Column

سب خواب بکھر گئے

سیدہ عنبرین

جاری برس ماہ فروری میں غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو لے جانے والی ایک کشتی ڈوبی جس میں تیس کے قریب افراد ڈوب گئے پھر یونان کے پانیوں میں دوسری کشتی غرق ہوئی جس میں چار سو سے زائد افراد ڈوب گئے، اب دریائے سندھ اور چناب میں پانچ نوجوانوں کے ڈوب کر جاں بحق ہونے کی اطلاع ہے۔ مرنے والوں میں سیالکوٹ کا ایک مزدور ندیم اور الطاف شہزاد، نوشہرہ کے دارالعلوم حقانیہ کے تین کزن شامل ہیں، ان کا تعلق نوشہرہ کے علاقے حکیم آباد سے ہے، یہ سب دریا پر تفریح کیلئے گئے تھے، طالب علم زیت اللہ کا پائوں پھسلا وہ دریا میں جا گرا۔ اسے بچانے کیلئے اس کے چچا زاد بھائی محمد موسیٰ نے چھلانگ لگائی، دریا کی تیز لہریں اسے بہا کر ساتھ لے گئیں، اس کے آواز دینے پر دوسرے کزن شہاب الدین نے پانی میں چھلانگ لگادی لیکن دریا کی تیز و تند لہروں کے آگے ان کی ایک نہ چلی، یوں وہ سب شوق ہی شوق میں موت کی وادی میں جاپہنچے۔ ان جاں بحق ہونے والوں کے علاوہ ملک کے طول و عرض میں کہیں نہ کہیں کوئی ضرور اسی انداز میں ڈوب جاتا ہے۔ محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ چھ ماہ میں ڈوب کر جاں بحق ہوجانے والوں کی تعداد ایک ہزار کے قریب ہے جس میں غربت کے ہاتھوں تنگ آکر یا گھریلو ناچاقی کے سبب اپنی اور اپنے بچوں کی زندگیاں ختم کرنے والے مرد و خواتین اور ان کے بچے بھی شامل ہیں۔
یونان کشتی حادثے کا سبب اس کے انجن میں خرابی کے بعد کئی گھنٹے تک کھلے سمندر میں بھٹکتے رہنا پھر اسے اپنی سمندری حدود سے باہر کی طرف اسی انداز میں دھکیلنے کی مجرمانہ کوششیں سامنے آئی ہیں جس طرح پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہر یا نالے میں سے ملنے والی کسی لاش کو ایک تھانے کی حدود سے دوسرے تھانے کی حدود میں پہنچانے کی کہانیاں ملتی ہیں، مذکورہ کشتی حادثے میں بچ جانے والوں نے یہ بھی بتایا کہ بیشتر مسافروں کے پاس کھانا اور بالخصوص پینے کا پانی ختم ہوچکا تھا، وہ دن بھر کے پیاسے تھے مگر سمندر کے سفر پر تھے۔ غیر قانونی طور پر پاکستانیوں کو یورپ تک پہنچانے کے سبز باغ دکھا کر انہیں لوٹنے والے ایک اور تکلیف دہ حربہ بھی استعمال کرتے ہیں جدھر اب تک زیادہ توجہ نہیں دی گئی۔
مشاہدے میں آیا اور کئی بار آیا کہ اس دھندے سے وابستہ جرائم پیشہ افراد کا کسی بھی دوسرے ملک میں کسی بھی نیٹ ورک سے کوئی رابطہ نہیں ہوتا لیکن انہوں نے زیادہ پیسے بٹورنے کیلئے لاتعداد افراد کو جھانسہ دے رکھا ہوتا ہے کہ وہ انہیں یورپی ملک میں ملازمت اور رہائش کا انتظام بھی کر دیں گے۔ وہ لاکھوں روپے وصول کرنے کے بعد گہرے پانیوں میں لے جاکر اپنی کشتی خود الٹا دیتے ہیں تاکہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری، کشتی چلانے والے عملے کے پاس لائف جیکٹس ہوتی ہیں پھر پروگرام کے مطابق کشتی اُلٹنے کے فوراً بعد ایک اور خالی کشتی اِدھر آ نکلتی ہے اور ریسکیو آپریشن شروع کر دیتی ہے لیکن وہ اپنے ساتھیوں کو پانی سے نکال کر دیکھتے ہی دیکھتے آنکھوں سے اوجھل ہوجاتی ہے، یہ واقعہ اس شخص نے سنایا جو کئی برس قبل انہی جرائم پیشہ افراد کے ہاتھوں بے وقوف بنا، اس نے لاکھوں روپے دیئے، وہ ایسی ہی ایک کشتی کا مسافر تھا جسے خاص مقام پر اٹھا دیا گیا لیکن بعد ازاں اسے کسی اور موٹر بوٹ نے پانی سے نکال لیا، اس خوش قسمت کے مطابق کشتی ایسے دور دراز اور گہرے پانی میں ڈبوئی گئی تھی جہاں حادثے کے چند منٹ بعد خونخوار شارک مچھلیاں غول در غول پہنچ گئیں اور انہوں نے اپنی جان بچانے کیلئے ہاتھ پائوں مارنے والوں کی تکہ بوٹی شروع کردی۔ اس کشتی میں ڈیڑھ سو کے قریب افراد سوار تھے جن میں سے صرف ایک شخص معجزانہ طور پر زندہ بچا۔ قدرت نے اسے شاید یہ کہانی سنانے اور مجرموں کے چہروں سے پردہ اٹھانے کیلئے نئی زندگی عطا کی تھی۔
ایک اور واقعہ میں اسی گروہ سے تعلق رکھنے والے افراد نے دو سو افراد سے لاکھوں روپے فی کس کے حساب سے رقم وصول کی، ان سے کہا گیا کہ انہیں سمندری راستے سے دوبئی پہنچایا جائے گا اور ایسے پوائنٹ سے دوبئی داخل کیا جائیگا جہاں یو اے ای پولیس کی چیکنگ نہیں ہوگی، انہیں دو تین کلو میٹر پیدل چل کر شہر پہنچنا ہوگا اور بعد ازاں خود اپنی رہائش اور روزگار تلاش کرنا ہوگا، گروہ کے جھانسے میں کچھ ایسے لوگ بھی آگئے جن کا کوئی قریب یا دور کا کوئی عزیز دوبئی میں مزدوری کر رہا تھا، ان کا خیال تھا کہ وہ دوبئی میں داخل ہوکر اپنے اس عزیز کے پاس پہنچ جائینگے جو انہیں کہیں نہ کہیں مزدوری دلا دے گا۔ ان تمام لوگوں کو لاہور سے بذریعہ ہوائی جہاز کراچی لے جایا گیا جس پر یہ سب لوگ خوش اور مطمئن تھے، راستے بھر ایئر ہوسٹس کی مسکراہٹ اور اس کی مہربانی کا لطف اٹھاتے رہے جس میں بار بار گھنٹی کا بٹن دبا کر اس سے پانی مانگنا فرض اولین اور ہوائی سفر کے استحقاق کا لازمی جزو سمجھ لیا گیا۔ کراچی
کے ہوائی اڈے پر انہیں فرضی کمپنی کے نمائندے نے خوش آمدید کہا انہیں ایک ایئر کنڈیشن عمارت میں ٹھہرایا گیا، بہترین کھانا پیش کیا گیا اور بتایا گیا کہ آج آرام فرمائیں کل رات گئے آپ کا بذریعہ لانچ دوبئی کا سفر شروع ہوگا جبکہ علی الصبح پوہ پھٹنے سے قبل آپ دوبئی کے ساحل پر ہونگے اور چھوٹی چھوٹی ٹکریوں میں بٹ کر دوبئی شہر میں داخل ہونگے، یہ تفصیل سن کر ان کی خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ تھا۔ متعدد مسافر ایسے تھے جو اس خوشی میں رات بھر نہ ہوسکے اور خیالوں میں منصوبے بناتے رہے کہ دوبئی میں کام مل جانے کے بعد پہلی تنخواہ کو وہ کس طرح خرچ کریں گے۔ ماں باپ کو کیا ارسال کرینگے۔ اپنی ہونے والی بیوی کو کیا خط لکھیں گے اور اس میں کتنے ریال کا ایک نوٹ ڈالیں گے جسے وصول پاکر وہ خوشی سے دیوانی ہوجائیگی۔ کچھ کا خیال تھا کہ دوبئی آنے کیلئے اٹھائے گئے ادھار کی پہلی قسط کی ادائیگی کرینگے اور اپنے چھوٹے بھائی کو بھی دوبئی بلانے کیلئے اسی ذریعے سے مزید ادھار لیکر اسی کمپنی کی معرفت اپنے پاس بلاکر بڑا بھائی ہونے کا حق ادا کریں گے، یوں والدین کی ڈھیروں دعائیں ملیں گی اور ان کی خوش قسمتی کا ہر بند دروازہ خود بخود کھلتا جائیگا۔ کچھ مسافر ایسے تھے جنہیں اپنی بہن کے ہاتھ پیلے کرنے کی جلدی تھی، کچھ نے سوچ رکھا تھا کہ گائوں کے کچے مکان کو سب سے پہلے پکا کرنا ہے۔ سب مسافر نصف شب کو بیدار ہوگئے اپنا اپنا مختصر سامان سمیٹا اور باہر کھڑی بس میں جا بیٹھے جو انہیں ساحل سمندر تک لے آئی، وہاں ایک لانچ تیار کھڑی تھی سب نے اپنی قسمت پر رشک کیا، چند منٹ بعد لانچ سٹارٹ ہوئی اور اپنے سفر پر روانہ ہوگئی، صبح کے آثار نمودار ہونے کو تھے، لانچ کئی گھنٹے پانی میں دوڑنے کے بعد ایک ایسے مقام پر رکی جہاں کھجور کے درخت قطار در قطار لگے تھے، مسافروں کو بتایا گیا کہ جلدی جلدی اتریں اور گردن تک پانی سے گزر کر کنارے پر پہنچ جائیں اور دوبئی میں داخل ہوجائیں، لانچ انہیں وہاں اتار کر واپس ہوگئی، تمام مسافر ہدایات کے مطابق پانی عبور کرکے ریتلے ساحل تک پہنچ گئے، تیز ہوائوں سے ان کے کپڑے جلد خشک ہوگئے، وہ کچھ آگے بڑھے تو انہیں کچھ لوگ نظر آئے، ایک شخص نے ہمت کرکے پوچھا دوبئی شہر مزید کتنا دور ہے، انہیں ششتہ اُردو میں جواب ملا، آپ کراچی کے ساحل پر ہیں، دوبئی نہیں پہنچے ایک چھناکے سے سب کے خواب بکھر گئے، رات بھر دائرے میں چلتے رہنے والا سفر تمام ہوا، کسی مجرم پر کسی نے ہاتھ نہ ڈالا، دھوکہ دہی کا دھندہ آج بھی زور و شور سے جاری ہے اور جاری رہے گا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button