Column

نقل مکانی کا بڑھتا رحجان

یاور عباس

کشتی حادثہ پر پوری قوم افسردہ ہے، حکومت نے بھی سوگ منا کر اپنے معمولات کے کام کاج کا آغاز کر دیا ہے، تمام سیاسی، سماجی، مذہبی جماعتوں اور ملکی اداروں نے اظہار تعزیتی و ہمدردی کے چار الفاظ بول کر اپنا قومی فریضہ سرانجام دے دیا ہے مگر جن خاندانوں کے نوجوان اپنے خاندان کی خوشحالی کے خواب دھرے کے دھرے چھوڑ کر اس جہان فانی سے کوچ کرگئے کبھی یہ دکھ اور غم اُن خاندانوں کی زبانوں سے سنیں تو پتہ چلے گا کہ وہ اس کرب ناک منظر کو قیامت تک نہیں بھولیں گے، یہ کیسے ہوسکتے ہیں کہ جن مائوں کے جوان بچے روزی کی تلاش میں جان دے دیں، جن بہنوں کے بھائی، بچوں کے باپ ان کی خوشیاں پوری کرنے کے چکر میں اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں، اپنے جیتے جی وہ انہیں بھول جائیں ایسا کبھی ہوا ہے نہ ہوگا۔ ان گھروں میں صف ماتم بچھی رہے گی، کبھی گھر میں خوشیوں کا موقع بھی آیا تو وہ اپنے ان پیاروں کو یاد کرکے روئیں گے ۔ کبھی کوئی دریا کی سیر کرنے گیا تو پانی دیکھتے ہی انہیں اپنے پیاروں کا عکس نظر آئے گا ۔ ریاست ماں جیسی ہوتی ہے، یہ لفظ شاید اب کتابوں میں ہی ملتا ہوگا کیونکہ میں نے نہیں سنا کہ ریاست کا کوئی بھی ذمہ دار شخص ان گھروں تک پہنچا ہو جہاں صف ماتم بچھی ہوئی ہے ، ان کو دلاسا دے کہ ہم جانے والے کو دنیا میں واپس تو نہیں لا سکتے البتہ اس کے کندھوں کا بوجھ اب ریاست اُٹھائے گی۔ کشتی حادثہ پر جہاں سب نے اظہار ہمدردی کے دو بول بولے ہیں وہاں گجرات کے ایک ایم این ای چودھری عابد رضا کوٹلہ نے قومی اسمبلی کے ایوان میں انوکھا مطالبہ کر دیا کہ حکومت ان بچوں کے والدین کو بھی گرفتار کر ے جنہوں نے اپنے بچوں کو موت کے منہ میں دھکیلا۔ انہوںنے حکومت سے اس معاملے پر قانون سازی کرنے کی استدعا بھی کی۔ بڑے تعجب کی بات ہے کہ چودھری عابد رضا نے غمزدہ خاندانوں کے زخموں پر مرہم رکھنے کی بجائے نمک رکھا ہے۔ کوئی شخص جسے باعزت روزگار مل جائے اور گھر کا نان و نفقہ آسانی سے پورا کر سکے اسے کوئی شوق نہیں ہوتا کہ پردیس میں جاکر اپنے گھروں سے دور رہے اور وہاں تیسرے درجہ کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو۔ ذریعہ معاش اور حالات و جبر سے تنگ آکر ہجرت کرنا تو سنت نبویؐ ہے۔ جب ہمارے آقا کریمؐ کا مکہ میں جینا محال کر دیا گیا تو آپؐ مدینہ کی طرف ہجرت کرنے پر مجبور ہوگئے۔ اس سے قبل بھی مسلمانوں نے قریش کے مظالم سے تنگ آکر حبشہ کو ہجرت کی تھی۔ لہٰذا معاشی یا پھر سیاسی حالات سے تنگ آنے والوں کو قانون سازی کے ذریعے ہجرت کرنے پر بھی پابندی لگانے سے بہتر ہے ایسے لوگوں کی نسل کشی کردی جائے تاکہ نہ وہ لوگ رہیں اور نہ ہی ان کے مسائل۔ چودھری عابد رضا کو اپنا یہ مطالبہ واپس لینا چاہیے اور متاثرہ خاندانوں سے معافی مانگنی چاہیے اور ان سے اظہار ہمدردی کرنا چاہیے ۔ بھوک اور افلاس سے تنگ آکر ہجرت کرنے والوں کا خون حقیقت میں وقت کے حکمرانوں پر ہوتا ہے کیونکہ خلیفہ ثانی حضرت عمر فاروقؓ نے اپنے دور خلافت میں کہا تھا کہ اگر فرات کے کنارے کوئی بھوکا پیاسا کتا بھی مرگیا تو مجھے اس کا جواب دینا پڑے گا مگر یہاں بھوک، ننگ، غربت اور افلاس سے لوگ جانیں دے رہے ہیں اور حکمرانوں کی عیاشیاں دیکھنی والی ہیں، شدید گرمیوں میں بھی پینٹ کوٹ پہنے سردیوں کے موسموں کے مزے لوٹ رہے ہیں۔ غربت ، بے روزگاری اور معاشی حالات سے تنگ آکر لوگ نقل مکانی پر پہلی دفعہ مجبور نہیں ہوئے بلکہ کئی دہائیوں سے لوگ انہی پانیوں اور جنگلات سے چوری چھپے یورپ کا رُخ کر رہے ہیں اور اس واقعہ سے قبل بھی بے شمار لوگ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کر چکے ہیں مگر ہر دور کی حکومت اسی طرح بیان بازی کرتی ہے مگر کوئی عملی اقدامات نہیں اُٹھاتی تاکہ لوگوں کو اپنی چھوٹی چھوٹی ضروریات اور خواہشات پوری کرنے کے لیے جان ہتھیلی پر رکھنا ہی نہ پڑے ۔ ہمارا ملک پاکستان اگرچہ اس وقت مسائلستان بنا ہوا ہے، انہی مسائل میں سے ایک بڑا مسئلہ نقل مکانی کا بھی ہے، ہمارا نوجوان پڑھا لکھا طبقہ اعلیٰ تعلیم کے لیے امریکہ ، برطانیہ اور یورپ چلا جاتا ہے بلکہ انتہائی ہونہار، لائق، قابل اور محنتی نوجوانوں کو ایسے ملک سکالر شپ پر خود لے جاتے ہیں۔ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے بعد انہیں پرکشش پیکیج ملتے ہیں تو وہ اپنی خدمات اپنے ملک میں دینے کی بجائے وہیں کے ہوکر رہ جاتے ہیں اور اپنے والدین کو بھی وہیں شفٹ کر لیتے ہیں۔ یوں پاکستان اپنی یوتھ کے ان قابل، باصلاحیت نوجوانوں کی صلاحیتوں سے استفادہ کرنے سے محروم ہوجاتا ہے اور ہماری ایسی یوتھ اپنے ملک کی تعمیر و ترقی میں اپنا کردار ادا کرنے کی بجائے مغرب میں اپنا مستقبل بنانے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اگر ہماری حکومت ان باصلاحیت نوجوانوں کی وطن واپسی کے لیے مناسب اقدامات اُٹھائے اور انہیں ان کی تعلیم کے مطابق مراعات دے تو یہ یہی طبقہ ہمارے پاکستان کا مستقبل تابناک بنا سکتا ہے۔ دوسرا طبقہ جو نقل مکانی کرتا ہے ان میں زیادہ تر سرمایہ دار ہیں، جب ہمارے ملک کے سیاسی اور معاشی حالات گرداب کا شکار ہوتے ہیں، کاروباری طبقہ کو بے پناہ ٹیکس دینے پڑتے ہیں اور بجلی، گیس کی لوڈشیڈنگ سے جب صنعتی پہیہ بند ہونا شروع ہوتا ہے تو سرمایہ دار طبقہ اپنا بوریا بستر لپیٹ کر کسی دوسرے ملک میں جانے کا ترجیح دیتا ہے۔ ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کے اربوں ، کھربوں پتی بچے جب اپنے کاروبار باہر کرتے ہیں اور ملک میں کوئی انویسٹمنٹ کرنے کی کوشش نہیں کرتے تو پھر عام کاروباری لوگ بھی اپنا کاروبار بیرون ملک شفٹ کرنے کی ٹھان لیتے ہیں جس سے ملک میں مزید بے روزگاری اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ نقل مکانی کی تیسری شکل غریب لوگوں کی ہے جو اپنی خوشحالی کے لیے اپنا گھر بار فروخت کرکے یورپ جانا چاہتے ہیں۔ ریاست پاکستان کو نقل مکانی کے بڑھتے ہوئے رحجان کو کم کرنے کے لیے موثر اقدامات اُٹھانے ہوںگے۔ اس کے لیے یہاں کے لوگوں کو باعزت روزگار، تعلیم ، صحت، کاروبار کے مواقع فراہم کرنا ہونگے، قانون کی حکمرانی پر ہر شخص کو مذہبی، سیاسی، سماجی تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button