ColumnMazhar Ch

کبھی جمہوریت یہاں آئے .. مظہر چودھری

مظہر چودھری

عوامی و انقلابی شاعر حبیب جالب کا امتیاز یہ ہے کہ وہ ساری زندگی نہ صرف فوجی حکومتوں کے خلاف برسر پیکار رہے بل کہ انہوں نے سیاسی حکمرانوں کے غیر جمہوری طرز عمل کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے اپنی زندگی میں مسلط کیے جانے والے تینوں آمریتوں کی بھر پور مخالفت کرتے ہوئے عوام کے جمہوری و سیاسی حقوق کی حمایت کی۔1962ء میں جب ایوبی آمریت نے جب نام نہاد دستور پیش کیا تو جالب نے اپنی مشہور زمانہ نظم دستور ( ایسے دستور کو صبح بے نور کو میں نہیں مانتا میں نہیں مانتا ) لکھ کر عوامی احساسات و خیالات کی نمائندگی کی۔1970ء کے انتخابات کے بعد جب جنرل یحییٰ خان اور ذوالفقار بھٹو نے اقتدار مشرقی پاکستان کی اکثریتی جماعت کو منتقل کرنے کی بجائے ان پر گولیاں برسائیں تو جالب نے تمام تر جبر کے باوجود ’’ محبت گولیوں سے بو رہے ہو‘‘، لکھ کر جمہوری اصولوں کی نفی کرنے والوں کو کھری کھری سنائیں۔ عام طور پر ہمارے ہاں بھٹو صاحب کا پہلا دور حکومت کافی حد تک جمہوری قرار دیا جاتا ہے لیکن جالب بھٹو کی جمہوریت سے بھی مطمئن نہیں ہوئے۔ بھٹو دور میں انہوں نے ایک طرف ’’ لاڑکانہ چلو، ورنہ تھانے چلو ‘‘، جیسی معروف نظم لکھ کر اس دور کے حکمرانوں کے غیر جمہوری طرز عمل کو آشکار کیا تو دوسری طرف حیدر آباد سازش کیس میں نیپ ( نیشنل عوامی پارٹی ) کے رہنمائوں کے خلاف چلنے والے مقدمے کی سماعت کے دوران جالب نے فی البدیہہ یہ شعر :’’ یہ منصف بھی تو قیدی ہیں، ہمیں انصاف کیا دیں گے ‘‘، کہہ کر اس دور میں جمہوری جبر کی حقیقت بیان کر نے کی کوشش کی۔ ضیا ء الحق کے مارشل لاء میں جب حیدر آباد سازش کیس کے اسیروں کی رہائی ہوئی تو جالب نے اوروں کی طرح بھٹو دشمنی میں آمر وقت سے ہاتھ ملانے اور ضیائی فسطائیت کے ترانے گانے کی بجائے ’’ ظلمت کو ضیا صر صر کو صبا بندے کو خدا کیا لکھنا ‘‘، لکھ کر اس آمریت کی بھی بھر پور مخالفت کی۔ کوئی شک نہیں کہ جالب نے ضیائی آمریت میں بے نظیر کو عقیدت پیش کرتے ہوئے’’ ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے ‘‘، جیسی شان دار نظم کہی لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ آمریت کے بعد جب بے نظیر بھٹو کا پہلا دور حکومت آیا اور عوام کے حالات میں کوئی تبدیلی نہ آئی تو جالب نے یہ بھی کہا:
وہی حالات ہیں فقیروں کے
دن پھرے ہیں فقط وزیروں کے
ہر بلاول ہے دیس کا مقروض
پائوں ننگے ہیں بے نظیروں کے
جالب زندہ رہتے تو یقینا بے نظیر بھٹو کے پہلے دور کے بعد کی جمہوری و آمرانہ حکومتوں کے غیر جمہوری وآمرانہ طرز عمل کی پہلے کی طرح بنا کسی لگی لپٹی عکاسی کرتے لیکن افسوس صد افسوس کہ جالب کے ہوتے ہوئے اور جالب کے بعد کوئی دوسرا شاعر عوام کے جمہوری و سیاسی حقوق کی جالب جیسی عوامی نمائندگی نہیں کر سکا۔ کئی دہائیوں قبل جالب کی لکھی ہوئی لازوال نظم ’’ جمہوریت ‘‘ آج کے حالات پر بھی فٹ بیٹھتی ہے۔ آج بھی یہاں پورا سچ بولنے پر پابندی ہے، آج بھی یہاں سوچ پر تعزیریں ہیں۔ آج بھی چند لوگوں کی بات ہی حرف آخر ہے۔ آج بھی برائے نام جمہوریت ہے۔ تمام تر نعروں اور وعدوں کے باجود یہاں نہ تو ووٹ کو عزت مل سکی ہے اور نہ ہی جمہور کی مرضی و منشا کی کسی کو پروا ہے۔ کسی بھی ملک میں جمہوریت کی کامیابی اور سول بالا دستی کی مضبوطی کیلئے چند لوازمات و شرائط ناگزیر ہوتی ہیں ۔ ایک طرف جمہوریت کی کامیابی کیلئے عوام کی اکثریت کا مناسب طور پر تعلیم یافتہ اور خوشحال ہونا، سیاسی جماعتوں کا تعمیری اور مثبت کردار، رواداری و برداشت، معاشی و سماجی عدل، بنیادی انسانی حقوق کا تحفظ، مقامی حکومتوں کا قیام، ہر سطح پر قانون کی یکساں حکمرانی، آزاد و خودمختار عدلیہ، بااختیار و غیر جانبدار احتسابی فورم، اداروں کا تحفظ، عوام کو مساوی مواقع کی فراہمی اور اعلی سیاسی و اخلاقی اقدار جیسے لوازمات ناگزیر ہوتے ہیں تو دوسری طرف سول بالادستی کے حصول کیلئے عسکری اداروں کی سیاسی عمل میں عدم دلچسپی لازمی شرط ہے۔
پاکستان کے حوالے سے جمہوریت کے لوازمات کا جائزہ لیا جائے تو صورتحال بہت مایوس اور گھمبیر دکھائی دیتی ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے تمام لوگوں کا مناسب طور پر تعلیم یافتہ ہونا ضروری ہے۔ جبکہ پاکستان کی صرف63فیصد آبادی خواندہ ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کی دوسری اہم شرط سماج میں رہنے والے بیشتر افراد کا خوشحال ہونا ہے جبکہ ہمارے ہاں ابھی بھی35فیصد فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی گزار نے پر مجبور ہے۔ جمہوریت کی کامیابی و استحکام کیلئے ووٹ کا صحیح استعمال اشد ضروری ہے اور ووٹ کے صحیح استعمال کے لئے لوگوں کی اکثریت کا مناسب طور پر تعلیم یافتہ اور معاشی طور پر خودکفیل ہونا ناگزیر ہے۔ تعلیمی و معاشی پسماندگی کا شکار آبادی معاشی و سماجی تحفظات کی وجہ سے اپنی مرضی سے ووٹ کا حق استعمال نہیں کر پاتی جس کے نتیجے میں نااہل ، کرپٹ اور استحصالی جاگیر دار طبقہ عوامی نمائندوں کے طور پر ایوان میں براجمان ہو کر عوام کا معاشی و سیاسی استحصال کرنے کے ساتھ ساتھ غیر جمہوری قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو کر جمہوریت اور سول بالادستی کے حصول میں رکاوٹ بنتا رہتا ہے، جمہوری اور سول بالادستی کے حصول کیلئے ملک کے تمام افراد کو بنیادی انسانی حقوق بلاتفریق رنگ و نسل اور عقیدے میسر ہونے چاہیں لیکن بنیادی انسانی حقوق کی فراہمی کے حوالے سے بھی پاکستان کی صورتحال انتہائی مایوس کن ہے۔ جمہوریت کی کامیابی کے لیے بااختیار مقامی حکومتوں کا قیام بھی نہایت ضروری ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے سیاسی حکمرانوں نے مقامی حکومتوں کے قیام کی حوصلہ افزائی نہیں کی۔ فوجی حکومتوں کے دور میں مقامی حکومتوں کا قیام ضرور ہوتا رہا لیکن ان کا مقصد نچلی سطح پر اختیارات کی منتقلی اور جمہوریت کی مضبوطی سے کہیں زیادہ آمروں کے اقتدار کو استحکام بخشنا تھا۔ جمہوریت کی کامیابی اور سول بالادستی کے حصول کیلئے سیاسی جماعتوں کا مثبت کردار اور جمہوری طرز عمل بہت اہمیت کا حامل ہوتا ہے لیکن بدقسمتی سے پاکستان کی بیشتر سیاسی جماعتوں کا کردار انتہائی مایوس کن اور افسوسناک رہا ہے۔ جمہوریت کی مضبوطی کیلئے سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچے کا جمہوری ہونا بہت ضروری ہوتا ہے لیکن ہماری قریبا تمام بڑی سیاسی جماعتوں کے اندرونی ڈھانچوں میں جمہوریت نام کو بھی نہیں۔
اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان میں جمہوریت کے لوازمات پورے نہ ہونے سے جمہوریت کو استحکام نصیب نہ ہو سکا لیکن جمہوری و سول بالادستی کے حصول میں سب سے بڑی رکاوٹ چند ایک مرئی اور غیر مرئی عناصر کی جانب سے جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے یا پھر سیاسی و انتخابی نظام پر اپنی گرفت مضبوط رکھنے کی کوششیں ہیں۔ مقتدرہ کی اجارہ داری کو ختم یا کمزور کرنے کے لیے سب بڑی جماعتوں کا ایک نئے میثاق جمہوریت کے تحت جدوجہد کرنا ناگزیر ہے لیکن بدقسمتی سے سیاسی جماعتیں اکیلے اکیلے اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ اختیار کر کے کمزور ہوتی جا رہی ہیں۔
کبھی جمہوریت یہاں آئے
یہی جالب ہماری حسرت ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button