ایم ایف کا پاکستان کے ساتھ پاکستان کو قرضہ فراہم کرنے کا معاہدہ ہو گیا ہے۔ آئی ایم ایف کے ایک اعلامیہ کے مطابق پاکستان اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ ( آئی ایم ایف) کے درمیان اسٹاف لیول معاہدہ طے پا گیا ہے۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ آئی ایم ایف ٹیم نے پاکستانی حکام کے ساتھ سٹاف کی سطح پر 2250ملین ایس ڈی آر ( تقریباً 3بلین ڈالر یا 111فیصد آئی ایم ایف کوٹہ) کی رقم میں نو ماہ کے سٹینڈ بائی ارینجمنٹ ( ایس بی اے) پر معاہدہ کیا ہے۔ معاہدہ آئی ایم ایف کے ایگزیکٹو بورڈ کی منظوری سے مشروط ہے، جس سے توقع ہے کہ جولائی کے وسط تک اس درخواست پر غور کیا جائے گا۔ پاکستان کو یہ رقم سانس لینے میں مدد ضرور دے گی لیکن وزیر اعظم نے جیسے کہا کہ سخت کاوشوں کے بعد یہ معاہدہ ہوا ہے۔ پاکستان نے مختلف دورانیہ کے بار بار مذاکرات کئے۔ سوال یہ ہے کہ اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی حکمرانوں اور معاشی ماہرین کو یہ بھی تو سوچنا چاہئے تھا کہ قرضے کے علاوہ معیشت کو سہارا دینے کے لئے اور کیا اقدامات کرنے چاہئے لیکن بظاہر ایسا نہیں کیا گیا۔ حکومت میں شامل ہوں یا نہ ہوں، دولت مند طبقہ اپنی جیب سے پاکستان کی مالی مدد کرنے کے لئے ایک پیسہ بھی دینے پر آمادہ نہیں ہے حالانکہ ساری سہولتیں حاصل کر رہا ہے۔ وزیراعظم کہتے ہیں کہ عام آدمی کو نہیں اب اشرافیہ کو قربانی دینا پڑیگا، عام آدمی 75سال سے قربانیاں دے رہا ہے۔ کیا آئی ایم ایف سے ملنے والا قرضہ پاکستان کی معیشت میں بہتری کو کوئی راستہ نکالے گا۔
پاکستانی حکمرانوں کی موجودہ اور ماضی کی روش دیکھتے ہوئے نظر نہیں آتا ہے کہ پاکستان اپنا کشکول نہیں توڑ سکے گا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ پاکستان میں کسی بھی مرحلے پر ایسے اقدامات ہوتے نظر نہیں آتے ہیں جو پاکستان کو معاشی خطرات سے بچا سکے یا پاکستان کو دیوالیہ ہونے سے مستقل بچا سکے۔ پاکستان کے اقتصادی ماہرین اس حل سے آگے سوچ ہی نہیں سکے ہیں کہ ملکی ہوائی اڈے، بندر گاہیں، غیر ممالک کو لیز پر دے دیں۔ ان قومی اثاثوں کو دوبارہ کیسے حاصل کیا جا سکے گا ، کوئی منصوبہ پیش نہیں کیا گیا ہے۔ پاکستان وہ ملک تھا جس نے انگریز کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد گوادر خریدا تھا ، لیکن حکمران اسے بھی گروی رکھ چکے ہیں۔ یہ گروی رکھنے، لیز پر دینے، اثاثے فروخت کرنے سے بھلا کبھی کہیں یا کسی ملک کی معیشت بہتر ہوئی ہے۔ اگر نہیں ہو سکی ہے تو پاکستان کی کیوں کر بہتر ہو سکے گی۔ پاکستانی دولت مند حکمران طبقہ کو اپنی مراعات، سہولتوں، افراتفری اخراجات، ضرورت سے زیادہ بڑی گاڑیوں اور بڑے گھروں کا استعمال بند کرنا ہوگا۔ حکومت خواہ کوئی بھی ہو اسے آنکھیں ماتھے پر رکھ کر ٹیکس وصول کرنا ہوا۔ اگر ایسا کر لیا گیا تو سب کی خیر ہوگی۔ پاکستان کو اپنی اشیا در آمد اور بر آمد پر بار بار نظر ثانی کرنا چاہئے، اس کے حق میں بہتر یہ ہی ہوگا کہ غیر ضروری اشیاء کی درآمد کی روش کو کچل دیا جائے۔ پاکستان کا اقتدار سے چمٹا رہنے والا طبقہ بس اپنا وقت گزارنا چاہتا ہے انہیں کوئی غرض نہیں کہ اس ملک کا انجام یا حشر کیا ہوگا۔ اپنے حالات کی روشنی میں اپنا وقت گزارنا پاکستانیوں کو آتا ہی نہیں ہے۔ حالات سے مجبور ہو کر لوگ وقت گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں۔
آئی ایم ایف کا کہنا ہے کہ نیا ایس بی اے معاہدہ پاکستانی عوام کی ضروریات کو پورا کرنے میں مدد کیلئے ملکی آمدنی کو بہتر بنانے اور محتاط اخراجات پر عمل درآمد کے ذریعے سماجی اور ترقیاتی اخراجات کیلئے جگہ بھی پیدا کرے گا۔ پاکستان کے موجودہ چیلنجوں پر قابو پانے کیلئے مستحکم پالیسی پر عمل درآمد کلیدی حیثیت رکھتا ہے، بشمول زیادہ مالیاتی نظم و ضبط، بیرونی دبائو کو جذب کرنے کیلئے مارکیٹ کا تعین شدہ زر مبادلہ کی شرح اور اصلاحات پر مزید پیش رفت، خاص طور پر توانائی کے شعبے میں، موسمیاتی لچک کو فروغ دینے اور بہتر بنانے میں مدد کرنا ہے۔ معاہدہ پاکستان میں مالی نظم و ضبط کا باعث بنے گا اور معاہدے سے توانائی کی اصلاحات یقینی بنائی جائیں گی جب کہ ایکس چینج ریٹ کو مارکیٹ کے حساب سے مقرر کیا جائے گا۔ دیکھنے میں یہ آیا ہے کہ پاکستانی با اختیار قوتوں کے لئے مالی نظم و ضبط رکھنا آسان کام نہیں ہے۔
کسی نظم و ضبط کے بغیر تو کسی گائوں کا نظام بھی نہیں چل سکتا ہے۔ یہ تو 22کروڑ عوام کا ملک ہے جہاں عوام پستے چلے آرہے ہیں۔ خواص عیش و آرام کی زندگی گزار رہے ہیں۔ تمام حکومتوں پر ان کا ہی اثر ہوتا ہے اس لئے ان کے بلکنے کا موقع ہی نہیں آتا ہے۔
تازہ ترین ایک مثال دیکھیں۔ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی ایک لمبے وفد کے ہمراہ ادائیگی حج کا مذہبی فریضہ ادا کرنے گئے۔ اپنی اہلیہ، بیٹے بہو، دیگر رشتہ داروں، سرکاری ملازمین، وغیرہ وغیرہ کو ساتھ لے گئے تھے۔ ان حضرات کی حج کے لئے روانگی زر مبادلہ کے خرچ کے بغیر تو ممکن نہیں ہوئی ہوگی۔ صدر پاکستان کو سوچنا چاہئے تھا کہ ملک اس وقت جس طرح کی مشکلات کا شکار ہے اس میں انہیں اور ان کی اہلیہ کو ہی جانا چاہئے تھا۔ انہوں نے ایسا سوچا نہ کیا۔ صدر پاکستان شرعی پابندیوں سے اچھی طرح بہرہ ور ہوں گے۔ وہ خود مالی طور پر تنگ دست نہیں ہیں کہ اس آڑے وقت میں ملک ہر بوجھ بنتے۔ ان کے بیٹے اور ہو یا دیگر رشتہ داروں کو کیوں حکومت پاکستان کا مہمان بننا چاہئے تھا۔ حج کی ادائیگی تو مذہبی فریضہ ہے جس کی ادائیگی اسے ادا کرنے والے پر ہی عائد ہوتی ہے۔ علما کے ایک گروہ نے تو کاروباری اداروں کے ملازمین کو قرعہ اندازی کے ذریعہ ہی حج کے ادائیگی اعتراض اٹھایا تھا۔ حج کی ادائیگی اسی صورت میں لازم ہے جب اپنی ذاتی کمائی میں سے انجام دیا جائے۔ یہ جو سرکاری خرچ پر حج کئے جاتے ہیں ان پر پابندی عائد ہونا چاہئے اور اس صورت میں تو بہت ضروری ہے جب ملک ایک ایک ڈالر کے لئے ترس رہا ہو اور قرضے مانگ مانگ کر اپنی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button