ColumnKashif Bashir Khan

سفاک قاتلہ اور سی۔ آئی۔ اے

کاشف بشیر خان
پاکستان منٹ کے سامنے کا رہائشی محمد عثمان بچپن سے پولیو کے باعث ایک ٹانگ سے ہلکا سا لنگڑاتا تھا۔ ایک متوسط خاندان کے محمد عثمان کا والد محمد افضال محکمہ لیبر میں ملازم تھا اور اب ریٹائر ہو چکا ہے، اس کا ایک چھوٹا بھائی سودی عرب میں حصول رزق کے لئے کام کرتا ہے جبکہ بہن شادی شدہ ہے۔ عثمان کی والدہ نے بچپن سے اسے لاڈو پیار سے رکھا تھا اور جب وہ جوان ہوا تو اس کی والدہ کو ہر وقت یہ فکر لگی رہتی تھی کہ میرے بیٹے کی ٹانگ خراب ہونے کی وجہ سے اس کی شادی ممکن نہیں ہو گی۔ اس کی والدہ کا یہ خوف عثمان کے بھی دل و دماغ میں سرایت کر چکا تھا، ورنہ وہ بھرپور نوجوان تھا، جس کی صحت قابل رشک تھی۔ عثمان کی والدہ نے شمالی لاہور کی ایک غریب فیملی کی 17سالہ لڑکی آمنہ کو کسی رشتہ کروانے والی عورت کے ذریعے رابطہ کے بعد پسند کیا اور اس کے والدین کو کہا کہ ہمیں جہیز میں ایک جوڑا بھی نہیں چاہئے۔ اس طرح عثمان کی شادی آمنہ سے ہو گئی اور عثمان کی والدہ نے اپنی بہو کے لاڈ ایسے اٹھانے شروع کر دیئے کہ اسے کوئی کام نہیں کرنے دیتی تھی اور گھر کے کاموں کے لئے ملازمہ رکھ دی۔ اب عثمان دن بھر کام کرتا تھا اور جب گھر آتا تھا تو آمنہ کی جائز ناجائز خواہشات پوری کرنے میں لگ جاتا تھا۔ اسی دوران ان کے دو پھول جیسے بچے بھی پیدا ہو گئے۔ جن کی عمریں اس وقت بالترتیب ( لڑکی 5، لڑکا 4سال) ہیں ۔ اسی دوران عثمان کی والدہ کا انتقال ہو گیا۔ اب گھر میں عثمان کے چھوٹے بھائی کی بیوی اور اس کے بوڑھے والد رہ گئے تھے۔ اصل کہانی بھی یہاں سے ہی شروع ہوتی ہے۔ آمنہ نے اپنے والدین، جو اچھے لوگ نہیں تھے، کو ہر روز اپنے گھر بلانا شروع کر دیا اور اس طرح سے گھر میں فساد و لڑائی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ اب آمنہ نے اپنے سسر سے کہنا شروع کر دیا کہ ساری عمر کی محنت کے بعد جو گھر محمد افضال نے بنایا تھا وہ عثمان کے نام کر دے۔ افضال کا جواب یہ ہی تھا کہ یہ گھر میرے دونوں بیٹوں اور بیٹی کا ہے، اس لئے اگر تم لینا چاہتے ہو تو باقی دونوں بہن بھائیوں کا ان کا حصہ دے دو۔ اس کے بعد آمنہ اور اس کے والدین نے مل کر عثمان اور اس کے والد کی زندگی حرام کر دی اور یوں بھی ہوا کہ آمنہ لڑ کر اپنے والدین کے گھر چلی گئی اور وہاں پر اپنی کلائی پر چھری مار کر اپنے خاوند عثمان جو اپنے گھر تھا، پر جھوٹی ایف آئی۔ آر کٹوا دی۔ عثمان دو مہینوں کے لئے جیل چلا گیا اور اس کے بوڑھے والد نے بہت مشکل سے اس کی ضمانت کروائی تو عثمان اپنے دونوں بچوں کی خاطر آمنہ کو دوبارہ سے منا کر گھر کے آیا۔ یہ وہ غلطی تھی جو اس کے قتل کا باعث بنی۔ اب عثمان اور آمنہ کے گھر روز روز کی لڑائی تماشہ معمول بن چکا تھا جس میں آمنہ کا عثمان پر ہاتھ اٹھانا معمول تھا۔ آمنہ نے ٹک ٹاک اور سنیپ چیٹ کا استعمال کرتے ہوئے مختلف مردوں سے تعلق بنانے شروع کر دیئے اور اب پتہ چلا کہ اس کے اکائونٹ متعدد مرتبہ عریاں تصاویر اپ لوڈ کرنے کی وجہ سے بلاک بھی ہوئے۔ عثمان گھر والوں کے سمجھانے کے باوجود اپنے بچوں کے لئے اس خاتون کو چھوڑنے کو تیار نہیں تھا جبکہ آمنہ کے والدین بھی عثمان کو ڈراتے دھمکاتے تھے اور یہ ڈر بھی اس عورت کو چھوڑنے نہیں دیتا تھا جبکہ عثمان کے دل میں یہ بات بھی بیٹھی ہوئی تھی کہ ٹانگ کی معمولی معذوری کی وجہ سے مجھے کوئی اور لڑکی نہیں دے گا۔ پھر 15جنوری 2023ء کا دن آیا اور آمنہ نے عثمان کو کہا کہ میں نے اپنی دوست کو ملنے پتوکی کے پاس گائوں جانا ہے۔ عثمان فوری تیار ہو گیا اور اپنے بچوں کو سسرال چھوڑ کر موٹر سائیکل پر پتوکی کی جانب چل پڑا۔ یہ دن ایک بجے کا وقت تھا۔ اس کے بعد آمنہ رات کو پہلے اپنی ماں کے گھر اکیلی پہنچی اور پھر اپنے سسرال بچوں کو لے کر پہنچ گئی۔ جب عثمان کے والد نے پوچھا کہ’’ رات کے ایک بجے تم اکیلی کہاں سے آئی ہو اور عثمان کہاں ہے‘‘، تو آمنہ نے جواب دیا کہ’’ عثمان کام دیکھنے گیا تھا، واپس نہیں آیا‘‘۔۔ عثمان کے والد جو تہجد کے لئے اٹھے تھے، کے مطابق ان کے منہ سے یہ ہی نکلا ’’ تم اسے ٹھکانے لگا آئی ہو‘‘، اس کے بعد عثمان کے گھر والوں کا برا وقت شروع ہو گیا اور دوسرے دن اس کے اغوا کی ایف۔ آئی۔ آر درج کروا دی اور اس ساری کارروائی میں عثمان کے والد سے زیادہ اس کا سسر پیش پیش تھا۔ بوڑھا محمد افضال، جو عثمان کا والد ہے، نے مجھ سے رابطہ کیا کہ وہ میرے بھائیوں جیسے ہمسائے میاں سخاوت کے برادر نسبتی ہیں۔ اب ہم نے ایس پی ۔ کینٹ آفتاب پھلروان۔ ایس ایس پی انویسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود۔ ڈی آئی جی انویسٹی گیشن سہیل سکھیرا، حتی کہ آئی۔ جی پنجاب سے بھی رابطہ کیا لیکن ان تمام افسران کی کوششوں کے بعد بھی عثمان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ تقریبا چار ماہ گزر چکے تھے۔ جب پولیس نے دو ماہ کے بعد آمنہ اور اس کے والدین کو تفتیش کے لئے بلانا شروع کیا تو ایک دن آمنہ بھی غائب ہو گئی اور آمنہ کے والدین نے اس کے اغوا کی درخواست تھانہ شاد باغ میں مقتول کے والد اور بھائی کے خلاف دے کر مقدمہ درج کروا دیا۔ تقریبا چار ماہ گزر چکے تھے اور عثمان کے ساتھ ساتھ آمنہ کا لاہور پولیس کی تمام تر کوششوں کے باوجود کوئی سراغ نہیں مل رہا تھا۔ عثمان کا والد محمد افضال بوڑھا ہونے کے باوجود مارا مارا پھر رہا تھا اور جب ایک رات وہ میرے پاس آیا تو میں نے فورا ڈاکٹر انوش مسعود کو فون کیا کہ عثمان کا کوئی سراغ نہیں مل رہا وہ بہت پریشان ہوئیں اور بولیں کہ اگر آپ کہتے ہیں تو میں تفتیش تبدیل کروا دیتی ہوں۔ آپ مجھے کل بتا دیں ۔ میں نے اپنے دیرینہ دوست میاں انجم توقیر کو فون کیا اور پوچھا کہ آپ آج کل کہاں ہیں، تو انہوں نے کہا کہ میں آج کل ڈی۔ ایس۔ پی سی۔ آئی۔ اے ہوں۔۔ میں نے ان سے عثمان کا کیس ڈسکس کیا تو انہوں نے فورا محمد افضال کو اپنے دفتر بلوا لیا۔ ایس۔ ایس۔ پی انوسٹی گیشن ڈاکٹر انوش مسعود نے ایک دن میں تفتیش تبدیل کر کے سی۔ آئی۔ اے ( کے۔ آر) کو بھجوا دی۔ پھر آج سے تقریبا ایک ہفتہ قبل صرف پچیس دن میں وہ کام ہوا جو لاہور پولیس سے 4ماہ میں نہ ہو سکا ۔ میاں انجم توقیر ڈی۔ ایس۔ پی ۔۔ سی۔ آئی۔ اے کا مجھے فون آیا اور انہوں نے مجھے بتایا کہ ایک اچھی خبر ہے اور دوسری بری۔ جب تفصیل پوچھی تو انہوں نے بتایا کہ آمنہ کو ہم نے تلاش کر کے گرفتار کرلیا ہے اور بری خبر یہ ہے کہ آمنہ نے اپنے بیس سالہ آشنا حسن رضا کے ساتھ مل کر عثمان کو 15جنوری کو ہی قتل کر کے پتوکی کے قریب حسن رضا کے گھر کے پچھواڑے میں دفن کر دیا تھا۔۔ یہ سانحہ میں نے عثمان کے بزرگ والد محمد افضال اور بھائی فاران کو جیسے بتایا وہ ایک مشکل امر تھا۔ جو تفصیلات معلوم ہوئیں وہ لرزہ خیز تھیں اور آمنہ نے اپنی ذہنی اور جسمانی عیاشی کے لئے حسن نامی لڑکے سے ناجائز تعلقات بنائے اور بے گناہ عثمان کو اس کے گھر دھوکے سے لے جا کر اس کے سر میں گولیاں مروا کر قتل کروا دیا۔ قتل کے دو ماہ بعد حسن نامی لڑکے کے ساتھ پہلے ناجائز رہنا شروع کر دیا اور پھر دنیا کو دھوکہ دینے کے لئے آپس میں اس وقت جعلی نکاح بھی کر لیا جب وہ حاملہ ہو چکی تھی۔ حسن نے پاسپورٹ بنا لیا تھا جبکہ آمنہ کا پاسپورٹ بن رہا تھا جو آمنہ کی ماں بنوا رہی تھی۔ حسن کی زمین بیچ کر دونوں دبئی جانے کے پروگرام پر عمل کرنے ہی والے تھے کہ سی۔ آئی۔ اے کی ٹیم جس کی قیادت ڈی۔ ایس۔ پی۔ میاں انجم توقیر۔ انسپکٹر عاطف اور تفتیشی بنیامین کر رہے تھے، نے ناقابل یقین کارروائی کرتے ہوئے نہ صرف انہیں پاتال سے نکال باہر کیا بلکہ عثمان کی نعش بھی حسن کے گھر کے پچھواڑے سے برآمد کی، جو حیران کن طور پر پانچ ماہ بعد بھی پچاسی فیصد محفوظ تھی۔ دوران تفتیش یہ خوفناک انکشاف بھی ہوا کہ آمنہ نے 15جنوری سے چند روز قبل عثمان کو چوہے مار گولیاں بھی کسٹرڈ میں ملا کر کھلائی تھیں لیکن وہ دو تین قے کرنے کے بعد بچ گیا۔ ہوس۔ لالچ اور جسمانی عیاشی کے لئے قتل کی اس گمنام اور اندھی واردات کو ٹریس کرنے والے سی۔ آئی۔ اے لاہور کے افسران میاں انجم توقیر انسپکٹر عاطف اور بنیامین واقعی آئی جی پنجاب کی جانب سے داد اور تعریف کے سرٹیفکیٹس اور انعام کے مستحق ہیں، جنہوں نے ایک ماہ سے کم عرصے میں مدعی محمد افضال کا ایک پیسہ لگوائے بغیر اس مکار۔ چالاک اور فاحشہ خاتون آمنہ کو بے نقاب کر کے بے گناہ مقتول محمد عثمان کی نعش برآمد کی۔ میں بطور صحافی پولیس اور اداروں کے نقاد کے طور پر جانا جاتا ہوں لیکن سی۔ آئی۔ اے کی اس کارکردگی پر میں مجبور ہو گیا ہوں کہ پولیس ٹیم کی تعریف کروں۔ آئی۔ جی جناب ڈاکٹر عثمان صاحب آپ بھی ان افسران کو تھپکی دیں کہ یہ عوام کے مسائل حل کرنے اور جرائم پیشہ عناصر کا جڑ سے خاتمہ کرنے میں اپنا تن دھن قربان کرنے سے گریز نہ کریں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button