Editorial

معیشت کی بحالی کا ہدف مشکل ضرور، ناممکن نہیں

پاکستان کی معیشت اس وقت مشکل دور سے گزر رہی ہے۔ پچھلے پانچ برسوں کے دوران پیدا ہونے والی خرابیوں کو ٹھیک کرنے کا سلسلہ شروع کیا جا چکا ہے۔ موجودہ حکومت ان مسائل پر قابو پانے کے لیے سنجیدگی سے اقدامات بروئے کار لارہی ہے۔ معیشت کی بحالی کے سفر کا آغاز کیا جا چکا ہے۔ اس حوالے سے پچھلے چند دنوں کے دوران متواتر اچھی اطلاعات سامنے آرہی ہیں۔ درست سمت میں معیشت کو گامزن کرنے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔ ان شاء اللہ وقت گزرنے کے ساتھ ان کے ثمرات سامنے آتے رہیں گے۔ ابھی عالم یہ ہے کہ حکومت کو امور مملکت چلانے کے لیے بھاری فنڈز کی ضرورت ہے۔ عالمی مالیاتی ادارے کی تمام تر کڑی شرائط کو پورا کر دیا گیا ہے، نامعلوم کیوں اس معاملے میں لیت و لعل سے کام لیا جارہا ہے، جس کی وجہ سے مشکلات پیش آرہی ہیں۔ دوست ممالک سعودی عرب اور چین پاکستان کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ مشکل کی ہر گھڑی میں وہ ساتھ کھڑے رہتے اور مصائب سے نکالنے کے لیے فوری اقدامات ممکن بناتے ہیں۔ چین کے ساتھ پاکستان کی دوستی ہمالیہ سے بھی بلند اور سمندر سے بھی زیادہ گہری قرار دی جاتی ہے۔ چین اور پاکستان ایک دوسرے کا ہر مشکل گھڑی میں ساتھ نبھاتے چلے آئے ہیں۔ چین نے اس بار بھی پاکستان کی مدد کرنے میں سب سے آگے دِکھائی دیتا ہے۔ چین سے معیشت کی اس نازک صورت حال میں پاکستان کو ایک ارب ڈالر موصول ہوگئے ہیں۔ سٹیٹ بینک نے پاکستان کو چین سے ایک ارب ڈالر موصول ہونے کی تصدیق کردی ہے، چین سے ایک ارب ڈالر کی رقم مرکزی بینک کے اکائونٹ میں منتقل کی گئی۔ ذرائع کا بتانا ہے کہ چین کی جانب سے ملنے والا ایک ارب ڈالر کمرشل قرضہ ہے، چین سے ایک ارب ڈالر موصول ہونے کے بعد پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوگیا ہے۔ خیال رہے کہ پاکستان نے رواں ہفتے چین کو پیشگی ادائیگی کی تھی، چین پاکستان کو یہ رقم واپس کررہا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ پاکستان کو عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے قرض کے حصول کے لیے بھی چین نے پاکستان کا ہر ممکن ساتھ دیا ہے۔ ادھر وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ ملکی معیشت کو سنبھالنے اور ڈالر کی کمی پورا کرنے کے لیے چین سمیت دوست ممالک سے رجوع کریں گے، حکومت نے آئی ایم ایف پروگرام پورا کرنے کے لیے کڑی شرائط تسلیم کیں مگر معاملہ آگے نہ بڑھ سکا، آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کی شرط رکھی جس کو پورا کیا جارہا ہے، لیکن تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، وفاقی بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا، نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس اکٹھا کرکے ہدف پورا کریں گے، الیکشن نہ بھی ہوتا تب بھی بجٹ ایسا ہی پیش کرتے، اگلے مالی سال میں ساڑھے 3فیصد جی ڈی پی گروتھ ہدف باآسانی حاصل کرلیں گے۔ جمعہ کو قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کو بریفنگ دیتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ بجٹ میں موجودہ ٹیکس دہندگان پر کوئی بوجھ نہیں ڈالا گیا جب کہ نئے ٹیکس دہندگان سے ٹیکس اکٹھا کرکے ہدف پورا کریں گے، انہوں نے کہا کہ یوریا کھاد کی اسمگلنگ روکنے کیلئے اقدامات کیے گئے ہیں اور ملک میں یوریا کی کمی کو پورا کرنے کے لیے فرٹیلائزرز کے شعبے کو گیس ریٹ میں ریلیف دیا ہے، تاہم اس سے یوریا کی اسمگلنگ میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک سے ڈالرز کی اسمگلنگ بھی اب شروع ہوچکی ہے، افغانستان میں حکومت کی تبدیلی سے ڈالرز میں کمی ہوئی، جس سے پاکستان سے ڈالر سمگل ہوا اور ڈالرز کی سمگلنگ ابھی تک رکی نہیں، تاہم اس میں کمی ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ حکومت نے 20کروڑ ڈالر کی سمگلنگ اور 5ارب کی اسمگل شدہ چینی پکڑی ہے۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ چین کو ہم نے قرض جو واپس کیا دوبارہ مل رہا ہے اور حکومت چین کے ساتھ اس معاملہ پر گفت و شنید مکمل ہوچکی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بینک آف چائنہ کے ساتھ بھی 30کروڑ ڈالر پر بات چیت چل رہی ہے، اس کے علاوہ چین کے سواپ معاہدے کے تحت بھی ڈالر آئیں گے۔ انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف نے بیرونی فنانسنگ کی شرائط رکھی، جس کو پورا کررہے ہیں، مگر اس کے بعد نئی شرائط عائد کی جارہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ تالی دونوں ہاتھوں سے بجتی ہے، تمام انتظامات کردیے گئے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ اس ملک کا نگہبان ہے اور یثرب کے بعد دوسری ریاست ہے جو کلمے کے نام بنی ہے۔ اس ملک کے پاس وسائل کی کمی نہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایک گیس پائپ لائن کا اثاثہ 50ارب ڈالر کا پاکستان کے پاس ہے۔ اس کے علاوہ ریکوڈک سے بھی 6ہزار ارب ڈالر حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ وزیر خزانہ نے کہا کہ الیکشن نہ بھی ہوتا تب بھی بجٹ ایسا ہی پیش کرتے۔ اس میں شبہ نہیں کہ مشکل صورت حال ہے۔ آئی ایم ایف سے معاہدہ تکمیل کو پہنچے تو حالات کچھ مثبت رُخ اختیار کریں۔ چین کا اس مشکل وقت میں ساتھ دینا کسی نعمت سے کم نہیں۔ پاکستانی عوام چین کی اس دوستی کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ مانا صورت حال گمبھیر ہے، حالات موافق نہیں، تاہم بروقت اور پیشگی اقدامات آئندہ وقتوں میں آسانیوں کی وجہ بن سکتے ہیں۔ حکومت کو صورت حال بہتر بنانے کے لیے چند راست اقدامات یقینی بنانے ہوں گے۔ ملک میں ڈالرز کی قلت پر قابو پایا جائے۔ اس کی وجہ سے آج ڈالر کی قیمت تاریخ کی بلند ترین سطح پر پہنچی ہوئی ہے۔ پاکستانی روپیہ بدترین بے وقعتی اور بے توقیری کے دور سے گزر رہا ہے۔ ڈالر کی سمگلنگ پر مکمل قابو پایا جائے۔ پاکستان میں جتنا زیادہ ہوسکے ڈالر لایا جائے، تاکہ اس کے نرخ مناسب سطح پر پہنچ سکیں۔ پاکستانی روپے کو اعتبار اور وقار عطا کرنے کے لیے کوششیں کی جائیں۔ حکومت کفایت شعاری کی پالیسی اختیار کرے۔ غیر ضروری اخراجات کا مکمل خاتمہ کیا جائے۔ دوسری جانب معیشت کی بہتری کے لیے حکومت کو خودانحصاری کی پالیسی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ ایسے اقدامات کیے جائیں کہ بتدریج ہی سہی قرضوں کے بار میں ناصرف کمی آئے، بلکہ ان سے مستقل جان چھوٹے۔ ملک میں وسائل کی چنداں کمی نہیں۔ پاکستان پر رب العزت کا خاص کرم ہے۔ یہاں کی زمینیں سونا اُگلتی ہیں۔ قدرت کے انمول خزینے ملک کے طول و عرض میں مدفن ہیں۔ ان کو تلاش کیا جائے اور صحیح خطوط پر بروئے کار لایا جائے۔ مہنگائی کی شدّت میں کمی لائی جائے۔ صنعتوں کے فروغ پر توجہ مرکوز کی جائے۔ سیاحت کو بڑھاوا دینے کے لیے وسیع بنیادوں پر مواقع کشید کیے جائیں۔ یقیناً درست سمت میں ہونے والی پیش رفت معیشت کی بحالی، استحکام اور عوامی خوش حالی کا پیش خیمہ ثابت ہوگی۔
سمندری طوفان کا خطرہ ٹلنے سے زندگی معمول پر آگئی
پچھلے ایک ہفتے سے ملک عزیز میں سمندری طوفان بائپر جوائے کے خطرات منڈلارہے تھے۔ عوام میں خاصا خوف و ہراس پایا جاتا تھا۔ 1999میں اسی قسم کا طوفان سندھ میں آیا تھا، جس کے نتیجے میں سیکڑوں افراد جاں بحق ہوگئے تھے، 20 لاکھ افراد متاثر ہوئے تھے، 1لاکھ 38ہزار گھر اور 2لاکھ 56ہزار ایکڑ اراضی تباہ ہوگئی تھی۔ کتنے ہی افراد لاپتا ہوگئے تھے۔ بائپر جوائے کو اسی طوفان سے مشابہہ قرار دیا جارہا تھا۔ ان دونوں طوفانوں میں کئی قدریں مشترک تھیں۔ اس وجہ سے لوگ زیادہ ڈرے ہوئے تھے۔ حکومت اور ضلعی انتظامیہ نے بھی بروقت اقدامات کیے۔ پاک افواج نے بھی اس سے نمٹنے کے لیے اقدامات ممکن بنائے۔ سندھ کی ساحلی پٹیوں کیٹی بندر، بدین وغیرہ سے لوگوں کی نقل مکانی کرائی گئی۔ گزشتہ روز اس طوفان کا خطرہ ٹل گیا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے ملک اس سے محفوظ رہا، سمندری طوفان بائپر جوائے گجرات (بھارت) میں ٹکرا گیا ہے، جہاں اس سے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلنے کی اطلاعات ہیں، ہزاروں بجلی کے کھمبے گرگئے، مکانوں کی چھتیں اُڑ گئیں، سیکڑوں درخت جڑ سے اُکھڑ گئے۔ درجنوں ٹرینیں منسوخ ہوئیں جب کہ دو افراد کے ہلاک ہونے کی بھی اطلاعات ہیں۔ کراچی سے سمندری طوفان بائپر جوائے کا خطرہ ٹلنے کے بعد سمندری طوفان کمزور ہوکر سائیکلون اور ڈپریشن میں تبدیل ہوگیا، نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے) کے مطابق کراچی، حیدرآباد، ٹنڈو محمد خان، ٹنڈوالٰہ یار، شہید بے نظیر آباد اور سانگھڑ میں تیز ہوا اور گرج چمک کے ساتھ بارش کا امکان ہے، این ڈی ایم اے کے مطابق ہوائیں 30سے 50کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چل سکتی ہیں جب کہ سندھ اور مکران کے ساحلی علاقوں میں طغیانی رہ سکتی ہے۔ ادھر طوفان کا خطرہ ٹل جانے کے بعد ٹھٹھہ کے ساحلی مقام کیٹی بندر میں زندگی معمول پر آنے لگی۔ کیٹی بندر سے نقل مکانی کرنے والے ماہی گیروں اور مقامی افراد کی واپسی شروع ہوگئی۔ مقامی افراد کا کہنا ہے کہ بارش کے بعد راستے دلدلی ہوجانے سے آمدورفت میں مشکلات کا سامنا ہے۔ زندگی معمول پر آنے لگی ہے۔ اللہ پاک کا اس پر جتنا شکر ادا کیا جائے، کم ہے۔ اُس نے ملک عزیز کو بڑی تباہی سے بچالیا۔ پاکستان پہلے ہی معیشت کے حوالے سے بدترین صورت حال کا سامنا کر رہا ہے۔ مہنگائی کے سیلاب کے باعث عوام کے لیے پہلے ہی زیست چنداں آسان نہیں۔ پچھلے سال آنے والے بدترین سیلاب سے بھی ملک عزیز ابھی تک صحیح معنوں میں اُبھر نہیں سکا ہے۔ عوام کو اس پر شکرانے ادا کرنے چاہئیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ وطن عزیز اور اس کے عوام کو آفات اور مصیبتوں سے محفوظ رکھے۔ ( آمین)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button