ColumnQaisar Abbas

چین کی ترقی اور قراقرم .. قیصر عباس صابر

قیصر عباس صابر

آج دنیا بھر میں ابھرتی ہوئی معاشی طاقت تسلیم کئے جانے والے ملک چین کے معاشی حالات کو دو زمانوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا بدحالی اور تنہائی کا زمانہ شاہراہ قراقرم بننے سے پہلے کا دور تھا اور پھر اس سڑک کی تعمیر کے بعد چین پر خوشحالی کے دروازے کھلتے گئے اور وہ جدید دنیا میں بطور ترقی یافتہ ملک شامل ہو گیا۔ مجھے شاہراہ قراقرم پر پچیس بار سفر کا تجربہ ہے اور میں اس سٹیٹ آف دی آرٹ شاہراہ کے اطراف میں پھیلے مناظر اور مشکل ترین سفر کے آسان احساس کا شاہد ہوں۔ میں نے اسلام آباد سے ناران اور پھر براستہ بابو سر ٹاپ کئی بار زیرو پوائنٹ چوک سے قراقرم ہائی وے پر سفر کیا ہے اور متعدد بار قراقرم نے مجھے مانسہرہ سے ہی اپنا مسافر بننے کی اجازت دی۔ دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ بل کھاتی قراقرم ہائی وے کبھی جگلوٹ تک ویران تھی اور اب تو ہر طرف آباد ہو چکے قصبے ہیں جہاں ضروریات زندگی کی تمام اشیا کی دستیابی کے ساتھ ساتھ اے ٹی ایم اور پٹرول پمپ بھی کھل چکے ہیں ۔ پاکستان میں 1956 سے 1958تک تعینات رہنے والے چین کے سفیر جنرل چینگ بائیو نے چین کو گلگت سے ملانے کی خواہش کا پہلی بار اظہار کیا تھا۔ 1963میں دونوں ممالک کے درمیان اعلیٰ سطح کی بات چیت ہوئی اور پھر 1966میں اس اہم سڑک کی تعمیر کا آغاز ہوا۔ قراقرم کی تعمیر میں پاکستان اور چین کے پچیس ہزار مزدوروں اور کارکنوں نے حصہ لیا تھا ۔ اس وقت کم وسائل اور محدود مشینری کے باوجود سنگلاخ چٹانوں کو کاٹ کر ہموار راستہ بنانا ایک ناممکن کام تھا اور اس مشکل ترین کام کے دوران 408کارکن مارے بھی گئے تھے ۔ شاہراہ قراقرم دنیا کی بلند ترین سڑک ہے جس کی لمبائی 1300کلومیٹر ہے ۔ خطے میں معاشی انقلاب لانے والی اس سڑک کا 806کلومیٹر حصہ پاکستان جبکہ 494کلومیٹر چین میں ہے۔ حویلیاں سے شروع ہونے والی یہ شاہراہ چین کے شہر کاشغر پہنچ کر ختم ہوتی ہے۔ قراقرم کے چین پر بہت احسانات ہیں۔ 1979میں پہلی بار چین کے شہریوں کا جدید دنیا سے زمینی رابطہ بھی اسی سڑک کی بدولت قائم ہوا تھا۔ اس سے پہلے چین دنیا سے کٹا ہوا ملک تھا جس کی فلائٹ کسی دوسرے ملک میں نہیں جاتی تھی اور نہ ہی کوئی ملک چین میں اپنی فلائٹ اتارنے پر راضی تھا ۔ چین میں قرآن مجید کی اشاعت پر پابندی تھی اور چینی مسلمان قرآن پاک کی زیارت کئے بغیر ہی دنیا سے چلے جاتے تھے۔ حج اور عمرہ کرنے کی خواہش بھی چین کے مسلمانوں کے دلوں میں ہی رہ جاتی تھی۔ شاہراہ قراقرم بننے کے بعد چین کے لوگ گلگت سے ہوتے ہوئے اسلام آباد پہنچے اور یہاں سے دنیا بھر میں پھیلتے گئے ، انہوں نے پاکستان کے ہوائی اڈے استعمال کئے اور پھر دنیا ان پر اپنے دروازے کھولتی گئی۔ قراقرم بننے کے بعد خنجراب پاس سے چلاس تک کے علاقے سیاحوں کو اپنی طرف بلانے لگے اور پھر نانگا پربت، فیری میڈوز، تین پہاڑی سلسلوں کا ملاپ، راکا پوشی اور شمشال جیسے خوبصورت نظارے عام آدمی کو میسر آئے جس سے ان علاقوں میں ترقی و خوشحالی کا ایسا دور شروع ہوا جس سے شرح خواندگی 14فیصد سے ساٹھ فیصد تک جا پہنچی۔ خواتین میں شرح خواندگی بھی تسلی بخش رہی۔ ہنزہ، سوست، نگر اور غذر کے لوگ اب دنیا بھر میں پاکستان کی روشن مثال ہیں۔ شاہراہ قراقرم کے وہ حصے جہاں لینڈ سلائیڈنگ کی وجہ سے رکاوٹیں آتی تھیں اور چین سے پاکستان تجارتی سامان لانے والی گاڑیاں کئی کئی دن رکی رہتی تھیں، اب وہاں ٹنل بنا دئیے گئے ہیں جن کی لمبائی دو کلومیٹر سے دس کلومیٹر تک ہے، جس کی وجہ سے اب قراقرم سال بھر کھلی رہتی ہے۔ چین اب تسلیم کرتا ہے کہ اگر پاکستان اسے قراقرم کے ذریعے آسان رسائی نہ دیتا تو شائد اب بھی وہ تنہائی کاٹ رہا ہوتا ۔ ایک سڑک کی تعمیر نے خطی کو معاشی طور پر مضبوط کر دیا ہے۔ سی پیک جیسے منصوبے دراصل شاہراہ قراقرم کی ہی توسیع ہیں۔ ضلع نگر کے سکول ٹیچر اکبر حسین راہی نے بتایا کہ شاہراہ قراقرم نے پہلے نقشے کے مطابق نگر کی ریاست سے گزرنا تھا مگر ان کے ان پڑھ بزرگوں نے سڑک کے گزرنے کو اپنی تہذیب کی تباہی سے جوڑ دیا اور ہنزہ والوں نے قراقرم کی گزرگاہ کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور پھر وہ سیاحت، تعلیم اور خوشحالی میں نگر سے آگے نکل گئے۔

یہ بھی پڑھیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button