ColumnMazhar Ch

آمریت کی ہر شکل قابل مذمت ہے

مظہر چودھری
یوں تو مملکت پاکستان اب تک 4براہ راست فوجی آمریتیں اور متعدد قسم کی سول و نیم فوجی آمریتیں برداشت کر چکی ہے لیکن5جولائی 1977ء کی آمریت بقیہ آمریتوں کے مقابلے میں ملک کے لئے کہیں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئی۔5جولائی کی آمریت نے ایک طرف ملک میں بڑی مشکلوں سے پروان چڑھتی جمہوریت کا گلہ گھونٹ کر پاکستان کے جمہوری مستقبل پر سوالیہ نشان کھڑے کر دیئے تو دوسری طرف ملک میں فرقہ واریت، جبر، صوبائیت اور انتہا پسندی کے وہ بیج بوئے جن کی فصلیں ہم ابھی تک کاٹ رہے ہیں۔ آمریت کے اس دور میں نہ صرف سیاسی کارکنوں اور رہنمائوں کو قید و بند کی سخت صعوبتیں برداشت کرنا پڑیں بلکہ جمہوریت کی حمایت اور آمریت کی مخالفت کرنے والے لکھاریوں اور صحافیوں کی زندگیاں اجیرن بنا دی گئیں۔ پاکستان میں تھوپی جانیوالی آمریتوں میں 5جولائی کی آمریت سب سے بدترین ہے کہ اس آمریت میں سیاسی کارکنوں اور صحافیوں کو کوڑے تک مارے گئے۔5جولائی کی آمریت واحد آمریت ہے جس کی علمی و ادبی اور سیاسی و صحافتی سطح پر بھر پور مزاحمت دیکھنے میں آئی۔ ضیاء دور میں ایم آر ڈی ( بحالی جمہوریت کی تحریک) بھی چلی جس میں سینکڑوں کی تعداد میں سیاسی کارکنوں نے جمہوریت کی بحالی کے لئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا۔ ایک اندازے کے مطابق بحالی جمہوریت کی تاریخ میں20ہزار سے زائد سیاسی کارکنوں کو جیلوں میں بند کیا گیا۔5جولائی کی آمریت اس حوالے سے بھی بدترین رہی کہ اس آمرانہ دور میں پھیلائی گئی نفرت وتعصب اور فرقہ واریت و شدت پسندی کی آگ نے آنے والے سالوں میں نہ صرف پاکستان اور عالم اسلام کو اپنی لپیٹ میں لے لیا بلکہ اب اس آگ کے شعلے امریکہ و برطانیہ سمیت دنیا کے طول و عرض میں بلند ہو رہے ہیں۔
یہ ایک المیے سے کم نہیں کہ پاکستان کی75سالہ تاریخ میں نصف کی قریب عرصہ فوجی آمریتیں رہی ہیں اور بقیہ ماندہ سالوں میں بھی منتخب حکومتیں خارجہ تعلقات و دفاع سمیت متعدد معاملات میں آزاد و خودمختار نہیں رہیں۔ پاکستان میں سویلین حکمرانوں اور فوجی اسٹیبلشمنٹ کے باہمی تعلقات کی نوعیت ہمیشہ سے حساس اور پیچیدہ رہی ہے۔ ہماری ہاں بھٹو صاحب کا پہلا دور حکومت ( 1971۔1977) سول بالادستی کا دور کہا جا سکتا ہے لیکن اس دور میں بھٹو صاحب بذات خود سول ڈکٹیٹر کے طور پر سامنے آئے۔ باقی ماندہ عرصے میں کبھی فوج براہ راست اقتدار کے مسند پر فائز رہی تو کبھی بلواسطہ طریقے سے اقتدار فوجی صدور کی ذات کے گرد طواف کرتا رہا۔ کبھی پارلیمانی حکومت کے تحت غیر پارلیمانی طاقتوں ( سول بیوروکریسی) کی حکمرانی رہی تو کبھی سول حکومت میں فوج کے غیر رسمی مگر موثر کردار کی باز گشت واضح سنائی دیتی رہی ہے۔ پاکستان میں جمہوری عمل کے کمزور ہونے کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہاں ابھی تک صرف دو منتخب حکومتیں اپنی آئینی مدت پوری کر نے میں کامیاب ہوئی ہیں۔ یہ ایک المیے سے کم نہیں کہ ہمارے ہاں ایک آمر کے رخصت ہونے کے بعد دوسرے آمر کی بادشاہت کیلئے باقاعدہ طور پر سیاسی ماحول سازگار بنایا جاتا رہا ہے۔ پرویز مشرف کی رخصتی کے بعد مقتدرہ نے براہ راست اقتدار پر قابض ہونے کی بجائے جمہوری حکومتوں کو مختلف طریقوں سے کنٹرولڈ کرنے کی کامیاب کوششیں کی ہیں۔2013ء میں بننے والی نواز شریف حکومت نے پرویز مشرف کے خلاف آئین سے غداری کا مقدمہ چلانے کی جرات کی تو ان کے خلاف ملکی تاریخ کے طویل ترین دھرنوں اور احتجاجی مظاہروں کو ’’سپانسرڈ‘‘ کیا گیا جبکہ ڈان لیک کی پاداش میں اس وقت کے وزیراعظم کو عدالت سے نااہل کرا کے سیاست سے آئوٹ کرنے کی کوشش کی گئی۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاستدانوں کو جب جب موقع ملا ہے انہوں نے ایک دوسرے کی ٹانگیں کھنچنے سمیت کرپشن اور لاقانونیت کی بدترین مثالیں قائم کی ہیں لیکن اس کو جوا ز بناکر چند ایک مرئی و غیر مرئی عناصر کی جانب سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی کوششیں کرنا کسی بھی طرح جسٹفائیڈ قرار نہیں دیا جا سکتا۔ اس بات میں بھی کوئی دو رائے نہیں کہ ہماری بڑی سیاسی جماعتوں نے پارٹی کے اندرونی ڈھانچے کو جمہوری بنانے اور معاشرے میں جمہوری اقدار کو پروان چڑھانے کیلئے کوئی قابل ذکر کوششیں نہیں کیں لیکن ہمیں یہ بات بھی ذہن نشین رکھنی ہو گی کہ جمہوریت ایک ارتقائی عمل ہے ۔ جن ملکوں کی مثالی جمہوریت کی ہم مثالیں دیتے نہیں تھکتے وہاں جمہوری عمل کے تسلسل کی تاریخ دہائیوں کی بجائے کئی کئی صدیوں پر محیط ہے جبکہ ہماری 75سالہ سیاسی تاریخ میں ابھی تک صرف دو جمہوری حکومتوں نے اپنی آئینی مدت پوری کی ہے۔ غیر جانبداری سے تجزیہ کیا جائے تو فوجی حکومتیں ملکی عدم استحکام اور دیگر معاملات کو ابتر کرنے کے حوالے سے سیاسی حکومتوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصان دہ اور خطرناک ثابت ہوئی ہیں۔ فوجی آمر ایوب خان کی امتیازی پالیسیاں مشرقی اور مغربی پاکستان میں معاشی اور سیاسی خلیج گہری کرنے کا باعث بنیں تو ڈکٹیٹر یحییٰ خان کے دور میں اس بدترین سیاسی بحران نے جنم لیا جو مشرقی پاکستان کی علیحدگی پر منتج ہوا۔ ضیائی آمریت میں ایک استعماری طاقتوں کے مفادات کے تحفظ کیلئے لڑی جانے والی پراکسی وار نے ملک میں فرقہ واریت و انتہا پسندی کے بیج بوئے تو مشرف کی آمریت میں ایک اور پراکسی وار لڑ کر پاکستان دہشت گردی کی دلدل میں دھنس گیا۔
اگرچہ 2018ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں بننے والی سیاسی حکومت کو ابتدائی تین سالوں میں اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی قسم کی قابل ذکر مخالفت کی بجائے بھر پور سپورٹ مہیا رہی تاہم اس دور میں سیاسی مخالفین کو ڈرانے، دھمکانے اور دبانے کے لئے فوجی آمریتوں جیسے منفی ہتھکنڈے استعمال کئے گئے۔ اس دور میں حکومت یا حکومتی پالیسیوں کے خلاف کھل کر بولنے والوں کے خلاف گھیرا ایسے تنگ کیا گیا کہ بلاول بھٹو زرداری یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ ’’ حکومت مارتی بھی ہے اور رونے بھی نہیں دیتی‘‘۔ اگرچہ پی ٹی آئی حکومت کے خلاف آنے والی عدم اعتماد کی تحریک میں بھی غیر جمہوری قوتوں کی پشت پناہی شامل تھی لیکن یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے کہ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اپوزیشن جماعتوں سے بات چیت کے تمام راستے بند کرنے سمیت ایسا آمرانہ طرز عمل اختیار کیا کہ جمہوریت کی مالا جپنے والی جماعتوں نے پہلے عدم اعتماد کامیاب کرانے میں غیر جمہوری قوتوں کا سہارا لیا اور بعد ازاں 9مئی کے واقعہ کے نتیجے میں بننے والے حالات میں مقتدرہ کو کاندھا دینے میں پیش پیش رہیں۔ موجودہ حالات کی صحیح ترجمانی کرنے کے لیے قارئین کو عوامی و انقلابی شاعر جالب مرحوم کی لازوال نظم ’’ جمہوریت ‘‘ پڑھنے کا مشورہ دوں گا کہ آج بھی یہاں ڈر اور خوف سے پورا سچ بولنے پر پابندی ہے، آج بھی یہاں سوچ پر تعزیریں ہیں، آج بھی چند لوگوں کی بات ہی حرف آخر ہے اور آج بھی برائے نام جمہوریت ہے۔ حرف آخر یہی کہ تمام تر نعروں اور وعدوں کے باوجود یہاں نہ تو ووٹ کو عزت مل سکی ہے اور نہ ہی جمہور کی مرضی و منشا کی کسی کو پرواہ ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button