Column

خوش آمدید کی تیاری

ہمارا آئین اگرچہ جمہوری، پارلیمانی اور اسلامی ہے لیکن اس کے مزاج پر سوالات کی بھر مار ہے۔ کیا اس لیے اسے بدلنے کی ضرورت کی آوازیں سنائی دیتی ہیں، سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اس تبدیلی کے حوالے کئی بار میڈیا پر بات کر چکے ہیں۔ صدر کو آئین میں ہی آرڈیننس جاری کرنے کا اختیار دے دیا گیا ہے، آئین کے مطابق وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کو اختیار ہے، عدم اعتماد کی قرارداد سے پہلے پہلے جب چاہے اسمبلیاں تحلیل کر دے اور ان کو ایسا کرتے وقت کوئی جواز پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ سوال یہ ہے کہ اگر یہ پارلیمان عوام کی نمائندہ ہے تو اس کی تحلیل کا اختیار فرد واحد کو کیسے دیا جا سکتا ہے؟ ایسی کئی قانونی شق ہیں جن کو قانونی طور پر واضح کیا جانا چاہئے۔ قومی اسمبلی نے اتوار کو الیکشن ایکٹ 2017میں ترمیم کا بل اتفاق رائے سے منظور کر لیا۔ ترمیم کے بعد کسی بھی رکن قومی اسمبلی کی نااہلی کی زیادہ سے زیادہ سزا پانچ سال ہو گی۔ ترمیم سے قبل الیکشن ایکٹ میں آرٹیکل 62اور 63کے تحت نااہلی کی مدت کا تعین نہیں تھا۔ بل کے تحت الیکشن ایکٹ کی شق 57میں بھی ترمیم کی گئی ہے، جس کے بعد عام انتخابات کی تاریخ کے اعلان کا اختیار الیکشن کمیشن کو دے دیا گیا ہے۔ ترمیم کے مطابق الیکشن کمیشن انتخابی شیڈول میں ترمیم کر سکے گا اور وہ صدرِ مملکت کے ساتھ مشاورت کے بغیر انتخابات کی تاریخ دے گا، معاون خصوصی عرفان قادر نے نااہلی سے متعلق ترمیم کے حوالے سے کہنا تھا اس بل کی منظوری سے عدالتیں شرمندگی سے بچ گئی ہیں کیوں کہ تاحیات نااہلی کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ بل کی منظوری کے بعد کیا نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے لیے اہل ہو جائیں گے ؟ معاون خصوصی کا کہنا تھا کہ جب قانون کو واضع کیا جاتا ہے تو اس کا اطلاق ماضی بعید سے شروع ہو جاتا ہے۔ اس بل کی منظور کے بعد نواز شریف اور جہانگیر ترین الیکشن لڑنے کے اہل ہو جائیں گے۔ معاون خصوصی عرفان قادر کا مزید کہنا تھا کہ نواز شریف ہمیشہ سے ہی الیکشن لڑنے کے اہل ہیں۔ میاں نواز شریف اور جہانگیر خان کی نا اہلی ختم ہونا جمہوری اقدام ہی، نا اہلی کی مدت کا تعین واضح ہونا جمہوریت کی فاتح ہے، الیکشن کی طرف پیش قدمی کے آثار واضح ہوتے جا رہے ہیں، دبئی اس وقت مرکز بنا ہوا ہے، کیا دبئی میں کئے جانے والے فیصلے ملک کی معاشی سمت کو تبدیل کر دیں گے، یہ سب سے بڑا چیلنج خاص کر میاں نواز شریف کے لیے ہو گا ، ملکی معیشت اتنی کمزور ہو چکی ہے ، اس کا اندازہ وزیر اعظم شہباز شریف کو با خوبی ہے ، 215ارب کے نئے ٹیکس عوام پر کس قدر تکلیف دے ثابت ہوں گے اس کا اندازہ موجودہ حالات سے لگا سکتے ہیں، ملک میں جاری سیاسی انتشار میں کمی ہو چکی ہے لیکن معاشی صورتحال ابھی تک پٹڑی پر نہیں آئی، ٹیکس چوری کے حوالے سے چند روز پہلے Ipsosکی طرف سے جاری رپورٹ نے سارا پول کھول دیا کیا نواز شریف کی خوش آمدید کے بعد کرپشن، ٹیکس چور، اداروں میں۔ بیٹھے رشوت خور، سوسائٹیوں کے نام پر اوورسیز پاکستانیوں کے کروڑ روپے لوٹنے والے ڈاکوئوں کو قانونی کٹہرے میں لا سکیں گے، کیا چند بنکوں کی طرف سے لوٹے گے 30ارب روپے قومی خزانہ میں واپس ہو جائیں گے؟ ملک کے معاشی امتحان وہی کھڑے ہیں، قیادت ان امتحانات کو کیسے بہتر کر سکتی ہے ؟ پیپلز پارٹی کا عزم ہے کہ آئندہ الیکشن میں بلاول بھٹو وزیر اعظم منتخب ہوں گے، دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ووٹر میاں نواز شریف کو چوتھی بار وزیر اعظم دیکھنا چاہتے ہیں، میرے خیال میں آگے پانچ سال سیاسی اتحادی جماعتوں کے لیے انتہائی اہم ہیں۔ اپوزیشن کا کردار کون سی سیاسی پارٹی ادا کرے گی، فل حال اس کا تعین بھی نظر نہیں آ رہا ، الیکشن کس بیانیہ پر لڑا جائے گا، عوام کو نعروں اور للکاروں کو سننے کی عادت پڑھ چکی ہے، ماضی کے الیکشن الزامات ، مقدمات غدار بنا کر لڑے گے لیکن اس دفعہ الیکشن کا ماحول مختلف ہو گا۔ لیکن آگے پانچ سال بہت اہمیت کے حامل ہیں، بنیادی مسائل میں بہتری لازم ہے، مسائل کے حل میں ناکامی سیاسی جماعتوں کے اپنے وجود کو کمزور کر دے گی۔ اعلیٰ ادارے جمہوری حکومتوں کو سپورٹ کرتے ہیں اور کرتے رہیں گے، لیکن اب جمہوری لیڈروں کو اپنی معاشی پلاننگ سے حالات کو بہتر کرنا ہو گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button