ColumnJabaar Ch

انقلاب! .. جبار چودھری

جبار چودھری

ملک ایک ہی ہے اور اس کو آگ لگانے والے زیادہ ہوگئے ہیں۔ ادارے اور بھرم دونوں ٹوٹ چکے ہیں۔ لڑائی چومکھی ہے اور پیچھے ہٹنے کے لیے کوئی بھی تیار نہیں۔ نقصان اب صرف نقصان نہیں رہا بلکہ تباہی اور بربادی سے بھی بات آگے بڑھ گئی ہے۔ جس طرح اعجاز چودھری نے کور کمانڈر ہائوس لاہور کو جلاکر اپنے سپوت کو فون پر ’’ خوشخبری‘‘ سنائی کہ کچھ نہیں چھوڑا ہم نے پورا جناح ہائوس ’’ رین سیک‘‘ کر دیا ہے، اسی طرح یہ پورا ملک ’’ رین سیک‘‘ ہورہا ہے۔ لڑائی طاقت کی ہے، لڑائی اقتدار کی ہے اور لڑائی ’’ متعلق‘‘ رہنے کی ہے۔ ایسی لڑائیوں میں اصول نہیں ہوتے۔ نظریات بھی نہیں ہوتے بس ہدف ہوتا ہے کہ طاقت تک کیسے پہنچا جائے۔ جو طاقت میں ہوتے ہیں ان کا ہدف اس طاقت کو اپنے پاس رکھنا ہوتا ہے۔ اس لڑائی میں کسی چونچ اور کسی دم غائب نہ بھی ہو لیکن ’’ پلے‘‘ دھیلا نہیں بچتا۔ پی ٹی آئی نے اپنے قائد کو گرفتار کرنے والوں کو سبق سکھانے کے لیے جو آگ لگائی، اس کے درجنوں جواز ان کے پاس ہوں گے کہ انسان کے پاس اپنا قبیح سے قبیح فعل بھی درست ثابت کرنے کے لیے جواز ہوتے ہیں۔ لیکن جو کچھ کیا گیا وہ کسی بھی حالات میں درست نہیں ہوسکتا۔ پی ٹی آئی نے سارا زہر مسلح افواج کی یادگاروں پر اتارا اور چیف جسٹس صاحب نے عمران خان کو اپنے پاس بلوا کر، ان کو دیکھ کر خوشی سے نہال ہوکر، پھر ان کو اپنا مہمان بنا کر اور وقت کا پہیہ روک کر، ایام کی گردش کو دو دن پیچھے دھکیل کر کھیل وہیں سے دوبارہ شروع کروا کر باقاعدہ منصوبہ بندی سے اس وقت تک عمران خان کی جیت کا اعلان نہیں کیا جب تک اس بات کی تسلی نہیں کرلی گئی کہ ان کی گرفتاری کے تمام سوراخ پوری طرح بند نہیں ہوگئے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کو ایک دن کے لیے مکمل طورپر عمران خان صاحب کی خدمت میں پیش کر دیا گیا۔ انہوں نے جو مانگا وہ ان کے قدموں میں رکھ دیا گیا۔ انہوںنے کہا القادر ٹرسٹ میں گرفتاری ہوئی تھی اس کو کالعدم کر دیں، کردی گئی، انہوںنے کہا کہ اس کرپشن کے کیس میں ضمانت دی جائے، دے دی گئی ۔ انہوں نے کہا کہ لاہور میں تین مقدمات ہیں حفاظتی ضمانت چاہئے، دے دی گئی۔ پھر سوچا گیا کہ کیا عمران خان محفوظ ہوگئے ہیں یا نہیں۔ پتہ چلا نہیں پولیس باہر کھڑی ہے، گرفتاری ہوسکتی ہے۔ مزید سوچ بچار ہوئی تو درخواست دائر ہوئی کہ اسلام آباد کی حدود میں اگر کوئی مقدمہ ہوتو اس میں گرفتار نہ کیا جائے۔ عمران خان کو مشورہ دیا گیا کہ آپ کے اسلام آباد میں محفوظ رہنے کا بندوبست کر دیا گیا آپ بنی گالہ میں قیام کر لیں۔ عمران خان نے کہا نہیں یہ میری شکست ہوگی۔ مجھے واپس لاہور جاکر پیغام دینا ہے کہ طاقت میرے پاس ہے۔ کہانی یہاں ختم نہیں ہوئی۔ پھر درخواست لکھی گئی کہ عمران خان لاہور جانا چاہتے ہیں، اس کا بندوبست کیا جائے۔ پھر عدالت لگی۔ نیا بینچ حاضر ہوا۔ آرڈر آرڈر کی آواز گونجی۔ مدعا سامنے رکھا گیا تو مائی لارڈ نے قلم اٹھایا اور عدل و انصاف کی نئی تاریخ رقم کردی گئی۔ عدالتی تاریخ میں قانون اور ریلیف کی نئی مثالیں لکھ دی گئیں۔ حکم ہوا عمران خان کو اگلے پچھلے کسی مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ عمران خان کو پنجاب ، سندھ ، بلوچستان، خیبرپختونخوا، کشمیر گلگت بلکہ اس صفحہ ہستی پر کسی بھی جگہ درج مقدمے میں گرفتار نہ کیا جائے۔ عمران خان کو کسی بھی معلوم یا نامعلوم مقدمے میں بھی گرفتار نہ کیا جائے۔ جب ان کو پوری طرح عدالتی تحفظ دے دیا گیا تو عمران خان صاحب کی تسلی ہوئی۔ وہ ریاست کی مکمل سکیورٹی میں واپس زمان پارک پہنچا دئیے گئے۔ عمران خان صاحب کی گرفتاری کے جرم میں پی ٹی آئی نے پورے ملک کو آگ اور خون کے حوالے کر دیا۔ لاہور کا کور کمانڈر ہائوس جلادیا۔ پشاور میں ریڈیو پاکستان کی عمارت جلادی گئی۔ میانوالی ایئر بیس کے سامنے نصب اس جہاز کا ماڈل تباہ کر دیا جس نے انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں ہندوستان کو دھول چٹائی تھی۔ جی ایچ کیو کا گیٹ توڑ دیا گیا۔ جی ایچ کیو پر حملہ ایک بار طالبان نے کیا تھا اور اب بلوائی وہاں تک پہنچے۔ شہدا کی یادگاروں کو تباہ کر دیا گیا، بلکہ تضحیک کا نشانہ بنایا گیا۔ مذاق اڑایا گیا۔ اور یہ ساری تصویریں دنیا میں پاکستان کی تضحیک کا ذریعہ بنتی رہیں۔ ہندوستان کے میڈیا کو جشن کا جواز مہیا کر دیا گیا ۔ ان کی چاندی ہوگئی۔ دنیا میں ہر وہ شخص، ادارہ یا ملک جو اپنے عزائم میں پاک فوج کو رکاوٹ خیال کرتا ہے وہ خوش ہوتا رہا اور ہر محب وطن پاکستانی کی آنکھیں نم رہیں۔ عمران خان صاحب جنہوں نے سپریم کورٹ میں آکر کہا کہ وہ مذمت کیوں کریں، انہیں تو کسی بات کا علم ہی نہیں تھا۔ وہ عمران خان ساری صورتحال سے لمحہ با لمحہ آگاہ تھے۔ گرفتاری کی صورت میں کیا کرنا ہے کیسے کرنا ہے یہ سارا منصوبہ وہ بنا کر گھر سے چلے تھے۔ اگر کسی کو شک ہو تو وہ نو مئی کو ان کے دو ویڈیو پیغامات کو غور سے سن لے۔ پہلی ویڈیو جو انہوں نے لاہور سے اسلام آباد روانگی کے وقت بنوائی۔ اس میں صاف کہا کہ ان کی گرفتاری کی صورت میں لوگ باہر نکلیں گے ممکن ہے لوگ کم نکلیں لیکن نکلیں گے ضرور۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ لوگ کم نکلے لیکن ٹارگٹڈ حملوں کے لیے تیاری کرکے نکلے۔ دوسری ویڈیو ان کی گرفتاری کے فوری بعد ریلیز کی گئی جو وہ جانے سے پہلے ریکارڈ کروا کر گئے تھے۔ وہ ویڈیو باقاعدہ اشتعال انگیز تھی۔ لوگوں کو انہوں نے خود بلایا اور اس کا م پر لگایا۔ بعد میں سپریم کورٹ میں جاکر بھلے مکر گئے لیکن اس تشدد سے پہلو بچانا ممکن ہی نہیں ہے۔ اس سارے فسانے میں معزز اعلیٰ عدلیہ کو عمران خان کی رہائی کی فکر رہی اور انہوں نے وہ رہائی ممکن بھی بنادی۔ ہمارے ہاں چیف جسٹس صاحبان کو لامحدود اختیار دئیے گئے ہیں اور وہ ان اختیارات کا استعمال بھی کرتے ہیں اور جواز بھی بیان کر دیتے ہیں۔ ٹھیک ہے یہ ان کے اختیارات ہیں لیکن سوال اس وقت پیدا ہوا جب پوری عدلیہ کو عمران خان کو بحفاظت گھر پہنچانے کے بندوبست کی تو فکر رہی لیکن اس پورے عمل میں کسی معزز جج نے ملک جلانے کا سوال ہی نہیں کیا۔ عمران خان صاحب سے نہ سہی پاک فوج کے شہدا کی یادگاریں جلانے کا کوئی از خود نوٹس ہی لے لیتے۔ آج کے دن تک جب یہ الفاظ لکھے جارہے ہیں ملک کے کسی کونے میں کسی عدالت نے اس آگ اور خون کی جنگ برپا کرنے کا نوٹس نہیں لیا۔ لگ ہی نہیں رہا کہ ملک میں لگنے والی اس آگ کی کسی کو فکر بھی ہے۔ بلکہ الٹا ہورہا ہے کہ لاہور ہائی کورٹ نے بلوے کے الزام میں پکڑے جانے والوں کی رہائی کے احکامات دے دئیے ہیں۔ کیا جاتا تھا کہ چیف جسٹس صاحب نے جس لمحے عمران خان کو دیکھ کر یہ فرمایا کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی اسی سانس میں یہ بھی کہہ دیتے کہ آپ کو دیکھ کر خوشی ہوئی لیکن پاکستان کی گلیوں میں جو کچھ آپ کے کارکنوں نے کیا اس کو دیکھ کر دکھ ہوا؟ چلیں دکھ پر خوشی کو غالب ہی رکھتے لیکن اظہار تو کرتے؟ عمران خان کو رہا کرتے وقت یہی کہہ دیتے کہ عمران خان کو رہا کر رہے ہیں لیکن جنہوں نے جناح ہاؤس جلایا ہے۔ جنہوں نے جی ایچ کیو پر حملہ کیا ہے ان کو رہائی نہیں ملے گی۔ جب جتھہ اشتعال انگیز کام کر رہا ہوتا ہے اس وقت اسے احساس نہیں ہوتا کہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے، بس اپنی طاقت کا احساس ہوتا ہے اور طاقت کا احساس تباہی لاتا ہے۔ اب حملے کرنے والوں کو پکڑنے کا وقت ہے اور گرفتار یاں جاری ہیں۔ جو لوگ عمران خان کی گرفتاری کے بعد ملک میں انقلاب لانے کے لیے گھروں سے نکلے تھے اور غیرقانونی کام کرگئے، اب انہیں سزا ملنے پر کوئی شکوہ نہیں ہونا چاہئے۔ اب فرار اور روپوش بھی نہیں ہونا چاہئے کہ انقلاب لانا آسان نہیں ہوتا۔ انقلاب زندگی کی قربانی مانگتا ہے۔ اب کسی رہنما کو جیل کے ڈر سے بیمار نہیں ہونا چاہئے، بالکل اسی طرح قانون کا بھی سامنے کریں جس طرح نو مئی کو تفاخرانہ لہجے میں اپنی بیٹوں کو فون کرکے انقلاب لانے کی کہانیاں سنا رہے تھے۔ کہانیاں تو ابھی جاری ہیں کہ مولانا اب انقلاب لانے اسلام آباد پہنچ چکے ہیں۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button