CM RizwanColumn

5جولائی 77سے آج کے لئے سبق

سی ایم رضوان
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ہے۔ یعنی اس کا سرکاری مذہب اسلام اور جمہوریت اس کا نظام حکومت ہے مگر افسوس کہ اس ملک میں آج تک نہ تو اسلام اپنی اصل روح کے مطابق وضع کیا جا سکا اور نہ ہی اصل جمہوریت کے خدو خال یہاں کی جمہور کو دیکھنا نصیب ہوئے۔ ایک طرف یہاں اسلام کے نام پر اسلحہ اکٹھا کرنے اور دہشت گردی کرنے جیسے تجربات ہوئے تو دوسری طرف یہاں اکثر مارشل لاء کا تسلط رہا اور اگر کبھی جمہوریت آئی بھی تو وہ بھی آمریت کی گود میں پل کر جوان ہوئی۔ نتیجہ وہی کہ ’’ کیکر تے انگور چڑھایا تے ہر گچھہ زخمایا ‘‘ یہاں منتخب جمہوری حکومتوں پر متعدد مرتبہ فوجی بلوے بھی ہوئے اور منتخب وزرائے اعظم کو جان سے بھی ہاتھ دھونا پڑے۔ وجہ صرف ایک ہی ہے کہ یہاں بااختیار اور بااثر طبقات کسی اصول پر عمل کرنے اور عوام کی خدمت کرنے کی بجائے لوٹ مار مچاتے ہیں اور جب لوٹ کا مال تقسیم کرنے میں بدنظمی یا کسی طرف سے کوئی بدعہدی ہو جائے تو یہ آپس میں لڑ پڑتے ہیں، پھر اچھی بھلی چلتی حکومتیں بھی گر جاتی ہیں۔ دوسرا جب ان لٹیروں کا آپس میں اتفاق ہوجائے کہ کس نے کتنا کھانا ہے اور کہاں سے کھانا ہے تو یہ مختلف اقسام کے معاہدات اور چارٹر وغیرہ طے کر کے دوبارہ سے حکومتیں بنا لیتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر لوٹ کھسوٹ شروع ہو جاتی ہے۔ 1977ء میں مارشل لا لگنے کی بنیادی وجہ بظاہر اس وقت کی حکمران جماعت پیپلز پارٹی اور اسٹیبلشمنٹ کے درمیان اختلافات تھے۔ اس سے پہلے ایک وقت وہ تھا کہ میجر جنرل ضیا الحق نے آرمی چیف بننے کے لئے، لاڑکانہ میں بھٹو کے والد کی قبر پر جا کر فاتحہ پڑھی اور جھاڑو بھی لگائی۔ پھر بھٹو اس پر مہربان ہوئے اور اسے آرمی چیف بنا دیا۔ اسی ضیاء الحق نے پانچ جولائی 1977ء کو بھٹو کا تختہ الٹ دیا اور پھر وہ وقت بھی آیا کہ بھٹو کو پھانسی دے کر اسی لاڑکانہ کے قبرستان میں ضیاء الحق کے حکم پر ہی سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو دفن کیا گیا۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں 5جولائی 1977ء وہ دن ہے جب فوجی بغاوت مارشل لا کے نفاذ کا سبب بنی۔ آج ذوالفقار علی بھٹو کی عام انتخابات کے ذریعے منتخب ہونے والی پاکستان کی پہلی جمہوری حکومت کا تختہ الٹے جانے کو 46سال کا عرصہ گزر چکا ہے لیکن اس کے باوجود آج بھی اس جمہوری حکومت کو مارشل لا کے ذریعے ہٹائے جانے کے اثرات سیاسی نظام پر اثر انداز ہوتے نظر آتے ہیں۔
بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ 1977ء کے انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف متحدہ اپوزیشن کی حکومت مخالف تحریک اس قدر پُر زور تھی کہ اس وقت کے آرمی چیف جنرل ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا۔ یہ تحریک جب نظامِ مصطفیٰ تحریک میں بدلی اور فوجی جوانوں نے مظاہرین پر گولیاں برسانے کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا تو اس صورتِ حال میں ضیا الحق کے پاس مارشل لا لگانے کے علاوہ کوئی اور حل نہیں تھا۔ اس سے قبل 1977ء کے انتخابات میں ذوالفقار علی بھٹو پر مبینہ دھاندلی کے الزامات لگائے گئے جبکہ بھٹو حکومت کے خلاف سیاسی و مذہبی جماعتوں کا پاکستان نیشنل الائنس ( پی این اے) بنا۔ جسے ضیا الحق نے بھٹو حکومت کے خلاف استعمال کیا۔ جیسا کہ بیان کیا گیا ہے کہ اختلاف صرف یہی تھا کہ بھٹو مخالف سیاسی لیڈر سمجھتے تھے کہ بھٹو اقتدار کے مزے لے رہا ہے اور ہم بھوکے پیاسے سڑکوں پر رل رہے ہیں۔ سقوط ڈھاکہ کے بعد فوج کی جانب سے مظاہرین پر گولیاں چلانے سے انکار کا یہ پہلا واقعہ تھا۔ دوسرا پہلو اس امر کا یہ ہے کہ دھاندلی کے الزامات سے شروع ہونے والی پی این اے کی تحریک اتنی بے قابو ہو گئی تھی کہ لاہور میں مارشل لا لگانا پڑا تھا۔ اس کے بعد پی این اے نے جب نظامِ مصطفی کا نعرہ لگایا تو یہ انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلی سے ہٹ کر دینی مسئلہ بھی بن گیا تھا۔ فوجی جوانوں کے احکامات ماننے سے انکار کے بعد صورتِ حال یہ ہو گئی تھی کہ بریگیڈ کمانڈرز نے مستعفی ہونا شروع کر دیا تھا۔ اس صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے جنرل ضیا الحق اسی رات مستعفی ہونے والے بریگیڈئیرز کو قائل کرنے لاہور ہیڈ کوارٹرز پہنچے۔ تاہم وہ اس میں کامیاب نہ ہوسکے اور ایک طرح کی بغاوت ہو گئی جس کے سبب ضیا الحق کو مارشل لا لگانا پڑا۔ یہ بھی ایک سوال ہے کہ وہ ضیا الحق جس کو ذوالفقار علی بھٹو نے بحیثیت وزیراعظم آرمی چیف تعینات کیا تھا وہ بھٹو کا دشمن کیسے بن گیا۔
ضیا الحق کو آرمی چیف بنائے جانے سے متعلق ایک واقعہ یہ بیان کیا جاتا ہے کہ ذوالفقار علی بھٹو کے گھر میں رہنے والے نور محمد، جو ان کے مخبر بھی تھے، ایک بار انہوں نے بتایا تھا کہ جب ضیا الحق میجر جنرل تھے تو وہ نور محمد کے ساتھ لاڑکانہ میں بھٹو کے والد کی قبر پر گئے۔ فاتحہ پڑھی اور جھاڑو بھی لگائی جس کے بعد ضیا الحق نے نور محمد سے کہا کہ یہ سب صاحب ( بھٹو) کو بھی بتانا۔ ایک اور قصہ سناتے ہوئے نور محمد نے بتایا کہ ایک بار ضیا الحق نے بھٹو کے جوتے اپنے رومال سے صاف کیے تھے جس پر بھٹو مزید اکڑ گئے اور انہوں نے اپنے پائوں اوپر کرتے ہوئے ضیا الحق سے کہا کہ ذرا صحیح سے صاف کریں۔ خیال ہے کہ ضیا الحق نے یہ سب آرمی چیف کا عہدہ حاصل کرنے کے لئے کیا اور عہدہ حاصل کرنے کے بعد ضیا الحق نے بھٹو کو معزول کر دیا۔ ضیا الحق کی بھٹو سے ذاتی دشمنی پیدا ہونے کی وجہ یہ بیان کی جاتی ہے کہ مارشل لا لگائے جانے کے بعد بھٹو کو جب مری سے ضمانت پر چند دن کے لئے رہا کیا گیا تو بھٹو نے کچھ ایسی تقاریر کیں جن سے یہ تاثر گیا کہ بھٹو مارشل لا لگانے والوں کو سبق سکھائیں گے۔ یقیناً بھٹو کی ان باتوں نے ضیا الحق کی دل میں خوف پیدا کر دیا تھا۔ ہو سکتا ہے ضیا الحق نے جب دیکھا کہ حالات ایسے ہیں کہ اگر وہ بھٹو کو ہٹا بھی دیں تو کوئی کہرام برپا نہیں ہو گا۔ سو انہوں نے مارشل لا لگا دیا۔ بھٹو حکومت کی برطرفی اور بھٹو کی پھانسی کے تناظر میں ایک اور پہلو بڑا غور طلب ہے کہ ایئر مارشل ( ریٹائرڈ) اصغر خان اس وقت کی حزب اختلاف میں تھے۔ وہ ایک اچھے ایئر چیف بھی رہ چکے تھے اور ان کی مسلح افواج میں بہت عزت تھی۔ انہوں نے تمام فوجی اداروں کو خط لکھے تھے جو بنیادی پر طور پر بغاوت پر اکسانے کے زمرے میں آتے تھے۔ انہوں نے ان خطوط کے ذریعے بحری، بری اور فضائی افواج کو اپنے تئیں جھنجوڑتے ہوئے کہا تھا کہ آپ کا چُپ رہنا ملک کو بڑی تباہی سے دو چار کر دے گا کیونکہ بھٹو جو کچھ کرنا چاہتے ہیں اس سے ہرگز باز نہیں آئیں گے۔ دوسری طرف اپوزیشن نے مبینہ انتخابی دھاندلی کا مسئلہ حل ہوتا دیکھ کر ذوالفقار علی بھٹو سے جان چھڑانے کے لئے نظامِ مصطفی کا نعرہ متعارف کرایا، جو عوام کو متحرک کرنے اور مارشل لا کے نفاذ کا بنیادی سبب بنا۔
5جولائی 1977ء کو لگائے گئے مارشل لا کے بعد سے اب تک کے حالات چیخ چیخ کر یہ کہہ رہے ہیں کہ پاکستان میں اقتدار میں آنے کے لئے ایک طرف تو بس باریاں لگائی جاتی ہیں۔ دوسری طرف یہ بھی قباحت ہے کہ یہاں اقتدار میں آنے والی اکثر جماعتوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کو صفحہِ ہستی سے مٹا دیں تاکہ ان کا دوبارہ اقتدار میں آنے کا کوئی امکان نہ رہے۔ جبکہ 1977ء میں مارشل لا اس لئے بھی لگا کہ منتخب حکومت اور فوج کے مابین تعلقات بہتر نہیں تھے۔
حالات اب بھی 77ء والے بیشتر حقائق کو بیان کر رہے ہیں۔ آج بھی عمران خان نامی ایک نیم سیاست دان فوج کے سربراہ سے لے کر ادارہ کے ہر ایک سپاہی تک کو اپنے حملوں کا نشانہ بنا چکا ہے۔ اس کے لئے ملک اور فوج سے غداری کرتے ہوئے اس نے پہلے فوج کے متعدد افسروں اور جوانوں کو اپنا ہم خیال بناکر ان سے ادارے کے اندرونی معاملات سے آگاہی اور اہم راز حاصل کئے۔ نو مئی کو عمران خان کا منصوبہ یہی تھا کہ فوج کی اعلیٰ قیادت اپنے ماتحتوں کو پی ٹی آئی کے احتجاجی بلوائیوں پر فاءرنگ کا حکم دے گی اور وہ انکار کر دیں گے۔ نتیجتاً بغاوت کا شور ڈال دیا جائے گا اور فوجی قیادت کی تبدیلی یا پھر مارشل لاء لگ جائے گا لیکن خوش قسمتی سے موجودہ فوجی قیادت نے کمال دور اندیشی اور حب الوطنی کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ سازش مٹی میں ملا دی۔ اب پھر خطرہ ہے کہ عمران خان کی گرفتاری کی صورت میں امن عامہ پر کاری ضرب لگانے کی سازش تیار کی گئی ہو۔ پاکستان کے عوام کو اب بھی یقین کی حد تک گمان ہے کہ پاک فوج کی باخبر قیادت آئندہ ہر قسم کی سازش کو ناکام بنا دے گی۔ 77ء کی مارشل لاء سے آج قوم اور سیاسی اشرافیہ کو یہ سبق سیکھ لینا چاہئے کہ پاک فوج ملک کی سب سے بڑی حقیقت ہے اس کو تسلیم کیا جائے اور اس سے بمطابق آئین ملک کی تعمیر اور اس کی حفاظت کا کام لیا جائے نہ کہ اسے سیاست کے گند میں ملوث کر کے اپنے ہی تحفظ اور تعمیر سے چشم پوشی کی راہ اختیار کر لی جائے۔ آج عمران خان کے لئے بھی ایک سبق ہے کہ وہ سیاست کی بہتی دھارا میں شامل ہوں نہ کہ سولو فلائٹ کے لئے محض فوجی حمایت کے حصول کے لئے دن رات ہلکان ہوتے رہیں۔ کیونکہ سیاستدان کی اول و آخر پچ عوام کی حمایت ہوتی ہے اور جو سیاست دان مقبولیت کے باوجود اسٹیبلشمنٹ کی راہ دیکھتے رہتے ہیں ان کا انجام عبرتناک ہوتا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button