Column

دبئی معاشی حب، پاکستانی سیاست پر بھی اثرانداز

محمد ناصر شریف

امریکہ کی ریاست جارجیا کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھنے والی سکائی ڈائیور اور ایکسٹریم اسپورٹس کی کھلاڑی نکول سمتھ لڈوک نے دنیا کی سب سے اونچی عمارت برج خلیفہ کی چوٹی پہ جا کر یہ کہا کہ ’’ ہائے مام آئی ایم ایٹ ٹاپ آف دی ورلڈ‘‘ ( ہائے ماں میں دنیا کی چوٹی پر ہوں) تو وہ صرف برج خلیفہ کی اونچائی کی بات نہیں کر رہی تھیں، یہ اونچائی دبئی کی بھی تھی جو بہت ہی تھوڑے عرصے میں ترقی کرتے کرتے ’’ برج خلیفہ‘‘ بن گیا ہے اور اس میں مزید منزلوں کا اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ لیکن اس سے قبل کسی ملک نے اتنے کم برسوں میں اتنی زیادہ ترقی بھی تو نہیں کی۔ صرف 35سال پہلے تک جہاں صرف دھول اڑتی نظر آتی تھی وہاں اب دنیا کی اعلی ترین سڑکیں اور جدید ترین میٹرو چلتی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ جہاں ایک ایک دو منزلہ چیدہ چیدہ مکان نظر آتے تھے وہاں اب شاندار فلک بوس عمارتیں کھڑی ہیں اور پوری دنیا کے سیاح اور بزنس مین جن کی ترجیح لندن، پیرس اور نیو یارک ہوا کرتے تھے اب دبئی کا رخ کرتے نظر آتے ہیں۔ متحدہ عرب امارات دراصل سات ریاستوں دبئی، ابوظہبی، شارجہ، أم القوین، راس الخیمہ، عجمان اور الفجیرہ کا وفاق ہے جس کا دارالحکومت ابوظہبی ہے۔ تاہم جب بھی متحدہ عرب امارات کا ذکر آتا ہے تو سب سے پہلے ذہن میں نام دبئی کا ہی آتا ہے، اس لیے متحدہ عرب امارات کی بات دراصل دبئی کی بات ہے۔ اگرچہ ابوظہبی، شارجہ، راس الخیمہ اور دوسری ریاستوں کا بھی اپنا مقام ہے لیکن دبئی بس دبئی ہے۔ ان ریاستوں کو یکم دسمبر 1971ء کو برطانیہ سے آزادی ملی تھی اور اگلے ہی دن یعنی دو دسمبر کو چھ ریاستوں نے ایک وفاقی اتحاد بنالیا تھا۔ ساتویں ریاست راس الخیمہ 10فروری 1972ء کو اتحاد میں اس وقت شامل ہوئی جب ایرانی کی بحری فوج نے آبنائے ہرمز میں کچھ جگہوں پر یہ کہہ کر قبضہ کر لیا کہ یہ اس کی ملکیت ہیں۔ راس الخیمہ اور شارجہ بھی ان علاقوں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتے تھے۔ 1833ء میں بنی یاس قبیلے سے تعلق رکھنے والے تقریباً 800افراد مکتوم خاندان کی سربراہی میں خلیج کے دہانے پر آ کر آباد ہوئے۔ خلیج ایک قدرتی بندر گاہ تھی اور دبئی جلد ہی ماہی گیری، ہیروں اور سمندری تجارت کا مرکز بن گیا۔ بیسویں صدی کے آغاز تک دبئی ایک کامیاب بندرگاہ بن گئی تھی دور دراز کے تاجر وہاں تجارت کی غرض سے آتے تھے۔ ڈئیرا کی جانب خلیج کی سوق ( عربی زبان میں بازار) ساحل سمندر پر سب سے بڑی مارکیٹ تھی جس میں 300دکانیں تھیں جن پر سیاحوں اور کاروباری لوگوں کا مسلسل ہجوم رہتا تھا۔ 1930ء تک دبئی کی آبادی تقریباً 20000تھی جن میں چوتھائی حصہ تارکین وطن لوگوں کا تھا۔ 1950ء کے عشرے میں خلیج تہ نشین گاد اور کیچڑ سے بھرنا شروع ہو گئی جو غالباً بحری جہازوں کے بڑھتی ہوئی تعداد میں بندر گاہ کو استعمال کرنے سے ہوا۔ مرحوم حاکم دبئی شیخ رشید بن سعید المکتوم نے خلیج کی اس گزرگاہ کو کھود کر گہرا کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ ایک مہنگا اور دوراندیش منصوبہ تھا۔ اس کارروائی کے نتیجہ میں دبئی میں نجی جہازوں کے کنٹرول کی استعداد میں اضافہ ہوا۔ نتیجتاً اس نے دبئی کو ایک بڑے تجارتی اور دوبارہ ایکسپورٹ ہونے والی اشیاء کے مرکز کی حیثیت سے نئی قوت عطا کی۔ اب دبئی دیگر ممالک کی طرح پاکستانی سیاست کا مرکز بنتا جارہا ہے۔ پاکستانی سیاستدان بغرض علاج یا کسی خاص ملاقات کے لیے دبئی کا انتخاب کر رہے ہیں۔ کوئی نہ کوئی اہم سیاستدان علاج کا بہانا بناکر دبئی میں خفیہ ملاقاتوں کے لیے چلا جاتا ہے اور یہ دبئی یاترا بعد میں پاکستان کے سیاسی منظر نامے پر گہرے اثرات پیدا کرتی ہے۔ گزشتہ دنوں دبئی پھر پاکستانی سیاست کا مرکز بن گیا ہے، مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف دبئی پہنچ چکے ہیں، متحدہ عرب امارات پہنچنے پر مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف کو دبئی حکومت کی جانب سے خصوصی پروٹوکول فراہم کیا گیا، نواز شریف دبئی میں 6اہم ملاقاتیں کیں، ان انتہائی اہم ملاقاتوں میں پاکستان کے معاشی و سیاسی مستقبل پر طویل بیٹھک ہوئی، جبکہ ان کی وطن واپسی کیلئے روڈ میپ پر تفصیلی گفتگو بھی ہورہی ہے جس میں قانونی الجھنوں کے سلجھانے پر مشورے کیے گئے، سابق صدر آصف علی زرداری بھی دبئی پہنچ چکے ہیں، بلاول بھٹو زرداری بھی اچانک روانہ گئے اور دبئی پہنچ گئے ہیں جبکہ مزید کئی رہنماؤں کی آمد بھی متوقع ہے، آئندہ چند دنوں میں آصف زرداری اور نواز شریف کی ملاقات کا امکان ظاہر کیا جارہا ہے، سابق وزیراعظم عیدالاضحی متحدہ عرب امارات میں ہی کریں گے، جبکہ ان کے ہمراہ مریم نواز بھی موجود ہونگی، نواز شریف کی جولائی کے پہلے ہفتے میں سعودی عرب میں شاہی خاندان سے خصوصی ملاقاتیں طے ہیں۔ ان ملاقاتوں کے پاکستانی سیاست پر گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔ ماضی میں سنہ 2018 ،2013 اور 07۔2006میں بھی متحدہ عرب امارات پاکستانی سیاست کا مرکز بنا تھا اور سنہ 2018 انتخابات سے پہلے عمران خان اور تحریک انصاف کے رہنمائوں نے متعدد سیاسی بیٹھکیں کی تھیں جبکہ 2013کے انتخابات سے بھی پہلے مسلم لیگ ن کے قائد نواز شریف نے متعدد سیاسی ملاقاتیں دبئی میں کی تھیں اور پھر ان کی حکومت قائم ہوئی تھی۔ اور یہی معاملہ پیپلزپارٹی کی 2007میں حکومت آنے سے قبل سیاسی ملاقاتوں کا مرکز متحدہ عرب امارات رہا تھا۔ ایک خیال یہ بھی ظاہر کیاجارہا ہے کہ پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتیں پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ ن میثاق جمہوریت کے طرز پر کوئی نیا معاہدہ کرنے جارہی ہیں۔ 14مئی 2006ء کو پاکستان کی دو بڑی سیاسی جماعتوں کے سربراہان اور سابق وزرائے اعظم میاں محمد نواز شریف اور محترمہ بے نظیر بھٹو نے لندن میں ایک 36نکاتی معاہدے پر دستخط کئے جسے چارٹر آف ڈیمو کریسی یا میثاق جمہوریت کا نام دیا گیا تھا۔ اسی تناظر میں دبئی ملاقاتوں کو اہمیت دی جارہی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ پہلے مرحلے میں دونوں جماعتیں انتخابات میں سیٹوں کی ایڈجسٹمنٹ کے حوالے سے سر جوڑ کر بیٹھیں گی۔ نگراں وزیرِ اعظم کا نام بھی فائنل کیا جائے گا، الیکشن کی تاریخ بھی فائنل کی جائے گی۔ دبئی میں دونوں جماعتوں کے درمیان اس پر بھی بات ہو گی کہ استحکامِ پاکستان پارٹی اور ق لیگ کو کتنی سیٹوں پر ایڈجسٹ کرنا ہے۔ ادھر لاہور میں تاجر و صنعتکاروں سے گفتگو کرتے ہوئے پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری نے میثاق معیشت کی بات کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کی ترقی کے لیے سب کو مل کر کام کرنا چاہیے، میثاق معیشت وقت کی ضرورت ہے، میثاق معیشت پر بات اور دستخط کرنے کے لیے تیار ہوں، پاکستان متاثر ہو گا تو ہم سب متاثر ہوں گے۔ یقینا اس وقت ملک کو میثاق معیشت کی بہت ضرورت ہے جب تک میثاق معیشت نہیں ہوگا ہمارے ملک کے معاشی حالات ابتر ہی رہیں گے۔ ادھر نوازشریف بھی اس وقت پیپلز پارٹی کے ساتھ خود کو کنفرٹ محسوس کر رہے ہیں۔ نوازشریف کو اپنی واپسی کے لیے ابھی پیپلز پارٹی کی ضرورت ہے اور دونوں جماعتوں کو بانی تحریک انصاف کو انتخابات میں شکست دینے کے لیے ایک موثر اور مقبول حکمت عملی بنانا ہوگی اور پی ڈی ایم حکومت کو عوام ریلیف دینے کیلئے اقدامات کرنا ہوں گے ورنہ نتائج دونوں بڑی جماعتوں مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کے حوالے سے مختلف بھی ہوسکتے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button