ColumnNasir Naqvi

فوری انصاف۔۔۔۔مبارک .. ناصر نقوی

ناصر نقوی

میں اور آپ ہی نہیں، پورا پاکستان خوش ہے کہ اسے زندگی میں ایسے لمحات دیکھنے کو مل گئے جن کی توقعات کبھی نہیں کی گئی تھی۔ ہماری عدالتوں میں لاکھوں مقدمات برسوں سے زیر التواء ہیں۔ ہزاروں عدالت عظمیٰ میں دفن ہیں۔ بہت سے لوگ انصاف کے انتظار میں زندگی ہار گئے اور ان کی دوسری تیسری نسل انصاف کے حصول کے لیے عدالتوں کے چکر میں گھن چکر ہو چکے ہیں اور ابھی بھی غلام گردشوں میں پھنسے ہوئے ہیں۔ ایسے میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ’’ سپیڈی ٹرائل‘‘ کر کے قوم کو یہ پیغام دے دیا کہ مایوسی گناہ ہے۔ فوری انصاف مل سکتا ہے۔ مقدمہ سابق وزیراعظم عمران خان کا تھا جو ’’ نیب‘‘ کی زیر حراست پولیس لائنز گیسٹ ہائوس میں تھے۔ جونہی سپریم کورٹ سے رابطہ کیا گیا انہوں نے فوراً عمران خان اور ذمہ داروں کی طلبی کی، انہیں مکمل سیکورٹی میں بلٹ پروف مرسیڈیز میں بٹھا کر سپریم کورٹ لایا گیا۔ سب نے دیکھا یہ کس قدر خوشی کا موقع تھا کہ عمران خان نیازی جوش جذبات میں ’’ ویل چیئر‘‘ پر بیٹھنا بھی بھول گئے۔ دوڑتے بھاگتے سیڑھیاں اور راہداری عبور کرتے ہوئے عدالت عظمیٰ پہنچے اور چیف جسٹس نے انہیں دیکھتے ہی فرمایا عمران خان صاحبGood to See You اور چند لمحوں بعد جو کچھ پہلے ہوا تھا اسے کالعدم قرار دے کر یہ کہہ کر رہا کرنے کا حکم جاری کیا Wish you Good Luckفرما کر صرف یہ گزارش کی کہ آپ کی گرفتاری پر جس ردعمل کا مظاہرہ ہوا میری خواہش ہے کہ آپ اس کی مذمت کر دیں۔ خان اعظم نے کہا ’’ مجھے تو کچھ پتہ نہیں‘‘ میں گرفتار تھا، مجھے ڈنڈے مارے گئے، چیف صاحب نے عمران خان کوایک مرتبہ پھر مذاکرات کا مشورہ دے کر حالات میں بہتری پیدا کرنے کی تجویز دی لیکن مسلم اُمہ کے عظیم اور پاکستان کے مقبول ترین لیڈر نے کسی بات پر کان نہیں دھرے لہٰذا چیف صاحب نے اندازہ لگا لیا کہ وہ پہلے 48گھنٹے زیر حراست رہے ، لہٰذا وہ کس قدر ذہنی اور نفسیاتی دبائو کا شکار رہے۔ انہوں نے فیصلہ کیا عمران خان اگلے روز ’’ اسلام آباد ہائی کورٹ‘‘ سے رجوع کریں اور اس دوران انہیں پولیس لائنز گیسٹ ہائوس میں ہی سپریم کورٹ کا مہمان رکھا جائے اور انہیں دس مہمانوں سے ملنے کی اجازت دی جائے تاکہ وہ ان سے ’’ خوش گپیاں‘‘ بھی لگا سکیں۔ ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا بلکہ پاکستان کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کو جلسہ عام میں گولی مار دی گئی اور آج تک حقیقی کہانی انصاف کی شکل میں سامنے نہیں آ سکی۔ وزیراعظم سکندر مرزا بھی انصاف کے بغیر ہی دیار غیر میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔ پہلے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو جس طرح عدالتوں کی راہداریوں میں گھسیٹا گیا اور پھر تختہ دار تک پہنچایا گیا وہ داستان بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، پاکستان اور مسلم دنیا کی پہلی خاتون وزیراعظم بے نظیر بھٹو کو جس بے دردی سے شہید کیا گیا وہ بھی سب کو پتہ ہے پھر ان کے خون ناحق کو فوراً دھویا گیا لیکن اس کے دھبے پاکستان کی سیاسی تاریخ کے دامن پر اب بھی عیاں ہیں۔ پھر سابق وزرائے اعظم نواز شریف، شاہد خاقان عباسی، راجہ پرویز اشرف اور موجودہ وزیراعظم شہباز شریف تک جائز ناجائز مقدمات میں جس طرح گھسیٹے گئے وہ بھی کسی سے پوشیدہ نہیں لہٰذا عمران خان سے چیف صاحب کی غیر معمولی رعایتی پیکج سے یہ رائے بنی کہ شائد اب فوری انصاف کی راہیں کھلنے لگی ہیں لیکن شام سے پہلے ہی عبدالقیوم صدیقی، خواجہ طارق رحیم، مسرت جمشید چیمہ، عمران خان آڈیوز نے فلم ختم ہونے سے پہلے ہی ساری کہانی کھول دی۔ جس سے راز فاش ہو گیا کہ یہ سب کچھ سکرپٹ کے مطابق ہو رہا ہے اور گرفتاری کا منظر نامہ اس قدر مضبوط اور اس کی ریہرسل اتنی زبردست تھی کہ ردعمل نے تجویز کردہ ٹھکانوں کو نہ صرف نشانہ بنایا بلکہ ضرورت سے بھی زیادہ تہس نہس کر کے قومی اداروں اور وطن عزیز پر جان نچھاور کرنے والوں کو یوں نذرانہ عقیدت پیش کیا کہ پوری قوم کے سر شرم سے جھک گئے۔ حالات ایسے کشیدہ ہوئے کہ پنجاب اور کے پی کے اور وفاق میں فوج بلانی پڑی۔ ’’ جناح ہائوس‘‘ لاہور کی تباہی کا منظر دیکھتے ہی ہر پاکستانی کے دل سے ایک ہی آواز نکلتی ہے، قائد ہم شرمندہ ہیں۔ پھر بھی ایسے افراد موجود ہیں جو اہم سرکاری و نجی عمارات، ریڈیو پاکستان پشاور، میانوالی، سرگودھا، ایئر بیس، اور سب سے زیادہ جی ایچ کیو پر لشکر کشی پر فخریہ بیانات داغ رہے ہیں۔ امت مسلمہ کے عظیم رہنما سابق مقبول ترین وزیراعظم ہونے کے دعوے دار عمران خان نے انتہائی معصومیت سے یہ کہہ دیا ہے کہ ہم امن چاہتے ہیں، میں گرفتاری کے بعد پرتشدد واقعات اور مظاہروں کا ذمہ دار کیسے ہو گیا؟ جبکہ صدر پاکستان عارف علوی تسلیم کرتے ہیں کہ عمران کی گرفتاری پر ان کے حامی جذباتی ہو گئے انہوں نے عمران خان سے ملاقات بھی کی اور سرکاری و فوجی املاک کو نقصان پر مذمت بھی کی ، بلکہ مشوردہ دیا ہے کہ جبر اور گرفتاریوں کی بجائے سیاسی حل تلاش کیا جائے۔ موجودہ سیاسی بحران میں سب کو صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا جبکہ حضرت مولانا فضل الرحمان اور حکومتی اتحاد کی جماعتوں کا مطالبہ ہے کہ پی ٹی آئی کی سیاسی دہشت گردی پر اس پر پابندی لگا دی جائے لیکن پیپلز پارٹی اور بلاول اس مطالبے کے حمایتی نہیں۔ گرفتاری سے قبل عمران خان کے بیانات اور مراد سعید کی دھمکی بھی ریکارڈ پر موجود ہے اس لیے حکومت قومی املاک کے نقصان اور حساس اداروں کے دفاتر پر ’’ لشکر کشی‘‘ توڑ پھوڑ، لوٹ مار کا حساب کتاب کرنے کے لیے حکمت عملی بنا چکی ہے۔ ذرائع کا دعویٰ ہے کہ ’’ عدالت‘‘ سے کیا پیغامات ملتے ہیں، فوری انصاف صرف لاڈلے عمران خان کو ملتا ہے یا ہر سائل کو اسی طرح برابری کی سطح پر انصاف ملے گا۔ اس سے قطع نظر پکڑ دھکڑ اور گرفتاریوں کا سلسلہ اب تھمے گا نہیں، تحریک انصاف کے قائد اور رہنما عوامی جذبات بھڑکانے میں ملوث ہیں اس لیے جو رہنما ابھی تک روپوش ہیں فورسز اور خفیہ ادارے ان کی بھی تلاش میں ہیں۔ اسی طرح قومی اداروں کے مصلحت پسند افسران اور اہلکاروں کے خلاف بھی تحقیقات شروع کرنے کے ساتھ انہیں بدلا بھی جا رہا ہے۔ انٹیلی جنس بیورو کی رپورٹ کے مطابق عمران خان کے بیانات کے باعث ملک بھر میں پرتشدد واقعات رونما ہوئے اور ان کی رہائی بھی شدید ردعمل کا باعث بن سکتی ہے۔ حقیقت یہی ہے کہ قومی اداروں کو نقصان پہنچاتے ہوئے حساس جگہوں کو جس طرح نشانہ بنا کر لوٹ مار کی گئی اس میں کھربوں کا مالی نقصان ہی نہیں ہوا اس سے زیادہ قومی حمیت کا نقصان جو گزشتہ 75سالوں میں کوئی نہیں کر سکا، خون خرابے سے بچنے کے لیے مصلحت پسندی کا مظاہرہ کیا گیا لیکن شرپسندوں نے چوروں اور ڈاکوئوں کا انداز اپنایا۔ یہ اچکے مرغی، مور اور جانور اچک کر ہی نہیں بھاگے، معمولی کھانے پینے کی اشیاء بھی ان سے محفوظ نہیں رہیں۔ بلکہ تاریخی جناح ہائوس کو بھی نذر آتش کر کے بابائے قوم اور شہدائے ملت کو خراج تحسین پیش کر گئے۔ تاہم ملک بھر سے ان تشدد پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ اور مجرموں کو کیفر کردار تک پہنچانے کا مطالبہ موجود ہے۔ حکومت اور قومی ادارے بھی اسی سوچ کے مطابق حکمت عملی بنا رہے ہیں کیونکہ حکومتی رٹ اور اداروں کا وقار اب کسی چیلنج سے کم نہیں بلکہ ان مشکل حالات میں ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو مستقبل میں ایسے مزید سانحے بھی رونما ہو سکتے ہیں۔جس کیس میں سابق وزیراعظم کی گرفتاری پھر رہائی اور پھر مزید ڈرامائی کارروائیاں ہوئیں وہ بھی بڑا دلچسپ ہے وہ کہتے ہیں کہ ’’ صاف چلی، شفاف چلی، تحریک انصاف چلی‘‘ لیکن چوروں اور لٹیروں کو ایک ’’ عظیم یونیورسٹی‘‘ بھی ہضم نہیں ہو رہی۔ یہ سوہاوہ کے ٹیلوں میں ایک کارنامہ ہے جو کاروباری ادارہ نہیں، بشریٰ بی بی کی سرپرستی میں یہ ادارہ اپنی مثال آپ ہے جبکہ حکومت اور نیب کے مطابق یہ 68ارب کا قومی خزانے پر ڈاکہ ہے حالانکہ وہ اپنے دور میں دیانت داری اور امانت داری کے حوالے سے خلفائے راشدہ کے انصاف کی کہانیاں سناتے تھے لیکن انہیں تو چیف جسٹس آف پاکستان ثاقب نثار نے صادق و امین کی ڈگری جاری کر رکھی تھی۔ یہی وجہ ہے کہ جونہی برطانوی حکومت نے 60ارب کی رقم واپس کی انہوں نے اپنے کار خاص شہزاد اکبر سے ایک بند لفافہ کابینہ اجلاس میں دکھایا اور منظور کرا لیا۔ کسی کو نہیں پتہ تھا کہ اس میں کیا ہے۔ اس کو کہتے ہیں ’’ صاد ق و امین‘‘ کا اعتبار، بعد ازاں یہ راز کھلا کہ اس منظوری کے ذریعے اربوں کی رقم ایک اشارے پر ’’ پراپرٹی ٹائیکون‘‘ ریاض ملک کے اکائونٹس میں چلی گئی، وہ سمجھتے تھے ، بات ختم پیسہ ہضم، لیکن اسی رقم کے عوض 490کنال اراضی ’’ القادر ٹرسٹ‘‘ کو دی گئی اور تعمیر بھی مکمل ہو گئی جس کے حقیقی ذمہ داران خان اعظم اور بشریٰ بی بی ہیں۔ سابق وزیراعظم اور ان کے ساتھی تو جنرل ( ر) باجوہ کی سرپرستی میں پندرہ سال کے اقتدار کا منصوبہ بنا کر تخت نشین ہوئے تھے لیکن تخت کا تختہ صرف ساڑھے تین سال میں ہو گیا۔ ہم اور ہمارے جیسے بہت سے دوست نشاندہی کرتے رہے کہ ’’ وقت‘‘ کبھی ایک سا نہیں رہتا لیکن عمران خان کے اردگرد ایسے نادان دوستوں اور ’’ ڈیوٹی فل‘‘ لوگوں کا گروہ تھا جو انہیں بتاتے تھے آپ جیسا پوری دنیا میں کوئی دوسرا پیدا نہیں ہوا۔ آپ آپ ہیں باقی سب دھوکہ۔ لیکن ان کے ساتھ ہی جب دھوکہ ہوا تو اوسان خطا ہو گئے۔ ایک سال میں احتجاج، جلسے ، ریلیاں، دھرنے، لانگ مارچ اور جیل بھرو تحریک سمیت ہزاروں جتن کر لیے لیکن مطلب کا رزلٹ حاصل نہیں کر سکے۔ الیکشن، الیکشن مانگتے مانگتے ضمانتیں مانگنے پر مجبور ہو گئے لیکن جلسوں اور خطابات میں لڑنے اور مرنے کی تلقین کرتے رہے، چھین کے آزادی لینے کے لیے بھی پرعزم رہے۔ لوگ اسمبلیاں نہ توڑنے کا مشورہ دیتے رہی لیکن ضدی بچے نے اپنی ضد پوری کر ا لی، نتیجہ سامنے ہے۔ فوری انصاف بھی مل رہا ہے اور رہائی نہ ملنے پر پہلے جیسا سخت ردعمل کی دھمکی بھی موجود ہے۔ وہ ردعمل جس میں ملکی تاریخ کی سب سے بڑی قومی اور اخلاقی تباہی بھی ہوئی۔ پھر بھی قوم کو حقیقی آزادی درکار ہے اسے کون سی آزادی چاہیے ، فی الحال تو اس کا مطالبہ ہے کہ ملک کو امن کا گہوارہ بنایا جائے۔ معاشی، سیاسی اور آئینی بحران کی آڑ میں دہشت گردی اور سیاسی دہشت گردی کے خلاف سخت اور منفرد ایسی کارروائی کی جائے کہ وہ نشان عبرت بن جائیں۔ یہ لوگ قومی تذلیل اور جگ ہنسائی کا باعث بنے ہیں اس لیے کسی رعایت کے مستحق نہیں۔ کاش اس قومی مطالبے پر بھی فوری انصاف مل جائے ؟ فی الحال تو انصاف صرف عمران خان کے لیے ہے جسے یکطرفہ قرار دیا جا رہا ہے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button