Column

طیب اردگان کے چند کارنامے

 

حافظ محمد معاویہ آصف

ترکیہ ( ماضی کا ترکی ) ایک صدی کے بعد پھر سے پوری دنیا کی نگاہوں اور عالم اسلام کی امیدوں کا مرکز بن گیا ہے۔ اب سے سو سال قبل بھی ترکیہ دنیا کا ایک اہم موضوع تھا اور اب صدی گزر جانے پر ایک بار پھر دنیا بھر میں بحث و مباحثہ کا اہم عنوان ہے اس کی وجہ ترکیہ کے صدر طیب اردگان ہیں۔ ترکی میں حالیہ ہونے والے ترکیہ کی تاریخ کے انتہائی اہمیت کے حامل انتخابات میں طیب اردگان ایک بار پھر ناقابل شکست قرار پائے۔ طیب اردگان نے اپنے سیاسی سفر کا آغاز 1994ء میں کیا جب وہ استنبول کے میئر بنے اس کے بعد 2003ء سے 2023ء تک وہ ناقابل شکست رہے ہیں، اپوزیشن نے ان کو ہرانے کا ہر حربہ آزمایا حتیٰ کہ ان کے خلاف فوجی بغاوت بھی ہوئی جس میں طیب اردگان کی حکومت کا جانا یقینی تھا لیکن عام عوام نے فوجی ٹینکوں کے سامنے لیٹ کر اس کو ناکام بنایا۔
طیب اردگان اس سے پہلے تین دفعہ وزیراعظم رہ چکے ہیں اور ان کی صدارتی مدت کا بھی تیسرا الیکشن تھا ترکیہ کے آئین کے مطابق کوئی بھی شخص تین دفعہ سے زیادہ وزیر اعظم نہیں بن سکتا چنانچہ تین دفعہ وزیراعظم بننے کے بعد طیب اردگان صدارتی امیدوار بنے اور آئین کا اس طرح ڈھانچہ بدلا کہ نظام کو پارلیمانی سسٹم سے صدارتی سسٹم کی طرف لے گئے اور صدر کے عہدے کو مضبوط کیا۔
ترکیہ خلافت عثمانیہ کے زمانے میں برصغیر کے مسلمانوں کا بھی دینی و سیاسی مرکز تھا، یہی وجہ ہے کہ جن دنوں ایک طرف ترک نیشنلزم اور عرب قومیت کا ہتھیار عالم اسلام کے حصے کرنے اور خلافت عثمانیہ کو بکھیرنے کے لئے پوری قوت کے ساتھ استعمال کیا جا رہا تھا، دوسری طرف انہی دنوں جنوبی ایشیا میں مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ابوالکلام آزاد، حکیم محمد اجمل خان، مولانا حبیب الرحمان لدھیانوی، مولانا ظفر علی خان، اور امیر شریعت سید عطاء اللہ شاہ بخاریؒ کی قیادت میں امت مسلمہ خلافت عثمانیہ کو بچانے کے لیے سرگرم عمل تھی اور وہ برطانوی حکومت سے خلافت عثمانیہ کے خاتمہ کی مہم روک دینے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
بالآخر 30اکتوبر 1918ء کو سلطنت عثمانیہ کا سقوط ہوگیا سلطنت عثمانیہ کے زوال کے بعد فاتح قوتوں نے مغربی جمہوریت لانے کی تیاریاں شروع کردی اور مصطفیٰ کمال پاشا کی پرورش کا آغاز کیا یہ مغربی تعلیم یافتہ اور مغربی تہذیب و تمدن کا دلدادہ تھا۔ 1924ء میں بننے والی ترکی کی قومی اسمبلی نے باقاعدہ طور پر خلافت کے خاتمے کا اعلان کرکے ترکی کو سیکولر سٹیٹ ڈیکلیئر کر دیا اس کے بعد مصطفیٰ کمال پاشا نے اسلام اور اسلام کے نام لیوائوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑے، قرآن کی تعلیم پر پابندی، نماز پر پابندی اور اذان پر بھی عائد کردی گئی مدارس اور خانقاہیں بند کردی گئیں، عربی رسم الخط تبدیل کر دیا گیا۔ علماء کرام کو پابند سلاسل کر دیا گیا، داڑھی، ٹوپی، برقع اور حجاب پر پابندی لگادی گئی، سود حلال قرار دیا گیا، شراب لازمی ٹھہری، فحاشی و عریانی کو فروغ دیا گیا، دینی شعائر کو ختم کر دیا گیا۔ لیکن یہ چراغ بجھنے والا کہاں تھا اس کی چنگاریاں کہیں نہ کہیں سلگتی رہتی تھیں، چنانچہ بیس سال بعد عدنان میندریس ترکیہ کے وزیراعظم منتخب ہوئے، عدنان میندریس نے وزیراعظم بننے کے بعد سیکولر اقدامات کے بجائے اسلامی اقدامات کو ترجیح دی۔ مصطفیٰ کمال پاشا کی جانب سے عربی زبان میں اذان و تکبیر پر عائد پابندی کو ختم کیا، مساجد پر لگے تالے کھلوائے اور یہ بیان دیا کہ ترک پارلیمنٹ شریعت کو ملک کے قانون کے طور پر نافذ کر سکتی ہے، ان اسلامی اقدامات کو ترکیہ کی سیکولر آرمی کہاں برداشت کر سکتی تھی، چنانچہ ان کے خلاف سازشیں شروع ہوگئی اور ترکیہ کی سیکولر آرمی نے 1960ء میں عدنان میندریس کو پھانسی کے پھندے پر لٹکا دیا۔
طیب اردگان بھی عدنان میندریس کی طرح ملک میں اسلامی اقدار کے احیا کے علمبردار ہیں اور ترکیہ کو سیکولر تشخص سے نجات دلانے کے لیے مسلسل سرگرم عمل ہیں، جس کی وجہ سے ترک عوام نے ایک بار پھر اور پہلے سے زیادہ جوش و خروش کے ساتھ ان پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ گزشتہ 20سال سے ترکیہ میں طیب اردگان کی حکومت چلی آرہی ہے اس عرصہ میں طیب اردگان نے ترکی کو تعمیر و ترقی اور معاشی لحاظ سے زبردست ترقی دی۔ طیب اردگان کی حکومت میں ترکیہ ’ مردِ بیمار‘ سے ایک طاقتور اور ترقی یافتہ ملک کے طور پر ابھرا۔ علاقائی اور عالمی سیاست میں ترکی نے ایک مثبت اور اعلیٰ مقام حاصل کیا۔ طیب اردگان جب حکومت میں آئے تو اس وقت ترکیہ آئی ایم ایف کا 23.3؍ ارب ڈالر کا مقروض تھا، طیب اردگان نے اپنے دور حکومت میں ملکی قرضہ زیرو کرکے آئی ایم ایف کو 5 ارب ڈالر قرضہ دیا۔ 2003ء میں جب طیب اردگان اقتدار میں آئے تو اس وقت ترکی کے خزانے میں 32ارب ڈالر تھے پھر اس میں اتنی ترقی ہوئی کہ 2013ء میں یہ 132ارب ڈالر تک پہنچ گئے۔ طیب اردگان کے دور حکومت میں ترکیہ پہلی بار دنیا کے اقتصادی لحاظ سے مضبوط 20ممالک کے گروپ 20۔Gمیں شامل ہوا۔ طیب اردگان نے تعلیمی نظام بہتری لانے کے لئے اصلاحات کی نتیجتاً ترکیہ میں جن انٹر لیول سکول کی تعداد 65ہزار تھی وہ 12لاکھ تک پہنچ گئی۔ ترکیہ کے 81شہروں میں شاید کوئی شہر ایسا ہو جس میں یونیورسٹی نہ ہو، طیب اردگان نے ہر شہر میں یونیورسٹی تعمیر کروائی۔
طیب اردگان نے ساری قوم کے لئے گرین کارڈ کا اجراء کیا جس کے تحت کسی بھی ترک باشندے کو ملک کے کسی بھی ہسپتال میں ہر وقت مفت علاج کی سہولت میسر ہوگی۔ طیب اردگان کی حکومت میں ترکش ایئر لائن کو یورپ کی بہترین اور دنیا کی ساتویں بڑی ایئر لائن کا درجہ حاصل ہوا۔ طیب اردگان کی حکومت کا ایک بڑا کارنامہ یہ بھی ہے کہ اس وقت یورپ میں فروخت ہونے والے الیکٹرانکس سامان میں سے ہر تیسرا سامان ترکیہ کا تیار کردہ ہے۔
طیب اردگان نے اپنے دور اقتدار میں جس جرأت، حوصلہ کے ساتھ ترکی اور عالم اسلام کے مفادات کی بات کی ہے، اراکان اور شام کے مظلوم مسلمانوں کی پشت پناہی کی اور فلسطین و بیت المقدس کا مقدمہ لڑا، اس سے پورا عالم اسلام ترکی اور طیب اردگان کی طرف متوجہ ہے۔ اس الیکشن میں شاید ہی دنیا کا کوئی خطہ ایسا ہو جہاں مظلوم مسلمانوں کے ہاتھ طیب اردگان کی کامیابی کے لیے بارگاہ ایزدی میں نہ اٹھے ہوں جنہیں اللہ تعالیٰ نے قبولیت سے نوازا ہے، فالحمد للہ علیٰ ذٰلک۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button